قربانی پر میرے بکرے نے دل چھلنی کردیا؛ایک دردانگیز و سبق آموز واقعہ
✍️محمد اطہر القاسمی
نائب صدر جمعیت علماء بہار
_____________________
گذشتہ کل بکرے کی قربانی کے موقعے سے ایک ایسا درد انگیز واقعہ پیش آیا جس نے میرے قلب و جگر کو چھلنی کردیا۔واقعہ یوں ہے کہ ہمارے گھر میں دو بکرے تھے،ہم نے سال گذشتہ دونوں بکرے دو الگ الگ لوگوں سے خریدے تھے،یہ دونوں بکرے مہینہ دن میں ہی ایک دوسرے کے ایسے وفادار دوست بن گئے تھے کہ ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا،چلنا پھرنا،کھانا پینا،اچھلنا کودنا حتیٰ کہ آنگن میں برآمدے کی سیڑھیوں پر ایک ساتھ گلے میں گلے ڈال کر سوجانا ان کی عادت بن چکی تھی،گھر آتے جاتے جب جب ان دونوں کی اس محبت و شیفتگی پر نظر پڑتی تو ٹکٹکی بندھ جاتی کہ آخر جانور بھی اتنے مانوس اور عقلمند ہوتے ہیں!
الحاصل کل بقرعید کا تیسرا دن تھا،گھر کے مشورے سے ہم نے صبح ان میں سے ایک کی قربانی کردی،قربانی کے لئے جب ہم بکرا دروازے پر لے جانے لگے تو دوسرا بکرا بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا،ہم نے آنگن کا گیٹ لگادیا اور یوں چھپاکر ایک کی قربانی کردی،لیکن دیکھا کہ وہ بکرا گیٹ کی خالی جگہ سے مسلسل اپنے بکرے ساتھی کو دیکھ رہا ہے اور تیز آوازیں لگارہا ہے،ہم نے جب بچوں سے کہاکہ اسے اور دور ہٹا دو تو وہ گیٹ پر سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا اور یوں وہ ٹکٹکی باندھے کھڑا ہوکر دروازے کی طرف دیکھتا رہا۔
خیر قربانی ہوگئی،گوشت بن گئے، اپنے لئے رکھ کر خویش و اقارب اور پڑوس میں تقسیم بھی کرلئے گئے،ظہر کی نماز پڑھ کر جب میں آنگن آیا تو دیکھا کہ وہ بکرا جس برآمدے پر کل شام کو ساتھ مل کر بیٹھا تھا،بعینہ اسی جگہ چاروں پاؤں ایک جگہ لپیٹ کر اپنا منہ چھپائے ہوئے بیٹھا ہوا ہے،کھانا کھاکر ہم سوگئے،عصر بعد پھر دیکھا تو وہ اسی جگہ پر بیٹھا تھا،وہاں سے کہیں نہیں گیا حتی کہ اس نے اپنی ہیئت بھی تبدیل نہیں کی،ہم نے اسے جگایا اور بچوں سے کہاکہ انہیں کچھ کھانے کو دیجئے،لیکن کل اس نے کچھ نہیں لیا،یوں شام پھر رات ہوگئی اور جب یہ چند سطور لکھ کر فارغ ہوا تو رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے،یہ بکرا برآمدے پر مسلسل کھڑا رہا اور آوازیں لگاتا رہا،شب وروز کے اس کے ساتھی کی کمی نے اسے شدت سے بےچین کررکھا تھا اور اسے کسی کَل سکون نہیں مل رہا تھا۔یہ بار بار ادھر اُدھر دیکھتا رہا کہ شاید اب بھی میرا ساتھی آجائے اور میں اس کے ساتھ اس کے شانے پر اپنا رخسار رکھ کر چین کی نیند سو جاؤں۔
رفقاء گرامی!
طبیعت کچھ مضمحل تھی، اس لئے دس بجے ہی سوگیا تھا، لیکن بکرے کی لگاتار آواز نے مجھے بھی اندر سے بےچین کردیا اور جب بےچینی کی شدّت بڑھنے لگی تو دل کے جذبات رقم کرنے پر مجبور ہوگیا۔بےچینی و بے قراری میں ڈیڑھ بجے تک ذہن میں جو کچھ آیا بلاتکلف رقم کردیا،بکرا بھی خاموش ہوگیا اور مجھے بھی نیند آگئی،اب جب فجر کے بعد بکرے کے پاس گیا اور سر پر ہاتھ پھیرا تو کچھ وقفہ کے لئے خاموش ہوگیا لیکن اس کی بےچینی کا سلسلہ جاری ہے،خیر مضمون کا بقیہ حصہ اب صبح پورا کررہا ہوں۔
رفقاء گرامی!
