بھارت میں مسلمان لڑکیوں کو مرتد بنانے کی مہم

بھارت میں مسلمان لڑکیوں کو مرتد بنانے کی مہم

ازقلم: انور خاں

مسلم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر انکی عزت اور زندگی سے کھلواڑ کرنے کیلئے کچھ سالوں سے ہندو شدت پسند تنظیموں نے مہم چلا رکھی ہے۔ اسکا مقصد مسلمانوں کو ذہنی، جسمانی، مذہبی اور اخلاقی طور پر رسوا کرنا اور مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانا ہے۔ ہندو شدت پسندوں نے اس مہم کو ”بیٹی بچاﺅ بہُو لاﺅ” کا نام دیا ہے۔ اس مہم کے تحت کالج و یونیورسٹی جانے والی لڑکیوں کو ٹارگیٹ بنایا گیا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے دوستی کرائی جاتی ہے اور دوستی کی آڑ میں محبت کا جال پھیلا کر اس لڑکی کو گھر والوں کی بغاوت پر آمادہ کرکے گھر سے فرار کرایا جاتا ہے۔ جو مسلمان لڑکیاں ہندوؤں کے اس جال میں نہیں پھنستی، انہیں اغوا کرکے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مسلم لڑکیوں کے اغوا اور ارتداد کیلئے آر ایس ایس کی تنظیمیں میدان عمل میں کام کر رہی ہیں: وِشّوَ ہندو پَرِیشَد، ہندو جاگرَن منچ، ہندو یُوا واہِنی، بجرنگ دل، وندے ماترم مشن، بھارت سیوا شرم سَنگھ، ہندو سَہْمَتِی سَنگٹھن۔ ہریانہ صوبہ میں اس مہم کے آغاز کے موقع پر مسلمان لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسانے والے ہندو لڑکوں کو ایک لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان، ان کی مکمل حفاظت اور سماج میں ان کی عزت و شہرت کا یقین بھی دلایا گیا۔

اتراکھنڈ کے ممبر اسمبلی سنجے گپتا نے مسلمان لڑکیوں کو مرتد بنانے کے لئے "لو کرانتی” (Love kranti) نامی مہم چلائی، جس کے تحت اس نے 500 ہندو لڑکوں کا ایک گروپ بنایا اور ان کو مسلمان لڑکیوں کو محبت کے جھوٹے جال میں پھنسا کر گھر سے بھگا کر مرتد بنانے کا ٹارگیٹ دیا۔ مغربی بنگال کے جن علاقوں میں بی جے پی کی سیاسی حیثیت مضبوط ہے، وہاں RSS نواز تنظیموں نے مسلمان لڑکیوں کو پھنسانے کے لئے زبردست مہم چھیڑ رکھی ہے۔

یوپی کے مشہور نوابی شہر ‘رامپور’ میں انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کچھ غنڈوں نے ایک 14 سالہ مسلم لڑکی کو اغوا کرکے جنسی زیادتی کی اور زبردستی مرتد بنانے کی کوشش کی۔ پولیس نے حسبِ امید شر پسندوں کا ساتھ دیا۔ ناانصافی کا عالم یہ تھا کہ شرپسندوں نے ایک ہفتے تک مسلم لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھا اور پولیس نے نہ تو ہندو لڑکوں کو گرفتار کیا، نہ ہی والدین کو اس لڑکی سے ملنے دیا۔ شہر کے آر ایس ایس کارکنان اس لڑکی سے ملتے رہے اور اس کی جانب سے کورٹ میں ہندو بننے کے جھوٹے حلف نامہ دلاتے رہے۔ رامپور شہر مسلم اکثریتی شہر ہے۔ جب اتنی بڑی مسلم آبادی میں مسلم لڑکی کو اغوا کرکے ہفتوں تک اسے محصور کیا جا سکتا ہے تو دیگر شہروں اور علاقوں میں شدت پسندوں کی غنڈہ گردی کا عالم کیا ہوگا؟

شدت پسندوں کا پہلا نشانہ کالج اور یونیورسٹی جانے والی لڑکیاں ہوتی ہیں، جہاں اسباق اور لیکچر کے نوٹس وغیرہ دے کر جان پہچان پیدا کی جاتی ہے اور دیگر امور میں تعاون کرکے دوستیاں کی جاتی ہیں۔ کچھ مسلم تہواروں پر مثلاً عید وغیرہ پر تحفہ تحائف دیکر مسلم تہذیب کی تعریف و توصیف کرکے خود کو اسلام کی تعلیمات سے متاثر بتایا جاتا ہے۔ کالج کے بعد ٹیوشن کے بہانے مختلف کوچنگ سینٹرز میں آنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس وقت تک لڑکی اتنا متاثر ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ مختلف بہانے بناکر والدین کو ٹیوشن پر بھیجنے کیلئے راضی کر لیتی ہے۔

مختلف خاص مواقع مثلاً ’برتھ ڈے‘ جیسے موقع پر موبائل، کپڑے، جوتے، پرس وغیرہ دیکر امپریس کیا جاتا ہے۔ پکنک وغیرہ کے بہانے اچھے ہوٹلوں میں جاکر کھانا کھلانا اور واپسی پر گفٹ دینا بھی اسی معمول کا حصہ ہے۔ مختلف تقاریب کے بہانے مسلم لڑکی کو گھر لے جاکر اچھی خاطرداری کی جاتی ہے۔ واپس آکر وہ لڑکی ہندو گھرانوں کی مہماں نوازی کی قصیدہ خوانی کرتی ہے۔ اس سے آئندہ کے لیے ہندو گھر بھیجنے کے لیے والدین کا رویہ نرم ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھار لڑکی کی ماں یا بہن کے لیے کوئی تحفہ بھیج دیا جاتا ہے، جس سے ماں بہن بھی متاثر ہوجاتی ہیں۔

عموماً ہندو رہائشی علاقے مسلم علاقے کی بنسبت زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کے بالمقابل حکومتی یا پرائیویٹ سیکٹرز میں ہندو نوجوان زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ چیز بھی بہکانے میں معاون ہوتی ہے۔ ہندو علاقوں کی ترقی اور ظاہری قدردانی کی بنیاد پر لڑکی متاثر ہوچکی ہوتی ہے تو پر اس پر محبت کا جال پھینکا جاتا ہے۔ یوں اسے گھر سے بھگا کر مرتد بنا کر شادی کی جاتی ہے۔ کچھ وقت کے بعد انہیں کلبوں میں ناچ گانے پر مجبور کیا جاتا ہے یا طوائف خانوں پر بیچ دیا جاتا ہے۔

یہ سارے کام منظم منصوبے کے تحت ہوتے ہیں، اس لیے بلیک میل کرنے کیلئے ویڈیوز بنائے جاتے ہیں اور انکار پر وڈیوز وائرل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ان کاموں کی تکمیل میں ہندو لڑکیوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ سہیلیاں بنا کر اپنے بھائیوں وغیرہ سے ملواتی ہیں اور آگے کا کام لڑکے دیکھتے ہیں۔

Exit mobile version