Site icon

مسلم امرا اور رؤساکو سِوا علم کے کن چیزوں کا شوق تھا؟

مسلم امرا اور رؤساکو سِوا علم کے کن چیزوں کا شوق تھا؟

محمد علم اللہ، نئی دہلی

گذشتہ ہفتے کا کالم ‘مسلم علاقوں کا تضاد، فوڈ کلچر بمقابلہ تعلیمی ثقافت’ شائع ہوا تو جدہ سے ہمارے مخلص اور مہربان ڈاکٹر محمد سلیم خان نے بتایا کہ اس میں کچھ تاریخی واقعات کا بھی ذکر ہونا چاہیے، چوں کہ وہ خود ایک اچھے محقق اور مورخ ہیں تو انھوں نے اس حوالے سے کئی کتابوں کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ ان کتابوں کے حوالے سے چند واقعات کا یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے، تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ جس زمانے میں یورپ میں ترقی کی بنیاد پڑ رہی تھی، نئی نئی مشینیں ایجاد ہو رہی تھیں، یونیورسٹیاں اور ادارے قائم ہو رہے تھے، اس وقت مسلم امرا اور رؤسا کیا کر رہے تھے۔علمی ذوق کے سوا انہیں کن چیزوں کا شوق تھا، کھان پان اور لذت کام و دہن کے لیے وہ کیا کیا جتن کیا کرتے تھے؟۔

نواب شجاع الدّولہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے اور ان کی بیگم کے لیے ہر روز چھ باورچی خانوں سے کھانا آیا کرتا، اول شاہی باورچی خانے سے جس میں دو ہزار روپے روز کا خرچ ہوتا، یعنی باورچیوں اور دیگر ملازموں کی تنخواہوں کے علاوہ ساٹھ ہزار روپے ماہ وار یا سات لاکھ بیس ہزار روپے سالانہ کی رقم فقط الوانِ نعمت اور غذاؤں کی قیمت میں صرف ہوتی تھی۔ دوسرے سرکاری چھوٹے باورچی خانے سے اس میں تین سو روپے روز یعنی ایک لاکھ آٹھ ہزار روپے ہر سال کھانوں کی تیاری میں صرف ہوتے۔ تیسرے، خود بہو بیگم صاحبہ کے محل کے اندر کا باورچی خانہ، جس کا مہتمم بہار علی خاں خواجہ سرا تھا، چوتھے، نواب بیگم صاحبہ یعنی شجاع الدولہ کی والدہ محترمہ کے باورچی خانے سے،پانچویں، مرزا علی خاں کے باورچی خانے سے اور چھٹے، نواب سالار جنگ کے باورچی خانے سے۔اُس عہد کے یہ چھے باورچی خانے، شاہی باورچی خانے کے ہم پلہ تھے۔ اور جن میں روز پُرتکلف اور لذیذ کھانے، فرماں روائے وقت کے خاصے کے لیے تیار کیے جاتے۔

 نواب سالار جنگ کا باورچی، جو صرف ان کے لیے کھانا تیار کیا کرتا تھا، بارہ سو (1200) روپے ماہ وار تنخواہ پاتا تھا۔ خاص ان کے لیے وہ ایسا بھاری پُلاؤ پکاتا کہ سوا ئے ان کے اور کوئی اُسے ہضم نہ کر سکتا۔ دوسرا کمال یہ تھا کہ کسی ایک چیز کو مختلف صورتوں میں دِکھا کے ایسا بنا دیا جائے کہ دسترخوان پر ظاہر میں یہ نظر آئے کہ بیسیوں قسم کے الوانِ نعمت موجود ہیں، مگر چکھیے اور غور کیجیے تو وہ سب ایک ہی چیز ہیں۔ مثلاً دہلی کے شاہ زادوں میں سے مرزا آسمان قدر، فرزندِ مرزا خرم بخت قیامِ لکھنؤ کے زمانے میں واجد علی شاہ نے ان کی دعوت کی تو دسترخوان پر ایک مُربہ لا کے رکھا گیا، جو صورت میں نہایت ہی نفیس و لطیف اور مرغوب معلوم ہوتا تھا۔ مرزا آسمان قدر نے اُس کا لقمہ کھایا تو چکرائے۔ اس لیے کہ وہ مُربہ نہ تھا، بلکہ گوشت کا نمکین قورمہ تھا۔ جس کی صورت رکاب دار نے بعینہ مربے کی سی بنا دی تھی۔دو چار روز بعد مرزا آسمان قدر نے واجد علی شاہ کی دعوت کی۔ اور واجد علی شاہ یہ خیال کر کے آئے تھے کہ مجھے ضرور دھوکہ دیا جائے گا، مگر اس ہوشیاری پر بھی دھوکہ کھا گئے۔ اس لیے کہ آسمان قدر کے باورچی شیخ حسین علی نے یہ کمال کیا تھا کہ گو دسترخوان پر صدہا الوانِ نعمت اور قسم قسم کے کھانے چُنے ہوئے تھے، پلاؤ تھا، زردہ تھا، بریانی تھی، قورمہ تھا، کباب تھے، ترکاریاں تھیں، چٹنیاں تھیں، اچار تھے، روٹیاں تھیں، پراٹھے تھے، شیرمالیں تھیں، غرض کہ ہمہ نعمت موجود تھی، مگر جس چیز کو چکھا، شکر کی بنی ہوئی تھی۔ سالن تھا تو شکر کا، چاول تھے تو شکر کے، اچار تھا تو شکر کا اور روٹیاں تھیں تو شکر کی۔ یہاں تک کہ تمام برتن، دسترخوان اور سلفچی، آفتابہ تک شکر کے تھے۔

