مشورہ: ضرورت،اہمیت اور طریقہ کار
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
__________________
بہت سارے معاملات ومسائل وہ ہوتے ہیں، جن میں انسان خود سے فیصلہ نہیں کر پاتا، یہ مسائل ومعاملات انفرادی بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی بھی، انفرادی معاملات میں دو طریقے شریعت نے ہمیں بتائے ہیں، ایک استخارہ دوسرا استشارہ، اجتماعی معاملات میں صرف استشارہ یعنی صائب الرائے لوگوں سے مشورے طلب کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کاارشاد ہے وَشَاوِرْہُمْ فِی الأَمْر(آل عمران: 159) وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُم (الشوریٰ: 38)
پہلی آیت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ معاملات میں صحابہ کرام سے مشورہ کرتے ہیں اور دوسری آیت میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنے رب کے حکم ماننے، نماز قائم کرنے اور مال خرچ کرنے کے ساتھ اپنے معاملات مشورے سے حل کیا کرتے ہیں، استخارہ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو استخارہ کرکے کام کرتا ہے وہ ناکام نہیں ہوتا،اور وہ ندامت وملامت وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے، ”ما شقی عبد بمشورۃ وما سعد استخار رائی (قرطبی 161) ایک دوسری روایت میں ہے کہ ما خاف من استخار ولاندم من استشار (المعجم الاوسط للطبرانی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے۔ المشورۃ حصن من الندامۃ وامن من الملامۃ (ادب الدنیا والدین ج۱ ص 277)
استخارہ دعا ہے اور اس کا مقصد اللہ رب العزت سے اعانت علی الخیر ہے، یہ اتنا اہم کام ہے کہ حضرت انس ؓ کی ایک روایت میں ایک معاملہ میں سات مرتبہ استخارہ کرنے تک کی بات کہی گئی ہے، اور پھر استخارے کے بعد قلب کے رجحان کو دیکھاجائے کہ اللہ کیا القاء کرتے ہیں، اگر رجحان کام ہونے کی طرف جاتا ہے تو کر گذرا جائے اور اگر نہیں ہونے کی طرف رجحان ہے تو باز آجایا جائے، کبھی رجحان صاف نہیں پتہ چلتا ایسے میں بار بار استخارہ کرنے کے ساتھ صائب الرائے لوگوں سے مشورہ کرلیا جائے اور اللہ کے بھروسے مشورے کے بعد کام شروع کر دیا جائے۔
مشورے کی تاریخ بہت قدیم ہے، بعض لوگوں نے تخلیق آدم کے وقت اللہ رب العزت کا فرشتوں سے مشورہ کرنے کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں وہ مشورہ نہیں، تخلیق آدم کا فرشتوں کے درمیان اعلان تھا۔اس اعلان پر فرشتوں کا جو ردعمل سامنے آیا، وہ قرآن کریم میں مذکور ہے ۔
ہے۔
قرآن کریم میں ملکہ سبا بلقیس کا اپنے درباریوں سے مشورے کا بھی تفصیلی ذکر مطلوب ہے، اور درباریوں کے مشورے کو نہ ماننے کی بات بھی اسی واقعہ میں مذکور ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام سے بدر کے قیدیوں اور جنگ احد میں مشورہ کرنا اور حضرت ابو بکر ؓ کے مشورہ کو بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں مان لینا، جنگ احد میں خود آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کے اس مشورہ کو مان لینا کہ کفار سے لڑائی مکہ سے باہر لڑی جائے، حالاں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا رجحان یہ تھا کہ لڑائی مدینہ کی سرحد اور اس کے قریب ہو، لیکن جب صحابہ کرام ؓکا مشورہ باہر نکل کر لڑنے کا آیا تو آپ نے اسے مان لیا اور ہتھیار بند باہر تشریف لائے، اس وقت تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ہم سے مشورہ دینے میں غلطی ہوئی ہے، انہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کو ہی ترجیح دینے کی بات کہی تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی اور رسول جب ہتھیار باندھ لیں تو بغیر لڑائی کے اسے نہیں کھولا کرتے، چنانچہ یہ لڑائی باہر ہی لڑی گئی اور اس کا نقصان جو ہونا تھا ہوا، ایک صحابیہ حضرت بریرۃؓ غلام تھیں آزاد ہو گئیں، ان کے شوہرحضرت مغیث ؓغلام تھے، وہ ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھیں، جس کا حق ان کو باندی سے آزادی مل جانے کی وجہ سے ملا تھا، لیکن شوہر کو ان صحابیہ سے بے پناہ محبت تھی، جدائی گوارہ نہیں تھی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرۃ ؓکو بلا یا اور فرمایا کہ تم ان سے نکاح کر لو، حضرت بریرۃ ؓنے فرمایا کہ یہ آپ کا مشورہ ہے یا حکم، ارشاد ہوا، مشورہ، پھر حضرت بریرۃ ؓ نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس کو نہ ماننے سے نہ تو ان کا ایمان خطرہ میں پڑا اور نہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر کوئی بال پڑا کہ اس نے میرا مشورہ کیوں نہیں مانا۔
