دین،مسلمان اور نصرت
محمد عمر فراہی
ایک ساتھی نے ملک عزیز میں مسلمانوں کے حالات پر فیس بک پر تبصرہ کیا ہے کہ یہ مت سوچو کہ اللہ کی نصرت کیسے آے گی ۔یہ سوچو کہ نصرت کہاں رکی ہوئی ہے اور پھر مثال پیش کیا ہے کہ
اللہ نے فرعون کو پانی میں غرق کرکے ہلاک کیا ۔
نمرود کو مچھر سے مارا ۔
اور ابرہہہ کو معمولی پرندوں کی فوج سے ہلاک کیا
اس تبصرے پر مجھے قرآن کی یہ بات بھی یاد آئی کہ اللہ بعض کو بعض سے دفع کرکے کیسے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ۔
ہم نے سویت روس USSR اور USA یعنی امریکہ کی سرد جنگ کو دیکھا بھی کہ کس طرح ایک مسلم ملک کے وسائل پر قابض ہونے اور ان کی دینی غیرت کو تباہ کرنے کیلئے یہ دونوں عالمی طاقتیں ڈھیر ہو گئیں اور دوبارہ پھر یہ دونوں طاقتیں یوکرین میں الجھ چکی ہیں اور راوی ہندوکش کے ان قبائلی مسلمانوں کیلئے چین لکھ رہا ہے ۔اسے کہتے ہیں نصرت ۔
لیکن کیا بھارت کے مسلمان بھی اسی طرح کی نصرت کے مستحق ہیں ؟
جہاں تک میرا اپنا مطالعہ اور مشاہدہ ہے بھارت کے مسلمانوں پر اگر فاشسٹ طاقتیں غالب آ چکی ہیں اور وہ اپنی دشمنی بھی نبھا رہے ہیں تو خود مسلمانوں کی اپنی اکثریت نے بھی خود کو تباہ کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ۔مسلمان اس وقت بھارت میں بہت بری طریقے سے شرک اور بدعات کے علاوہ بہت سی مذہبی خرافات اور تہذیب و ثقافت کے نام پر رسم و رواج کی زنجیروں میں اس طرح قید ہو چکا ہے کہ اب دور دور تک کوئی موسی بھی نظر نہیں آتا کہ اسے ان خرافات سے آزاد کروا سکے یا اگر وہ سامنے آ بھی جاۓ تو وہ اس کی بات پر لبیک کہنے کو تیار ہو ۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جدید جمہوری دور کے سامری کا جادو حضرت موسی کے دور کے سامری سے کہیں زیادہ طاقتور اور خوشنما ہے ۔بدقسمتی سے بیسویں صدی کے سامری کے حق پر ہونے کی تصدیق اس وقت کے اکابرین کی اکثریت نے بھی کی ہے اس لئے بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت جو کہ پہلے ہی سے روایت پسند اور تقلید پسند شرکیہ ماحول کی پروردہ رہی ہے اسے دوبارہ اپنی کتاب کی طرف پلٹنا بہت مشکل نظر آتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں کہنا چاہئیے کہ بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت کا کردار بنی اسرائیل سے بھی بدتر اس لئے ہے کہ کم سے کم بنی اسرائیل نے حضرت موسی کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ ان کے پیچھے چلنے کیلئے رضا مند ہوئی یا سامری کے فتنے سے توبہ کرلیا۔ اس کے برعکس آج اگر اہل ایمان کے سامنے کوئی وقت کا موسی یا مہدی سامنے آتا بھی ہے تو اسے سب سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اخوانی ہے کہ منہجی کہ تحریکی دیوبندی بریلوی یا جماعتی وغیرہ وغیرہ ۔
