غم جہاں سے نڈھال سراپا درد و ملال!!
✍️ جاوید اختر بھارتی
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
_____________
دینی ، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی مضامین اکثر و بیشتر لکھا جاتاہے اور چھوٹے بڑے سبھی قلمکار لکھتے رہتے ہیں مگر ضروری ہے کہ کچھ ایسے موضوع بھی سامنے آئیں جو حقائق پر مبنی ہوں یعنی آپ بیتی ہوں مرنے کے بعد تو لوگ اکثر تذکرہ کرتے ہیں مگر وہ مضامین پڑھ کر احساس ہوجاتاہے کہ تعزیت کا تحریری اظہار ایک فن ہے اور ایک رسم ہے باقی کچھ نہیں ہے- ہاں جیتے جی اس کی حیات وخدمات کا تذکرہ ہو تو کچھ کچھ اور بات ہوتی ،، قارئین کرام کوشش یہی ہوگی کہ تحریر میں کسی کی آپ بیتی کی جھلک نظر آجاۓ کسی غم جہاں سے نڈھال انسان کی یاد آجائے کسی سراپا درد و ملال انسان کی زندگی میں کچھ تسلی آمیز لمحات کا احساس ہوجائے تاکہ اسے جینے کا حوصلہ ملے پھر وہ کہہ سکتا ہے کہ ٹھوکر نہ یوں لگا مجھے پتھر نہیں ہُوں میں ،، بس میں غم کے گھر میں قید ہوں بے گھر نہیں ہوں میں ،، مگر ہاں تسلی میں دھاندلی نہیں ، جذبات سے کھلواڑ نہیں ، کسی کی غربت کا مذاق نہیں ، کسی کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ نہیں اب ضروری ہے کہ ایسے مضامین کو تحریر کرنے میں کچھ خاکہ بنانا پڑے گا یعنی زید و بکر جیسے الفاظ سے کسی کا نام دینا پڑے گا ،، اب سچ میں کسی کا نام زید و بکر ہو تو ان سے معذرت کیونکہ یہ ایک اتفاقیہ ہے وہ ہرگز اپنے کو نہ سمجھیں،، دنیا میں کچھ لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں لیکن سماج میں کچھ ایسی شناخت ہوتی ہے کہ بعض اوقات بڑی مشکل کا سامنا ہوتاہے خود معاشرے میں مختلف تقاریب کا اہتمام ہوتاہے تو اس موقع پر جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے یوں تو زید کی پیدائش 1970 میں ہوئی بچپن کے حالات پر تو روشنی ڈالنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن جیسے ہی ہوش سنبھالا تو مشکلات نے ایسے گھیرا کہ کہاوت ہے کہ ایک ایک مصیبت نو نو ہاتھ کی غرضیکہ پورا گھر ایک طرف اور زید تنہا وہ طالب علمی کا زمانہ تھا مدرسے کے لڑکوں کا ساتھ تھا مکتب فکر کی بنیاد پر اختلافات کے باعث قدم قدم پر مشکلات پیدا ہوتی رہیں آخر کار ایک سال دوسرے شہر بھی رہنا پڑا زید کی شادی ہوئی اب امید ہوئی کہ زندگی اچھی طرح بسر ہوگی مگر شائد قسمت میں ٹھوکر ہی لکھی تھی یعنی شادی کے بعد چاکی کے دو پاٹوں کے درمیان پسنے والی بات رہی گھر کی چہار دیواری میں زید اور اس کی بیوی ساتھ رہے باقی سارے لوگ مخالف رہے وہ دن بھی آیا کہ گھر سے نکلنا پڑا ڈیڑھ سال تک دوسرے کے گھر میں رہنا پڑا،، یقیناً والدین بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں زید کو اس سے انکار نہیں مگر ہاں زید یہ بھی کہتا ہے کہ والدین کی فضیلت بیان کرنا بہت آسان ہے مگر والدین کی طرف سے بھی جب الگ الگ نظروں سے دیکھنے کی بات ہوتی ہے تو جس کے سر پر پڑتی ہے وہی جانتا ہے کہ کیا گزرتی ہے زید کی عمر بچپن سے تقریباََ پچپن ہوگئی لیکن آج بھی غم جہاں سے نڈھال والا حال ہے اور سراپا درد و ملال والا حال ہے