سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

دنیا کی طلب کو انسانیت پر غالب نہ آنے دیجیے!!

✍️عبدالغفارصدیقی

_________________

یہ سوال اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسان کی اپنی تاریخ کہ انسان کا دنیا سے رشتہ کیا ہے اور دنیا کے تئیں اس کے فرائض اور تقاضے کیا ہیں؟ اس سوال کے جوابات ہر کسی نے اپنی سوچ اور فکر کے مطابق دیے ہیں۔لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو خالی ہاتھ ہی جاتا ہے۔بقول شاعر:
مہیا گرچہ سب اسباب ملکی اور مالی تھے
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
کہتے ہیں کہ سکندر اعظم نے اک روز اپنے ایک غلام کو اپنی چھڑی دے کر حکم دیا کہ وہ اس چھڑی کو میری سلطنت کے اس انسان کو دے جوسب سے بڑا بے وقوف ہو۔وہ چھڑی لے کر پوری سلطنت میں گھومتا پھرا مگر اسے سب سے بڑا بے وقوف نہ مل سکا۔اسی دوران اسے اطلاع ملی کہ سکندر بیمار ہے اور دوچار دن کا مہمان ہے۔وہ واپس آیا کہ سکندر کی عیادت کرسکے۔اس نے سکندر سے حال چال معلوم کیے۔سکندر نے کہا:”اب تو ملک عدم کے سفر پر جانا ہے۔“ غلام نے کہا:”حضور کب تک واپس آئیں گے۔“ سکندر نے کہا:”بے وقوف وہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔“غلام بولا:”حضورتب تو آپ نے اس سفر کی سب تیاری کرلی ہوں گی،کھانے پینے کا سامان رکھ لیا ہوگا،فوج کو بھی تیاری کا حکم دے دیا ہوگا۔“ سکندر نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا:”وہاں ان میں سے کوئی چیز ساتھ نہیں جاتی“۔غلام نے کہا:”حضور جو کچھ بھی ساتھ جاتا ہے وہ تو رکھ لیا ہوگا۔“ سکندرنے کہا:”افسوس اسی بات کا ہے کہ وہاں جو کچھ کام آنے والا ہے وہ میرے پاس نہیں ہے۔“غلام نے چھڑی اٹھائی اور سکندر اعظم کو دیتے ہوئے کہا:”گستاخی معاف! حضور مجھے آپ سے بڑا بے وقوف آج تک نہیں ملا،یہ چھڑی آپ کو مبارک ہو۔“
آپ کسی دین اور مذہب کے قائل ہوں یا نہ ہوں،آپ آخرت کے عذاب و ثواب کو بھی مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں لیکن آپ اپنے ماتھے کی آنکھوں سے آٹھوں پہر بچوں کا خالی ہاتھ پیدا ہونا اور لوگوں کا دنیا سے خالی ہاتھ جانا دیکھتے ہیں۔اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔خود آپ کے گھر سے کتنے جنازے اور ارتھیاں اٹھی ہیں،آپ نے اپنوں کو آگ میں جلایااورمٹی میں دبایا ہے۔اس کے باوجود دنیا کی اتنی محبت،پیسوں کی اس قدر طلب،آسائش دنیا کی اتنی چاہت کہ آپ کو کسی بے کس پر رحم تک نہیں آتا۔آپ چند روزہ زندگی کی خاطر بے ایمانیاں کرتے ہیں،ملاوٹ کرتے ہیں،کم تولتے اور کم ناپتے ہیں،لوگوں کے ساتھ فریب کرتے ہیں،سازشیں کرتے ہیں،ناحق قتل تک کرڈالتے ہیں۔ڈاکٹر کو مریض سے کوئی ہمدردی نہیں ہے،انجینئر کو اپنے پیشے سے وفاداری کا احساس تک نہیں ہے،اساتذہ کو نئی نسلوں کے مخرب اخلاق ہونے کا کوئی افسوس نہیں ہے،علماء اور واعظین کو معتقدین کے گمراہ ہوجانے کی کوئی فکر نہیں ہے،کمپنیوں کو انسانوں کی صحت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔بس سب کو اپنی جیب بھرنے کی فکر ہے،اپنے عالیشان مکان بنانے کی چنتا ہے،مہنگی سے مہنگی کار خریدنے اور آسائش دنیا فراہم کرنے کا خیال ہے۔اپنی اولاد کی اولاد تک کے لیے اسباب دنیا اکٹھا کرنے کی دھن میں آپ خود کو بھی بھول بیٹھے ہیں۔اسی تگ و دو میں آپ بیمار پڑ جاتے ہیں اور ایک دن اچانک دنیا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