محمد علی شاہ کے بیٹے مرزا عظیم الشان نے ایک شادی کے موقع پر سمدھی ملاپ کی دعوت کی تھی، جس میں خود فرماں رواے وقت واجد علی شاہ بھی شریک تھے، اس دعوت میں دسترخوان پر نمکین اور میٹھے کل ستر قسم کے چاول تھے۔

نصیر الدین حیدر کے عہد میں باہر کا ایک باورچی پستے اور بادام کی کھچڑی پکاتا۔ بادام کے سڈول اور صاف سُتھرے چاول بناتا، پستے کی دال تیار کرتا تھا اور اس نفاست سے پکاتا کہ معلوم ہوتا نہایت عمدہ، نفیس اور پھریری ماش کی کھچڑی ہے۔ نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں ایک صاحب کمال باورچی صرف چاولوں کی گُلتھی پکاتا، مگر ایسی گُلتھی جو شاہی دسترخوان کی رونق فرماں روائے وقت کو نہایت ہی مرغوب تھی اور شہر کے تمام رئیسوں کو اس کا ایک لقمہ مل جانے کی تمنا تھی۔

 نواب آصف الدولہ کے سامنے ایک نیا باورچی پیش ہوا۔ پوچھا گیا: کیا پکاتے ہو؟ کہا: صرف ماش کی دال پکاتا ہوں، پوچھا: تنخواہ کیا لو گے؟ کہا: پان سو (500) روپے، نواب نے نوکر رکھ لیا،ایک اور باورچی نے نورتن پلاؤ پکا کے پیش کیا، جس میں نورتن کے مشہور جواہرات کے مثل، نورنگ کے چاول ملا دیے اور پھر رنگوں کی صفائی اور آب و تاب، عجیب نفاست اور لطف پیدا کر رہی تھی۔ اسی طرح کی خدا جانے کتنی ایجادیں ہو گئیں جو تمام گھروں اور باورچی خانوں میں پھیل گئیں۔

کھانے کے شوقین رئیسوں میں سے ایک نواب مرزا خاں نیشاپوری چودہ ہزار ماہوار کے وثیقہ یاب تھے۔ اچھا کھانے کے شوق میں انھوں نے وہ کمال دکھایا اور ایسے اچھے اچھے باورچی جمع کر لیے کہ شہر میں اُن کے دسترخوان کی دھوم تھی، دوسرے مرزا حیدر تھے، ان کی شان یہ تھی کہ جس کی دعوت میں جاتے، اُن کا آب دار خانہ، گلوریوں کا سامان اور سو ڈیڑھ سو حقے اُن کے ساتھ جاتے۔