کسی کی آسرا نہیں کوئی سہارا نہیں اور تو اور بیٹا بھی نہیں جو زید کا ہاتھ پکڑ کر سہارا دے بس ہاتھ بھی زید کا، لاٹھی بھی زید کی ، خود چلنا ہے اور خود لڑکھڑانا ہے خود گرنا ہے اور خود ہی سنبھلنا ہے ،، بیٹے کا نہ ہونا ترقی کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہے ،، زید کی بہنوں نے بھی کبھی ساتھ نہیں دیا ہمیشہ دشمنی پر آمادہ رہیں اور دلوں کو چھید دینے والے الزامات تک لگاتی رہیں زید اپنی صفائی میں یہی کہتا ہے کہ اس کا فیصلہ اللہ کرے گا اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دلوں کو دکھانے والے اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کی ہٹ دھرمی پر غمزدہ شخص صبر کرلے گا اور معاملہ اللہ پر چھوڑدیا تو ان جھوٹے لوگوں کے لئے ایک دن بہت بڑا مسلہ بن جائے گا اور اللہ کے وہاں سے ضرور انصاف ہوگا کیونکہ وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- کب تک رہے گا مسلمان ڈھٹائی پر آمادہ
- جمہوری سیکولر سیاست میں دھرم کی مداخلت: ہندوستانی تناظر میں
- بھارتی تعلیمی نظام اور ہمارا مستقبل
زید حالات سے پریشان ہوکر 1988 میں مہاراشٹر کے شہر بھیونڈی میں بھی آٹھ مہینے رہا غریبی نے بھی پیچھا پکڑے رکھا غریبی سے شکوہ نہیں مگر غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے ضرور شکوہ ہے جہاں تک افسوس کی بات ہے تو زید کا کہنا ہے کہ بیٹے کا نہ ہونا افسوس کی بات ہے اور دو بیٹیوں کے بھائی کا نہ ہونا اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات ہے زید نے 2011 سے 2016 تک سعودی عرب میں زندگی گزاری محنت مزدوری کی وہاں پر بھی مختلف ممالک کے لوگوں کا ساتھ ملا لیکن پردیس تو پردیس ہی ہوتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ بچپن سے تقریباََ پچپن سالہ زندگی میں پھول کم کانٹے زیادہ ملے لیکن ہاں اسے 2008 میں ایک ایسا ساتھ ملا جس سے کچھ حوصلہ افزائی ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کی بہت عزت کی اور آج بھی کرتے ہیں زید کہتاہے کہ میں روزانہ اس کے حق میں اللہ سے دعائیں کرتا ہوں اور میرے جیتے جی اس کے حق میں کئی دعائیں قبول بھی ہوئی ہیں زید اپنے اس عزیز کو ہر موقع پر یاد رکھتا ہے اللہ سے اپنے لئے جو مانگتا ہے وہ اس کے لئے بھی مانگتا ہے خود زید کہتاہے کہ دنیا کو اپنے محبوب سے گلے مل کر جتنی خوشی ہوتی ہے اس سے بھی بہت زیادہ مجھے صرف اس کو تصور میں دیکھ لینے سے خوشی ہوتی ہے،، زید نے عمرہ کیا تو اس کے لئے بھی عمرہ کی دعا کی ، خانہ کعبہ کا طواف کیا تو اس کی جانب سے بھی کیا اور اس کے طواف کے لئے رب العالمین سے دعا کی سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ مقدس پر حاضری کے وقت اس کی جانب سے بھی خصوصی سلام پیش کیا اور اللہ سے اس کی حاضری کے لئے دعائیں بھی کی اور پانچ سال بعد اسے بھی وہ سب کچھ کرنے کی اللہ کی طرف سے سعادت حاصل ہوئی اور اسی بنیاد پر زید کہتا ہے کہ میری جیتے جی میری دعا قبول ہوئی لاکھ غربت اور رنج وغم کے ساتھ یہ میری بہت بڑی خوش قسمتی ہے –
آخر میں پھر دعا ہے کہ اللہ اسے سلامت اور سدا خوش رکھے آمین