کل سے ہی میرا قلب و باطن مجھے کچوکے لگارہا ہے اور ذہن وفکر کو جھنجھوڑ کر مجھ سے یہ سوال کررہاہے کہ بلاشبہ تم آدمی تو ہو لیکن کیا تم انسان بھی ہو؟اگر واقعی انسان ہو تو کیا تمہاری انسانیت زندہ ہے؟آج میرا ضمیر مجھ سے بار بار یہ کہ رہا ہے کہ ہاں ہم آدمی تو ہیں لیکن انسان نہیں اور اگر کنکر و پتھر کے بجائے گوشت و پوست کے ساتھ تخلیق کی وجہ سے ہمیں انسان تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس میں ذرہ برابر شبہ نہیں کہ ہم سے اچھے یہ بکرے اور جانور ہیں جو محض اپنے ایک سالہ رفیق کو کھو دینے پر از صبح تا شب اس کے فراق میں تڑپ رہے ہیں اور بھوکے پیاسے اپنی آنکھیں بھگو کر اپنے ساتھی کو خراج عقیدت پیش کررہےہیں۔
لیکن سچ مچ کا وہ انسان جو وجہِ تخلیقِ کائنات بنا، رب نے جسے کائنات کا خلیفہ بنایا،جس کے لئے ساری خلقت کو تابع و فرماں بردار بنایا گیا،جسے مخلوقات میں سب سے معزز و مکرم اور مشرف و معظم بنایا گیا،یہ گرچہ ایک حقیر نطفے سے پیدا ہوا تھا لیکن اس کی رہائش اور آرائش و زیبائش کے لئے رب العالمین نے سو جتن کئے؛وسیع و عریض زمین بچھائی،زمین کے قرار کے لئے بڑے بڑے پہاڑ بنائے،آسمان کی بلند ترین خوبصورت چھت بنائی،اس نیلگوں چھت پر سورج و چاند کے علاوہ رنگ برنگے ستارے و سیارے کے جگمگاتے جھومر لگائے،جینے کے لئے آگ پانی اور ہوا چلائی،کھانے پینے کے لئے انواع واقسام کی چیزیں پیدا کی،زندگی کو مزید پرکیف بنانے کے لئے مرد وعورت کے جوڑے بھی بنائے،ان جوڑوں سے نسلیں چلائی،نسلوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا،پھر گھر آنگن آباد ہوئے،خاندان و رشتے داریاں بنی،محلے اور پڑوسیوں سے زندگی کی رونقیں بڑھائی، علم و ادب کے زیور سے آدابِ زندگی سکھائے،گاؤں سماج اور معاشرتی تعلقات سے جینا آسان بنایا اور یوں ساٹھ اور ستر سالہ زندگی بسر کرنے کے لئے شعور و آگہی،عقل سلیم اور فطرت سلیمہ بھی نصیب فرمائی لیکن ان تمام نعمتوں اور عنایات و نوازشات کے ساتھ اسے شتر بے مہار نہیں چھوڑا بلکہ اپنے خالق و مالک کو یاد رکھنے اور اس کی زمینی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لئے اس کے ہاتھوں میں قرآن وسنت کی شکل میں ایک گائڈ بک بھی عطاء فرمایا اور ہدایت جاری کہ میری اس دھرتی پر چند روزہ زندگی گذارنے کے بعد دوبارہ میرے پاس لوٹ کر آنا ہے اور ایک ایک دن ہی نہیں بلکہ ایک ایک پَل کی اچھائی اور برائی کا حساب و کتاب بھی دینا ہے۔اس لئے حکم ہوا کہ پوری زندگی انسانیت کے اعلیٰ معراج پر فائز ہوکر میرے دربار میں حاضری دینا،پھر دیکھنا کہ اس وسیع وعریض دھرتی اور کائنات کی جملہ رعنائیوں سے بڑھ کر بےشمار انعامات و اعزازات کے ساتھ تمہیں ابدی زندگی نصیب ہونے والی ہے۔
رفقاء گرامی!