غازی الدین حیدر پہلے شاہِ اودھ کو پراٹھے پسند تھے۔ اُن کا رکاب دار ہر روز چھ پراٹھے پکاتا۔ اور فی پراٹھا پانچ سیر کے حساب سے 30 سیر گھی روز لیا کرتا۔ ایک دن وزیر سلطنت معتمد الدولہ آغا میر نے شاہی رکاب دار کو بلا کے پوچھا: ارے بھئی، یہ تیس سیر گھی کیا ہوتا ہے؟ کہا: حضور! پراٹھے پکاتا ہوں۔ کہا: بھلا میرے سامنے تو پکاؤ۔ اس نے کہا: بہت خوب، پراٹھے پکائے، جتنا گھی کھپا کھپایا اور جو باقی بچا پھینک دیا،معتمد الدولہ آغا میر نے یہ دیکھ کر حیرت اور استعجاب سے کہا: ”پورا گھی تو خرچ نہیں ہوا؟ اس نے کہا: اب یہ گھی تو بالکل تیل ہو گیا، اس قابل نہیں ہے کہ کسی اور کھانے میں لگایا جائے۔ وزیر سے جواب تو نہ بن پڑا مگر حکم دے دیا کہ آیندہ سے صرف پانچ سیر گھی دیا جایا کرے۔ فی پراٹھا ایک سیر بہت ہے۔ رکاب دار نے کہا: بہتر، میں اتنے ہی گھی میں پکا دیا کروں گا، مگر وزیر کی روک ٹوک سے اس قدر ناراض ہوا کہ معمولی قسم کے پراٹھے پکا کے بادشاہ کے خاصے پر بھیج دیے۔ جب کئی دن یہی حالت رہی تو بادشاہ نے شکایت کی کہ یہ پراٹھے اب کیسے آتے ہیں؟ رکاب دار نے عرض کیا: حضور!جیسے پراٹھے نواب معتمد الدولہ بہادر کا حکم ہے پکاتا ہوں۔ بادشاہ نے اس کی حقیقت پوچھی تو اس نے سارا حال بیان کر دیا، فوراً معتمد الدولہ کی یاد ہوئی۔ انھوں نے عرض کیا: جہاں پناہ!یہ لوگ خوامخواہ لوٹتے ہیں۔ بادشاہ نے اس کے جواب میں دس پانچ تھپڑ اور گھونسے رسید کیے، خوب ٹھونکا، اور کہا: تم نہیں لُوٹتے ہو؟ تم جو ساری سلطنت اور سارے ملک کو لوٹے لیتے ہو اس کا خیال نہیں۔ یہ جو تھوڑا سا گھی زیادہ لے لیتا ہے اور وہ بھی میرے خاصے کے لیے، یہ تمیںا نہیں گوارا ہے؟ بہرحال معتمد الدولہ نے توبہ کی، کان اُمیٹھے، تو خلعت ہوا، جو اس بات کی نشانی تصور کی جاتی ہے کہ آج جہاں پناہ نے دستِ شفقت پھیرا ہے، پھر انھوں نے کبھی اس رکاب دار سے تعرض نہ کیا اور وہ اسی طرح 30 سیر گھی روز لیتا رہا۔

نواب ابو القاسم خاں ایک شوقین رئیس تھے۔ ان کے ہاں بہت بھاری پلاؤ پکتا، 34 سیر گوشت کی یخنی تیار کر کے مقطر کر لی جاتی اور اس میں چاول دم کیے جاتے اور پھر اس لطف کے ساتھ کہ لقمہ مُنہ میں رکھتے ہی معلوم ہوتا کہ سب چاول خود ہی گھل کے حلق سے اتر گئے۔ اتنی ہی یا اس سے زیادہ قوت کا پلاؤ واجد علی شاہ کی خاص محل صاحبہ کے لیے روز تیار ہوا کرتا تھا۔

ایک رکاب دار نے یہ صنعت دکھائی کہ دسترخوان پر بڑے بڑے سیر سیر بھر کے انڈے اُبلے ہوئے اور تلے ہوئے پیش کیے، جن میں سفیدی اور زردی اُسی نسبت اور وضع سے قائم تھی جو معمولی انڈوں میں ہوا کرتی ہے۔ بعض رکاب داروں نے بادام کا سالن پکایا جو بعینہ سیم کے بیجوں کے مثل، روز مزے اور لطافت میں اس سے بڑھا ہوا تھا۔ وزیر سلطنت روشن الدولہ کے باورچی نے کچے بھٹوں کے لچھے اس نفاست سے کاٹے کہ کہیں ٹوٹنے نہ پائے اور اُن کا رایتا ایسا اعلا درجے کا بنایا کہ جس نے چکھا، اش اش کر گیا۔

