Site icon

تعزیہ سے بت پرستی تک!

از: شمس الدین سراجی قاسمی

______________

"أَيْنَ تَذْهَبُونَ” تم کہاں جارہے ہو ، محرم الحرام تو اسلامی تقویم ہجری کا پہلا مہینہ ہے اور تم نے پہلے ہی مہینہ میں رب کو ناراض کر دیا، اب یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ محرم الحرام میں کئے جانے والے اعمال، بدعات ہی نہیں بلکہ کفریات و شرکیات پر مبنی ہیں، مسلمانوں کم از کم اس مہینہ کے نام کی حرمت کا ہی پاس لحاظ رکھ لیا ہوتا ۔
پہلے تو تعزیہ صرف مربع نما اس کے اوپر مینار بنا ہوتا تھا اور اب آہستہ آہستہ اس حد تک غلو کرگئے کہ انسانی مجسمہ کی شکل میں ہی تعزیہ بنانا شروع کردیا، اور پھر یہ سمجھ لیا کہ اس میں حضرت حسین رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی روح موجود ہے ، انہیں غیوب کا علم حاصل ہے، تب ہی تو لوگ تعزیہ کو قابل تعظیم سمجھتے ہیں ، اس کا بوسہ لیتے ہیں ، اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور اس سے پہلے مدد طلب کرتے ہیں جبکہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب فتاویٰ بزازیہ میں تحریر ہے کہ "من قال: أرواح المشائخ حاضرۃ یکفر.” یعنی جو کوئی کہے کہ بزرگوں کی روحیں ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں وہ کافر ہے۔ (ج:۳ ص: ۳۲۶ مع فتاویٰ عالمگیری )
اسی طرح فتاویٰ شامی میں ہے :إن کان لغیر اللہ تعالیٰ علی وجہ التعظیم کفر اھـ قال القہستانی: وفی الظہیریۃ یکفر بالسجدۃ مطلقا.(شامی: ٤/ ٣٨٣) یعنی غیر اللہ کو سجدہ کرنے والا مطلقاً کافر ہے چاہے عبادۃًٍ ہو یا تعظیماً”۔
اولاً تو تعزیہ بنانا یا اس کے بنانے میں کسی طرح کی معاونت کرنا ہی جائز نہیں ہے چنانچہ امداد الفتاوی میں ہے کہ ” تعزیہ کے ساتھ جو معاملات کئے جاتے ہیں، ان کا معصیت و بدعت بلکہ بعض کا قریب بہ کفر و شرک ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس کا بنانا بلا شک ناجائز ہوگا اور چوں کہ معصیت کی اعانت معصیت ہے، اس لیے اس میں چندہ دینا یا فرش و فروش و سامان روشنی سے "اس میں شرکت کرنا” سب کے سب ناجائز ہوگا، اور بنانے والا اور اعانت کرنے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔(امداد الفتاوی:۴\۸۰) تو پھر اس کا سجدہ کرنا ، بوسہ لینا، اس سے مدد طلب کرنا، اس موقع سے نوحہ خوانی کرنا و سینہ کوبی کرنا اور ماتم و نوحہ میں کلمات شرکیہ ادا کرنا، لوہا ، لاٹھی، تلوار اور کلہاڑی لے کر سڑکوں اور چوراہوں پر نکلنا ، یاحسین کے نام پر چندہ کی دکان کھولنا ، جنگی باندھنا ، ناچ تماشہ کرنا، ڈھول بجانا ، عورتوں کا بے پردہ گھومنا کہاں سے جائز ہو جائے گا؟
واضح رہے کہ تعزیہ داری اتنی بڑی نحوست ہے کہ اس ایک برائی میں سیکڑوں کار بد پوشیدہ ہے، ایک تعزیہ داری نے اسلام و مسلمان کی تصویر بگار کر رکھ دی ہے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ڈنکے کے چوٹ پر یہ اعلان کریں کہ تعزیہ داری کا اسلام و مسلمان سے کوئی واسطہ نہیں ہے، یہ صرف اور صرف جہالت، بدبختی، بد نصیبی اور بد کرداری ہے، اللہ پاک ایسے تمام لوگوں کو ہدایت دے جو اس خرافات میں پڑے ہوئے ہیں۔
کسی کہنے والے نے اس ماحول کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا ہی خوب کہا ہے کہ :
آج بازار میں عجیب بے وفاء منظر دیکھا جائے گا
حسینؓ زندہ باد کہنے والوں کو یزید کا عمل کرتے دیکھا جائے گا
حسین ؓ کی نماز جنگ کربلا میں بھی قضاء نہیں ہوئی
آج انہی کے نام پر لوگوں کو بے نمازی گھومتا دیکھا جائے گا
حسینؓ کا جنازہ دیکھ کر بھی پردہ نہ چھوڑا زینب نے
آج تعزیہ کے نام پر عورت کو بے پردہ دیکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

آج کل بعض لبرل قسم کے لوگ جو بصارت و بصیرت سے کوسوں دور ہیں وہ کہتے پھرتے ہیں کہ محرم کے موقع سے لاٹھی، ڈنڈا وغیرہ لیکر نکلنے سے لوگوں میں مسلمانوں کا رعب داخل ہوتا ہے، مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے؛ لیکن کوئی ان لبرل لوگوں کو بتائے کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اخلاق کے شور سے پھیلا ہے۔ اخلاق کریمانہ، اقوال حکیمانہ، احکام عادلانہ اور معاملات میں پاکیزگی وغیرہ ذالک صفات نے مسلمانوں کی عمدہ اور خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے آئی جو اشاعت اسلام کا سبب بنی! آج کیا وجہ ہے کہ لوگ اسلام کی طرف راغب نہیں ہے ؟ ہمارے اخلاق اور بد کرداری کا اس میں بڑا دخل ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو تعزیہ داری اور تمام بدعات و خرافات سے بچائے آمین ۔

Exit mobile version