✍️ مجتبیٰ فاروق
_______________
ہم حقیقت میں اسلام کے ترجمان ہیں اوراسی کی ترجمانی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں.کسی مسلک یاکسی شخص کی ترجمانی کرنا کوئی اہم دعوتی کام نہیں ہے .البتہ مسلکوں یا شخصیتوں کی خدمات یا ان کے افکارکی خصوصیات کو اجاگر ضرور کریں جو کہ ایک اچھی روایت ہے .لیکن کسی مسلک یا کسی شخصیت کے ہو کر رہنا انفرادی زوال کی ایک نمایاں علامت ہے .
اب یہ ہمارا عمومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم اسلام کے ترجمان بننے کے برعکس مسلکوں کی آبیاری یا کسی عالم یا یا مفکر کے افکار کو ہر وقت صحیح ثابت کرنے میں اپنا بیشتر وقت صرف کر دیتے ہیں.
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری دعوت کا Field بہت محدود ہو کر رہتاہے .
ہمارے بزرگوں نے بھی اس بات سے واضح طور پر منع کیا ہے .مثلاً یہاں مولانا مودودی کی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں. انھوں نے کارکنوں کو نصحیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اسلام کی دعوت پھلانے کی بجائے کہیں میری مدافعت میں اپنا وقت اور قوتیں صرف نہ کرنے لگیں .انھوں نے مزید کہا تھا کہ میری دفاع میں اپنا وقت ضائع مت کریں کیونکہ مجھے کسی مدافعت کی حاجت نہیں ہے .آپ اسلام کی خدمت کرتے رہے یہی آپ کا اصل کام ہے.
دوسری مثال علامہ انور شاہ کشمیری کی ہے. انھوں نے آخری عمر میں اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ میں نے اپنی ساری عمر ضائع کردی .مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے.علامہ کشمیری نے جواب دیا کہ ”ہماری عمر کا،ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کد وکاوش کا خلاصہ یہ رہا ہےکہ دوسرے مسلکوں پر حںنفیت کی ترجیح قائم کر دیں اور دوسرے ائمہ کے مسائل پر اپنے مسلک کی ترجیح ثابت کریں“
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے حقیقی ترجمان بننے کی کو شش کریں۔