شاید اس کی خود اعتمادی ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتی
✍️محمد قمر الزماں ندوی
_____________________
ایڈسن (Thomas Alva Edison) کو دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے الیکٹرک بلب ایجاد کیا ۔
جب وہ ہزاروں تجربہ کے بعد بلب بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اس کو لگانے کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے آفس کے چپڑاسی کو وہ بلب دیا کہ جاؤ یہ ٹیسٹ کرو، وہ لڑکا اتنا نروِس ہوا کہ غلطی سے اس سے بلب گر کر ٹوٹ گیا۔۔۔
سب بہت حیران ہوئے۔
ایڈیسن اگلے دن ایک اور بلب بنا لائے اور اسی لڑکے کو دیا کہ جاؤ یہ بلب ٹیسٹ کرو
بعد میں ساتھیوں نے پوچھا کہ جناب آپ یہ بلب کسی اور کو بھی دے سکتے تھے، آپ نے اسی کو کیوں دیا ؟ جس سے کل بلب ٹوٹا تھا ؟؟
ایڈیسن نے آبِ زر سے لکھے جانے والا جواب دیا کہ "مجھے ٹوٹے ہوئے بلب کی جگہ نیا بلب بنانے میں 24/ گھنٹے لگے، لیکن اگر آج میں اس کو بلب نہ دیتا تو شاید اس کی خود اعتمادی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاتی، جو کہ میں نہیں چاہتا”
معلوم یہ ہوا کہ استاد و مربی اور سرپرست حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کے اندر ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنانے کی تربیت دیں ، زندگی میں ناکامی، شکست یا بحران سے مقابلہ درپیش رہتا ہے ،اس لئے نامطلوب حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی ضروری ہے ،انہیں مسائل و مشکلات اور ناکامیوں سے فرار کے بجائے نبرد آزما ہونے کی تربیت دینی چاہیے ۔عزم محکم ،عمل پیہم اور سخت محنت کامیابی کی شرائط ہیں ۔بلکہ ماہرین تربیت کا کہنا ہے کہ مشکلات کی صورت میں حسب موقع بچوں سے مشاورت بھی ان کی تربیت اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے ۔ ماہرین تربیت کا یہ بھی کہنا ہے کہ حتیٰ الامکان بچے کی تربیت استقلالیت کے اصول پر ہو ،استقلالیت کا مفہوم یہ ہے کہ بعض معاملات میں بچے کو آزاد اور خود سر چھوڑ دیا جائے تاکہ اس کے اندر خود اعتمادی کا جوہر پیدا ہو، اگر آپ کی یہ کوشش ہو کہ ہر چیز بچے کے لئے پہلے سے تیار شدہ ہو اور اس کی ہر مشکل فورا حل کر دی جائے تو آپ غیر شعوری طور پر بچے کے اندر سے ذاتی محنت و کدو کاوش اور خود اعتمادی اور عزیمت کے اوصاف سلب کر رہے ہیں اور اسے معمولی معمولی کاموں میں سہارا لینے کا عادی بنا رہے ہیں ۔ یہ عادت مستقبل میں اسے مشکلات و حوادث کے سامنے ثابت قدم رہنے کے بجائے بھگوڑا بنا دے گی ،قوت فیصلہ کی نعمت سے محروم کردے گی اور منزل کمال تک پہنچ کر بھی اسے آپنی زندگی کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کی اہلیت سے محروم کردے گی اور اگر زمانے کی گردش اس پر ایسا بوجھ لاد دے گی تو قوت فیصلہ کی کمی اور خود اعتمادی کا فقدان اسے بے لنگر جہار بنا کر رکھ دے گا ۔( مستفاد از کتاب بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟ مرتبہ راقم الحروف)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ کبھی بھی کسی کے حوصلہ کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے ،بلکہ کسی شخص کے اندر خود اعتمادی، ہمت اور حوصلہ پیدا کرنے کے لیے متعدد بار موقع دینا چاہیے ۔ ایک استاد اور مربی کے لیے لازم ہے کہ وہ شاگردوں کے اندر حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا کرے اور گرنے اور ناکام ہونے کے بعد بھی انہیں موقع دے ۔
اوپر کے واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑے لوگ بظاہر چھوٹے نظر آنے والوں کا بھی خیال رکھا کرتے ہیں تبھی تو وہ بڑے ہوتے ہیں۔