ایک باورچی نے شاہی میں خشخاش کے دانوں میں چاروں طرف کٹھل کے سے خار پیدا کیے اور اُسے خاص ترکیب سے پکا کے دسترخوان پر پیش کیا تھا۔پیر علی رکاب دار مٹھائی کا انار بناتا تھا جس میں اوپر کا چھلکا، اندر کے دانے، ان کی ترتیب اور ان کے بیچ کے پردے سب اصلی معلوم ہوتے۔ دانوں کی گٹھلیاں بادام کی ہوتیں، طاشپاتی کے عرق کے دانے ہوتے، دانوں کے بیچ کے پردے اور اوپر کا چھلکا دونوں شکر کے ہوتے۔

بادشاہ کے محل میں خاص جہاں پناہ کے لیے ایک سو ایک خوانوں کا تورا جاتا، جس کی لاگت کا اندازہ پانچ سو روپے کا تھا۔ مشہور خوش نویس، منشی ہادی علی صاحب نے پپڑی حلوا سوہن میں خاص ناموری حاصل کی، وہ سیر بھر سمنک میں پچیس تیس سیر گھی کھپا دیتے اور اس کی ٹکیوں پر عجیب عجیب قسم کے خوب صورت طغرے بناتے جن سے حلوا سوہن بنانے کے ساتھ خوش نویسی اور نقاشی کے کمالات بھی ظاہر ہوتے۔

دولت مند اور شوقین امیروں کے لیے مرغ، مشک و زعفران کی گولیاں کھلا کھلا کے تیّار کیے جاتے۔ یہاں تک کہ اُن کے گوشت میں اِن دونوں چیزوں کی خوشبو سرایت کر جاتی اور ہر رگ و ریشہ معطّر ہو جاتا۔ پھر اُن کی یخنی نکالی جاتی۔ اور اِس یخنی میں چاول دم دے دیے جاتے۔ موتی پلاؤ کی یہ شان تھی کہ معلوم ہوتا چاولوں میں آب دار موتی ملے ہوئے ہیں۔ اِس کے لیے موتیوں کے تیّار کرنے کی یہ ترکیب تھی کہ تولہ بھر چاندی کے ورق اور ماشہ بھر سونے کے ورق انڈے کی زردی میں خوب حل کیے جاتے۔ پھر اُس حل شدہ مرکّب کو مرغ کے نرخرے میں بھر کے، دھاگہ کس کے باندھ دیا جاتا۔ اور اُسے خفیف سا جوش دے کے، چاقو سے نرخرے کی کھال چاک کر دی جاتی، اور سڈول، آب دار موتی نکل آتے جو پلاؤ میں گوشت کے ساتھ دم کر دیے جاتے۔ بعض رکاب دار پنیر کے موتی بناتے اور اس پر چاندی کا ورق چڑھا دیتے۔

یہاں پرہم نے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر محض چند واقعات کا تذکرہ کیا ہے ورنہ تاریخ کی کتابوں، سوانح عمریوں اور لوگوں کی ذاتی یادداشت میں ایسے ہزاروں واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جب فراوانی کے دن تھے تو مسلم بادشاہوں اور حکمرانوں نے عیش و عشرت، کھان پان اور نام ونمود میں بہت سرمایہ ضائع کیا جب کہ دوسری قوموں نے علم و ہنر کو حرز جاں بنایا، تاریخ انسان کو سبق سکھاتی ہے، یہ واقعات ہمارے لیے عبرت ہیں کہ اب بھی ہم اپنے حالات کو بدلیں گے یا اسی کو اپنا مقدر بنائیں گے جس نے ہمارے پرکھوں کو قعر مذلت میں دھکیل دیا تھا؟۔

پس نوشت: یہ تمام واقعات عبد الحلیم شرر کی کتاب گذشتہ لکھنؤ سے اخذ کیے گئے ہیں، چونکہ کسی ایک جگہ سے مسلسل عبارت نقل نہیں کی گئی ہے بلکہ تفصیلی واقعات کوتلخیص کیا گیا ہے اور بہت سی چیزیں حذف کی گئی ہیں۔اس لیے صفحہ نمبر وغیرہ کا التزام نہیں کیا ، جو حضرات تفصیل سے پڑھنا چاہیں وہ مذکورہ کتاب کے علاوہ اکھلیش جیسوال کا تحقیقی مقالہ ’اکیسویں صدی میں اودھ کے سماج اور تہذیب کا ایک عکس‘کو بھی دیکھ سکتے ہیں ۔یہ’ شودھ گنگا ‘پر موجود ہے۔

Exit mobile version