انسان کہتا ہے وہ سب کچھ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی اولاد کے لیے کررہا ہے۔ کوئی اس سے پوچھے کس اولاد کے لیے؟ جو بڑی ہونے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے بعد آپ کو ہی نظر انداز کردے گی، آپ کے سب کچھ کرنے کے بعد بھی کہے گی:”میرے لیے کیا ہی کیا ہے؟“اور جب آپ اس کو بتائیں گے کہ میں نے تمہیں پالا پوسا ہے،تمہیں اچھی تعلیم دلوائی ہے،تمہارے لیے مکان بنایا اور تمہارا گھر بسایا ہے تو وہ کہتا ہے:”آپ نے کونسا نیا کام کیا ہے یہ تو آپ کی ذمہ داری تھی اور یہ سب تو ہر ماں باپ کرتے ہیں۔“کیا یہی ہر گھر کی کہانی نہیں ہے؟کبھی آپ کو فرصت ملے تواولڈیج ہوم کی سیر کریں اور وہاں اپنوں کی محبتوں کو ترستے بوڑھے والدین کی کہانیاں سنیں۔موجودہ دور میں انسان جس قدر اپنی اولاد کے ہاتھوں بے عزت ہورہا ہے اتنا تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔اگر اس پر بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں تو آخر کب کھلیں گی؟
دنیا سمیٹنے کے چکر میں ہم کسی کو کچھ دینے کو تیار نہیں بلکہ سامنے والے کے پاس جو کچھ ہے اسے چھین لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔صبر،قناعت،کفایت شعاری جیسے الفاظ ہماری ڈکشنری میں نہیں ہیں۔اگر کوئی چیز ہمیں مفت میں مل جاتی ہے یا تحفہ میں میسر ہوتی ہے اس میں سے بھی اپنے قریب ترین اعزہ کو کچھ دینا پسند نہیں کرتے۔ہمدردی اور غم خواری کے جذبات یکسر مفقود ہوگئے ہیں۔
بہت دنوں پہلے ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک بے اولاد عورت ایک رشی کے پاس گئی اور اس نے اولاد کے لیے دعا کرنے کو کہا۔رشی اس وقت چنے کھا رہے تھے۔انھوں نے ایک مٹھی چنے اس عورت کو دئے اور کہاکہ جاؤ آشرم کے باہر جاکر انھیں کھاؤ اور کھانے کے بعد واپس آؤ تب تمہیں کوئی حل بتاؤں گا۔وہ عورت باہر ئی اور آشرم کے باہر جاکر چنے کھانے لگی۔وہاں کچھ بچے کھیل رہے تھے،ان میں سے ایک بچہ اس کے پاس آیا۔اس نے حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا مگر اس عورت نے اسے دھتکار دیا اور منہ پھیر لیا۔اپنے چنے ختم کرنے کے بعدوہ دوبارہ رشی کے پاس پہنچی۔رشی نے اس سے کہا:۔”تم جو چنے کھارہی تھیں وہ تم نے خریدے نہیں تھے بلکہ وہ میں نے تمہیں بن مانگے اور بن پیسے کے دیے تھے تم نے اس میں سے بھی اس معصوم بچے کو مانگنے کے باوجود ایک دانہ نہیں دیا اس کا مطلب ہے کہ تمہارے پاس پریم کی وہ دولت نہیں جو اولاد کی پرورش کے لیے ضروری ہے،اسی لیے تم بے اولاد ہو،جاؤبچوں سے محبت کرو۔“کیا آج ہمارا حال اس عورت جیسا نہیں ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اس پہلو سے بھی سوچنا چاہئے کہ زندگی گزارنے کے لیے کتنی دنیا کافی ہے۔ایک انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں۔تین وقت کھانا،سر چھپانے کے لیے چھت، تن ڈھانکنے کے چند کپڑے جو موسم کے اثرات محفوظ رکھتے ہوں،بچوں کی تعلیم،بیماری میں علاج،آنے جانے کے لیے سواری کا انتظام وغیرہ۔
ہم کیا کھاتے ہیں؟ دال، سبزی،اناج اور گوشت۔ایک غریب انسان بھی یہی سب کچھ کھاتا ہے اور مالدار بھی،بس کوالٹی کا فرق ہوجاتا ہے۔اس فرق سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔فرق جب پڑتا ہے جب ہم آسائش کے نام پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر چیزیں اکٹھا کرتے ہیں۔حال یہ ہے کہ لوگوں کے باتھ روم کی لاگت بھی کروڑوں میں ہے۔اچھے خاصے مکان توڑ کر دوبارہ بنائے جارہے ہیں،کچھ لوگ دین کے نام پر ہر سال عمرہ کرنے میں لگے ہیں۔انھیں اپنے غریب ہمسایوں اور مجبور رشتہ داروں کی یاد کبھی نہیں آتی مگر مکہ مدینہ جانے کو بے چین رہتے ہیں۔جیسے کہ ان کا خدا کعبہ میں قید ہو۔فیشن کے نام پرسینکڑوں جوڑی کپڑے اور درجنوں جوڑی جوتے چپلوں کا انبار ہے۔لذت دہن کے لیے درجنوں قسم کے کھانے دسترخوان کی زینت ہیں۔شادی بیاہ کی بے جا رسومات میں لاکھوں روپے عام آدمی برباد کررہا ہے خواص کی تو بات ہی نہ کیجیے۔کچھ لوگوں کو مہنگے کتے پالنے کا شوق ہے اور کچھ باذوق افراد مہنگے پرندوں کو قید کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔آج کے زمانے میں خواتین اپنے میک اپ پر اتنا پیسہ خرچ کرتی ہیں کہ ایک بار کے بیوٹی پارلر کے خرچ سے ایک فیملی کے پورے ماہ کا راشن آجائے۔چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی خواتین کے بیوٹی پارلر موجود ہیں۔فضول خرچی کی ایک اور وبا آن لائن فاسٹ فوڈ کی سہولت ہے۔چار سو روپے کا ایک ویج پزہ جسے ایک سے دو آدمی محض ذائقہ کی تسکین کے لیے کھاتے ہیں اتنی قیمت میں دس انسانوں کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے۔جوضرورت دس پندرہ ہزار کے فون سے پوری ہوسکتی ہے آج کا نوجوان اسی ضرورت کو ایپل کے لاکھوں روپے کے فون سے پوری کررہا ہے۔
