زندگی سادہ، لیکن فکر و نظر بلند رکھئے!
✍️ محمد قمرالزماں ندوی
استاد /مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
________________
اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال، توازن اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے ،وسطیت اور اعتدال اس امت کا امتیاز ہے ،افراط و تفریط کے درمیان میانہ روی اور توازن اس کی خصوصیت ہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسلام اپنے ماننے والوں سے بلکہ پوری انسانیت سے اسی اعتدال کا مطالبہ کرتا ہے ، عبادت میں معاشرت میں ،معاملات میں لین دین میں ،حقوق و فرائض کی ادائیگی میں یہاں تک کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا داعی اور مبلغ ہے ۔اسلام دینی رہنمائی کیساتھ فکری رہنمائی بھی کرتا ہے کہ ہم اپنی فکر و نظر اور افکار و خیالات کس طرح رکھیں ،دنیاوی زندگی کے برتنے میں ہماری سوچ اور فکر کیا ہو اور ہم اپنی زندگی برتنے کا اصول و ضوابط کیا رکھیں ۔
آج کی مجلس میں ہم اسی عنوان پر مختصر روشنی ڈالیں گے اور زندگی برتنے کے کچھ ضابطے بیان کریں گے۔
پہلے زمانے میں لوگوں کا اصول یہ تھا، زندگی تو سادہ اور رہن سہن معمولی اور نارمل ہو، لیکن فکر و عمل خیال و نظر اور تخیل و پرواز اعلیٰ اور بلند ہو، یعنی زندگی کا رہن سہن تو معمولی اور سادہ رہے، مگر اخلاق و کردار ،فکر و نظر، مروت و شرافت اور تخیل کے اعتبار سے انسان عظمت و بلندی کے مقام پر فائز رہے، اپنے اندر کہیں سے سطحیت اور پست خیالی ظاہر ہونے نہ دے ۔ لیکن آج کے زمانے میں یہ اصول الٹ گیا ہے ۔لوگوں کی سوچ، طرز زندگی اور فکر بدل گئی ہے ۔ اب ان دنوں انسان کی فکر، سوچ اور ان کا نظریہ یہ ہوگیا ہے کہ فکر و نظر اور خیالات و نظریات کے لحاظ سے وہ کتنے ہی مفلس اور قلاش ہوں، مگر ظاہری شان و شوکت ٹیپ ٹاپ وضع قطع لباس اور تراش و خراش و رہائش و زیبائش میں ان کو بلند اور اعلیٰ ہونا چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا اور انجام یہ سامنے آیا کہ ظاہری فیشن میں نت نئی ترقی کے باوجود زندگی میں دن بدن پستی، سطحیت اور سہل انگاری آتی جارہی ہے، ہر طرف خود غرضی ،مفاد پرستی،انا پرستی، جہالت و حماقت اور حرص و طمع کا دور دورہ ہے ۔ فکر و نظر کی کجی عام ہے ۔ ایسا صاف محسوس ہوتا ہے کہ انسانی آبادی خوش پوش حیوانات میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے ۔
ایک بزنس مین (تاجر) کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کے انہوں نے زندگی برتنے کا اپنا اصول و ضابطہ یہ بنایا تھا کہ مکان سادہ اور کچا بناؤ ،لیکن تجارت اور کار و بار پکا اور مضبوط بناؤ ۔ انہوں نے تجارت میں غیر معمولی کامیابی اور مال و دولت کی کثرت کے باوجود اپنی زندگی میں عالی شان مکان اور بنگلہ نہیں بنایا، بلکہ ضرورت بھر کے لئے سادہ اور قدیم وضع کا مکان خرید لیا اور اسی میں رہنے لگے،ط لیکن جب ان کا انتقال ہوا، تو انہوں نے اپنے پیچھے اپنے بچوں کے لئے ایک شاندار کاروباری وراثت اور مضبوط تجارت چھوڑی ۔انہوں نے اپنی رہائشی کوٹھی اور بنگلہ تو اپنی اولاد کے لئے نہیں بنائی، البتہ شہر کے مصروف اور وی آئی پی بازار میں ایک عالی شان مارکیٹ چھوڑ گئے، جہاں آج ان کے لڑکے اپنی لائن کا سب سے بڑا کاروبار کر رہے ہیں ۔ اگر چہ انہوں نے اب ایک شاندار دکان کے ساتھ ایک شاندار مکان بھی تعمیر کر لیا ہے ۔
زندگی گزارنے اور برتنے کا ٹھوس اور مضبوط طریقہ یہی ہے ۔ یعنی ظاہری نمائش، ٹیپ ٹاپ پر توجہ کم دینا اور اصل مقصد اور ہدف کی راہ میں زیادہ قوت صرف کرنا ۔ سچائی یہی ہے کہ اعلیٰ حوصلہ اونچا تخیل اور بلند سوچ اور عمل کے میدان میں اونچا معیار یہ سب چیزیں انسانیت و مروت کا کمال ہیں ،ظاہری ٹیپ و ٹاپ آرائش و آسائش تو ایک گدھے کے اوپر بھی لادی جاسکتی ہے، مگر اس کی وجہ سے گدھا کسی بلند مقام پر فائز نہیں ہوسکتا اور اعلیٰ معیار پر متمکن نہیں ہو سکتا ۔
آج ہم مسلمان معیشت اور تجارت کی راہ میں کامیاب اس لئے نہیں ہیں کہ ہم افراط و تفریط کے شکار ہیں، زندگی گزارنے اور تجارت کے سلسلہ میں اپنا کوئی مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل نہیں تیار کرسکے ہیں، ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ضرورت کیا ہے اور حاجت کیا اور تحسینات کا درجہ کیا ہے ؟ مکان کے سلسلہ میں ضروری حد کیا ہے؟ اور فضولیات کا دروازہ کہاں سے شروع ہوجاتا ہے؟ ۔ اسلام نے جہاں مال و دولت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا ہے اس کو حاصل کرنے کا جائز طریقے پر حکم دیا ہے، وہیں اسلام نے مال خرچ کرنے کے اصول اور طریقے بھی بتائے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مالیات کے سلسلہ میں اور اس کو خرچ کرنے کے سلسلہ میں ہم اسلام کے مالیاتی نظام کو پڑھیں اور سمجھیں اور شریعت کے دائرے میں رہ کر اس کو خرچ کرنے کا طریقہ بھی سیکھیں ۔