اللہ کی نصرت کے نزول کیلئے خیر امت کا وجود ہونا لازمی ہے ۔بدقسمتی سے بھارت میں اب تو مسلمانوں کا کوئی ایسا قافلہ یا قبیلہ بھی نہیں رہا جس کی قیادت کرنے والا کوئی ٹھیک سے امام یا سپہ سالار بھی ہو۔بے چاری نصرت اگر کہیں راستے میں ہے بھی تو شاید وہ بھی خیر امت کے اس امام غائب کی تلاش میں ہو جو اپنے قافلے کے ساتھ کہیں غائب ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ پہلے فرقوں میں تقسیم بھارت کے مسلمان آپس میں یہ بھی تو طئے کر لیں کہ کون صحیح راستے پر ہے یا کس کا منہج درست ہے اور کون اصل میں مومنین کی جماعت کے اصل نمائندے ہیں ۔یہ بھی طئے کر لیں کہ کس فرقے اور گروہ کے لوگوں کے جنازے میں شریک ہونا جائیز ہے اور کس میت پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا جاۓ یا نہیں یا کس مسلک کے علماء کیلئے رحمت اللہ علیہ بھی لکھنا جائز ہے یا نہیں ۔ذرا غور کریں کہ جو قوم اپنی جماعت کے علماء کے سوا کسی دوسرے مسلک کے علماء کیلئے رحمت اللہ علیہ بھی لکھنے کیلئے بخیل ہو اس پر اللہ کی نصرت تو دور کی بات رحمت بھی نازل ہو سکتی ہے ؟ ایسے بے رحموں پر اللہ بھی رحم کیسے کرے ؟
بھارت کے مسلمانوں کو اس وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ اپنے اعمال کی وجہ سے مار کھانے کے تو حق دار نہیں ہیں ۔کیااس کی حالت اس وقت وہی تو نہیں ہے جو یہودیوں کی تھی اور ان کی اسی نافرماں بردای کی وجہ سے ان پر ظالم قوم اور ظالم بادشاہ مسلط کر دئیے گئے تھے ۔آپ کہیں گے کہ ارے ہم تو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ہیں ۔ہم پرامن گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار بھی ہیں ہمیں اللہ کیسے سزا دے سکتا ہے تو تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کیسے ہلاکو خان نے بغداد کو روند ڈالا تھا۔ کیسے صلیبیوں نے ارض فلسطین میں داخل ہو کر مسلمانوں کا اتنا قتل عام کیا کہ ارض اقدس کی گلیوں میں خون کی ندی بہنے لگی ۔ کیا وہ مسلمان رسول عربی کی قوم سے نہیں تھے ؟ شاید وہ ہم سے بہتر رہے ہوں ۔
یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ ہم سے بہتر رہے ہوں گے کیوں کہ جو تھوڑی سی تاریخ ہم نے پڑھی ہے یہ محسوس کیا ہے کہ بیسویں صدی میں جس طرح خود مسلمانوں نے اپنے مذہب کا مزاق اڑایا ہے اور جو فتنے مسلمانوں کی عبقری شخصیات کی طرف سے اٹھے ہیں ماضی کی تاریخ میں مسلمان اتنا بھٹکا ہوا کبھی نہیں تھا ۔ان کے زوال کی وجہ وقت کے حکمرانوں کی کاہلی ہو سکتی ہے لیکن فکری اعتبار سے وہ اتنا پستی کا شکار کبھی نہیں رہا ۔ان کی قیادت اور رہنمائی کیلئے کوئی نہ کوئی صلاح الدین ایوبی اور ابن تیمیہ جیسا عالم پیدا ہوتے رہا اور انہوں نے اسے تسلیم بھی کیا اور ان پر اللہ کی نصرت بھی نازل ہوتی رہی ۔برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے داخلے کے بعد اہل ایمان جس طرح نہ صرف جسمانی فکری اور روحانی طور پر بھی انتشار کا شکار ہوۓ اور اللہ کے دین کو ٹکڑے کردیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ایسے میں اگر اللہ ہم پر رحم کرتے ہوۓ نجات کا راستہ بھی دکھا دے تو بھی ہمارے حق میں بہتر ہے !