قرآن واحادیث کے انہیں واقعات اور آیات کی روشنی میں مدارس، مساجد، ادارے، تنظیمیں، جماعتیں اور جمعیتیں اپنے تنظیمی ڈھانچے کو چست درست رکھنے کے لیے مجلس شوریٰ کی تشکیل کرتی ہیں ارکان سے مشورے لیے جاتے ہیں اور کثرت رائے پر جمہوری انداز میں فیصلے ہوتے ہیں، آپ جانتے ہی ہیں کہ جمہوریت میں سَر گنے جاتے ہیں، تولے نہیں جاتے، اسی طرح مشورہ کی مجلسوں میں کثرت آرا پر فیصلے ہوتے ہیں، حالاں کہ اسلام کثرت آرا پر فیصلہ کے بجائے قوت دلیل کوفیصلہ کی بنیاد قرار دیتا ہے۔
اللہ مغفرت فرمائے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین ؓ کی، چمپارن کے علاوہ جن مدرسوں کے وہ صدر اور سرپرست تھے، بیش تر کی میٹنگوں میں نمائندگی کے لیے مجھے بھیجا کرتے تھے، ایک مدرسہ کی میٹنگ میں ان کی نمائندگی میں کر رہا تھا اور مجلس شوریٰ کا ایک رکن مدرسہ کے ذمہ داروں کے خلاف طعن وتشنیع، بدگوئی، بلکہ گالی گلوج پر اتر آیا تھا، مجلس کی صدارت ایک با وقار بزرگ فرمارہے تھے، میں تھوڑی دیر تو بر داشت کرتا رہا، پھر پوچھا کہ جن کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، اسے ممبر مجلس شوریٰ کس نے بنا دیا، معلو م ہوا کہ یہ مدرسہ کو پانچ کوئنٹل گیہوں دیا کرتے ہیں، اس لیے ان کو رکن مجلس شوریٰ منتخب کیا گیا تھا، ظاہر ہے یہ ایک غیر عملی اور غیر منطقی معاملہ ہے، مجلس شوریٰ کے ارکان کا انتخاب داد ودہش اور چندہ دینے کی وجہ سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ صائب الرائے ہونا چاہیے، اپنی بات رکھنے کا سلیقہ ہونا چاہیے اور تنقید بھی مجلس میں پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ کرنی چاہیے۔
ایک بار مجلس عاملہ امارت شرعیہ کے لیے ہم لوگوں نے ایک ایسے آدمی کا نام حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کی خدمت میں پیش کیا، جو حضرت کے مرید خاص، حاضر باش اور بڑے معتقد تھے، ہم لوگوں کے نام لیتے ہی فرمایا کہ وہ میرے مرید ہیں اور میں ان کی صلاحیت کو جانتا ہوں، اس لیے ان صاحب کے بارے میں آپ لوگ مجھ سے کچھ نہ کہیں، پھر فرمایا:مرید ومعتقد ہونا اور بات ہے اور صحیح مشورہ دینے کی صلاحیت کا ہونا الگ بات، ایک کو دوسرے سے خلط ملط نہیں کر نا چاہیے۔ اسی وجہ سے حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ نے بیعت امارت اور بیعت طریقت کو الگ الگ بتایا ہے۔
ایک موقع سے مولانا سید نظام الدین ؒ کو بعض لوگوں نے ایک کلیدی عہدہ پر ایک صاحب کونامزد کر نے کا مشورہ دیا، ان کے فضائل اور خصوصیات کا ذکر کیا، حضرت نے فرمایا؛ وہ میرے شاگرد رہے ہیں، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں اور اس مشورہ کو نہیں مانا۔
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مشورہ کا مان لینا ضروری نہیں ہے اور ہر آدمی اس لائق بھی نہیں ہوتا کہ وہ مشورہ دے، اس لیے بہت سوچ سمجھ کر مشیر کار اور ارکان شوریٰ کا انتخاب کرنا چاہیے، مشورہ دینے والوں میں علم، صلاحیت، خلوص، تقویٰ کا غالب عنصر ہونا چاہیے، اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن امور میں مشورہ لیا جا رہا ہے، مشورہ دینے والا اس مسئلہ کا جانکار اور ماہر بھی ہو، ظاہر ہے”کاشتکاری“ کے بارے میں ”ولکنائز“ کی دوکان والے سے مشورہ لیا جائے تو وہ صحیح مشورہ نہیں دے سکتا، آرٹس کے طالب علم سے سائنسی معاملات ومسائل کے بارے میں مشورہ کیا جائے تو صحیح بات سامنے نہیں آسکتی، ڈاکٹر سے تعمیر مکان پر مشورہ لیا جائے تو بے وقوفی کی بات ہوگی، اس لیے مشیر کاروں کے انتخاب کا معاملہ بہت اہم ہوجاتا ہے اور اسی پر صحیح فیصلے کا مدار ہوتا ہے، مشہور ہے کہ حضرت علی ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کے پیش رو کے وقت میں تو ایسے احوال نہیں تھے، فرمایا کہ ہاں ان کے مشیر کار ہم جیسے لوگ تھے اور ہمارے مشیر کار تم جیسے لوگ ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ سے مشورے کی مجلس نہ صرف غیر مفید ہو رہی ہے، بلکہ اس کے نقصانات بھی سامنے آتے ہیں،ا س لیے ضروری ہے کہ شریعت میں جو مشورے کی اہمیت ہے اس کو سامنے رکھا جائے، مشورہ کے پہلے مشورہ کی دعائیں پڑھی جائیں، اللہ رب العزت سے خیر وصواب طلب کیا جائے، اللہم الھمنی رشدی واعذنی من شرنفسی الی اللہ۔ میرے اللہ میرے دل میں وہ بات ڈال دے جس میں میرے لیے بہتری ہو اور نفس کے شر سے میری حفاظت فرما۔اپنی رائے پر اصرار نہ کیا جائے؛ بلکہ قوت رائے کو اہمیت دی جائے، اور جب کوئی فیصلہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرکے کام شروع کر دیا جائے، یہی اللہ کا حکم ہے، فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِینَ (159)