ہمارے بکرے کی لگاتار آوازوں نے مجھے آج بار بار یہ بتایا کہ آج کا انسان اپنی انسانیت کے فرائض بھول چکا ہے،اس کے اندر کی انسانیت و شرافت،پیار ومحبت،ہمدردی و اخوت،وارفتگی و شیفتگی،جذباتی لگاؤ اور آپسی خلوص یکسر ختم ہوچکاہے۔اسی لئے گھر آنگن سے لےکر بھائی بھائی،چچا بھتیجے،خاندان و رشتے دار،محلہ پڑوس اور گاؤں سماج میں افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کا ماحول ہے،چند مخصوص بندگانِ خدا کو چھوڑ کر کوئی کسی کے لئے مخلص نہیں،کسی کے دل میں کسی کے لئے سچی ہمدردی نہیں،کوئی کسی کا خیرخواہ نہیں،سب ایک دوسرے کے جانی و مالی دشمن،عزت و آبرو کے لٹیرے،ایک دوسرے کے بدخواہ،آپس میں نفرت و عداوت،حسد و بغض،کینہ و کپٹ،تعصب و منصوبہ بندی،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے،گرانے،پٹخنی دینے،ذلیل و رسوا کرنے اور بدنام و برباد کرنے کے لئے عیب جوئی و الزام تراشی کے کون سے ایسے حربے ہیں جو آج ایک انسان دوسرے انسان کے لئے استمعال کرنے سے گریز کررہاہے!
آج ایک بے عقل و غیر مکلف جانور کی اپنے ساتھی کے لئے بے چینی و بے قراری نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اپنی زبان میں یہ پیغام دیا کہ یہ کام تو ہم انسانوں کا تھا،ہم اسی کام کے لئے پیدا کئے گئے تھے؛فرشتوں نے ہماری تخلیق پر جب اعتراض کیا تھا تو رب العالمین نے ان ہی اوصاف وکمالات اور کردار و کارناموں کے حوالے سے ان پر ہماری برتری ثابت فرمایا تھا۔رحمۃٌ للعلمین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اصحاب و رفقاء تھے،واقعی وہ ان انسانی کردار و اعمال کے عملی نمونہ اور سراپا مجسم تھے،انہوں نے ہمارے لئے سب کچھ آسان کردیا تھا اور بتادیا تھا کہ ہاں واقعی ہم انسان ہیں اور اپنے اعلیٰ کردار کی وجہ سے فرشتوں سے بھی افضل ہیں۔اسی لئے قرآن کریم نے ان کے حق میں برملا یہ اعلان فرمایا:
وَالَّـذِيْنَ تَبَوَّءُوا الـدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِـهِـمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْـهِـمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِىْ صُدُوْرِهِـمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ وَلَوْ كَانَ بِـهِـمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (الحشر/9)
ترجمہ: اور وہ (مال) ان کے لئے بھی ہے کہ جنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں) گھر اور ایمان حاصل کر رکھا ہے، جو ان کے پاس وطن چھوڑ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں۔
رفقاء گرامی!
آج اس بے زبان جانور نے مجھے بہت تڑپایا،میری نیند اڑا دی اور اپنی بے قراری سے سبق دیا کہ بلاشبہ ہم جانور ہیں اور غیر مکلف بھی،لیکن تم تو انسان ہو،اشرف المخلوقات تمہارا دوسرا نام ہے،شرافت و ہمدردی،ایثار و قربانی اور پیار و محبت تمہارا شیوہ ہونا چاہئے اور شب وروز کے معمولات میں انسانیت و شرافت،اخلاق و کردار،ہمدردی و غم گساری،وسعت قلبی و اعلیٰ ظرفی،ایثار و قربانی،ترحم و تقدس،جذبہ پیار و محبت،عفو و درگزر اور ایک دوسرے کے ساتھ ایسی خیرخواہی کی مثالیں قائم کرو کہ کل جب بارگاہِ خداوندی میں حاضری ہو تو فرشتے تمہاری اعلیٰ انسانیت و بےمثال شرافت پر رشک کرنے لگیں۔