اگر آپ اپنی ضروریات کی فہرست بنائیں گے تو یقین کیجیے بہت مختصر ہوگی اور اگر خواہشات کی فہرست بنائیں گے تو وہ لامتناہی ہے،وہ کبھی مکمل نہ ہوسکے گی۔حدیث کے بقول:”اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہو گی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔“(ترمذی)
ہمارے اس رویہ کے دو اسباب ہیں۔ پہلا سبب دنیا داری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ہوس و ہوڑ ہے۔ہمسایہ سے اچھا مکان،رشتہ داروں سے زیادہ اسباب تعیش کی فراہمی کی فکر نے ہمیں جانور بنا کر رکھ دیا ہے۔دوسرا سبب آخرت فراموشی ہے۔حالانکہ جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں مرنے کے بعد جزااور سزا کا تصور موجود ہے اورہمارے ملک میں ہر انسان خواہ و ہ مرد ہو یا عورت کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کو تیار ہے مگر مذہب کی ان تعلیمات پر جو انسانیت،سادگی،امانت داری اور دوسروں کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی پر مبنی ہیں عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔
فضول خرچی، دنیا کی محبت اور آخرت فراموشی نے جہاں ہمارے اندر اخلاقی خرابیاں پیدا کی ہیں وہیں مارکیٹ میں بے تحاشہ مہنگائی کی مارہے۔اسباب دنیاکو حاصل کرنے کی ہوس اور دوسرے سے آگے نکلنے کی خواہش نے اشیاء کی ڈیمانڈ میں اضافہ کردیا ہے۔جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے اس صورت حال میں مسلم امت غیر مسلموں سے آگے نظر آتی ہیں۔جس امت کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے قدم قدم پر یہ بتایا تھا کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور ہمیشہ کی رہنے والی زندگی آخرت ہے،جسے سمجھا یا گیا تھا کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے وہی امت دنیا کو اپنے لیے جنت بنانے پر تلی ہے۔جس کو کہا گیا تھا کہ دنیا تمہارے لیے ہے مگر تم دنیا کے لیے نہیں ہو۔اسی کی زبان پر بابر بعیش کوش کے نعرے ہیں،جس کو آگاہ کیا گیا تھا کہ دنیا تمہارے لیے آخرت کی کھیتی ہے اورجس کو یقین دلایا گیا تھا کہ دنیا بقدر حصہ تمہیں مل جائے گی،اس امت کے رہنما اور واعظین تک دنیا کے پیچھے باؤلے ہوئے پھرتے ہیں۔
میرے عزیزو! ہمیں یہ دنیا چھوڑ کر چلے جانا ہے،کب جانا ہے کسی کو نہیں معلوم۔جس کو چھوڑ کر جانا ہے اس سے اتنا دل مت لگائیے کہ چھوڑتے وقت تکلیف ہو۔اپنی زندگی کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے جدوجہد کیجیے۔مگر دو باتوں کا خیال رکھتے ہوئے،ایک یہ کہ جس چیز کو آپ ضرورت سمجھ رہے ہیں وہ واقعی ضرورت ہو،اس کے ضرورت ہونے پر آپ کو شرح صدرحاصل ہو اور دوسری بات یہ کہ اس کی تکمیل جائز راستوں سے کی جائے۔اگر آپ ان دونوں باتوں کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں گے تو یقین کیجیے اللہ نے آپ کی ضرورتیں پوری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔قرآن میں یقین دلایاگیا ہے کہ:”زمین پر رینگنے والے ہر جانور کے رزق کی ذمہ داری اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے۔“(سورہ ھود آیت ۶)اور رزق صرف کھانا نہیں ہے بلکہ اس میں زندگی کی جملہ جائز ضروریا ت شامل ہیں۔دنیا کے بجائے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیجیے۔آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ اگرچہ آپ نے اپنی محنت اور دانش مندی سے کمایا ہے مگر محنت کرنے کے لیے اعضاء اور عقل اللہ کی ہوئی ہے۔آپ تو خالی ہاتھ دنیا میں آئے تھے۔اس لیے سادگی کو اپنائیے۔دنیا کی طلب کو انسانیت پر غالب نہ آنے دیجیے۔

Exit mobile version