جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول
جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول

جمہوری اور سیکولر ملک میں بقائے باہم کے اصول ✍️ مسعود جاوید ___________________ پچھلے دنوں ٹرین پر سوار بعض مسافروں کا ریل گاڑی کے ڈبوں کی راہداریوں میں نماز ادا کرنے کے موضوع پر کچھ لکھا تھا اس پر بعض پرجوش مسلمانوں بالخصوص فارغين مدارس اور دینی جماعتوں سے نسبت رکھنے والوں نے ناراضگی کا […]

کیا عمارت غموں نے ڈھائ ہے

✍️ شاہد عادل قاسمی ارریہ

___________________

السلام علیکمُ کی نڈھال آواز سے قوت سماعت کچھ دیر کئے بغیر اگلا جملہ “میرا خدشہ درست ثابت ہوا “سننے کے لئے تیار ہوچکا تھا ،مجھے زبان حال سے “انا للہ وانا الیہ راجعون “پڑھنے کے ماسوا کچھ سمجھ میں نہیں آیا ،چند دنوں کی ہی تو بات ہے کہ ہم چند لوگ علمی اور قلمی شخصیت کی عیادت کے لیے حاضر ہوۓ تھے، بستر مرض پر دراز انسان ہماری آمد پر ایسے سمٹ کر بیتھ گئے جیسے بیماریوں نے ان سے رشتہ توڑ لیا ہے اور وہ ایک تندرست صاحب گوشت پوست نظر آنے لگے،دوران گفتگو ان کی مسرت دیدنی تھی، بے تکلف یاروں کی یافتگی پر ان کا مسکان بھی نہارنےلائق تھا، مہلک مرض کے آخری اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں اور ہم سب ان کے معمولی انفیکشن والے گفتگوپر ان کی یقین دہانی کو تقویت پہنچا رہے ہیں ،آپ کو کچھ نہیں ہوا ہے،آپ کی دعوت باقی ہے،آپ پٹنہ سے آئیے پھر ہم لوگ آپ کی میزبانی سے اپنے لذت دہن وکام کو توانائ فراہم کرائیں گے یہ سب تسلی اور تعزیتی مراسم سے ہم سب ان کی ہمت کو مزید حوصلہ دینے کی کوشش کررہے تھے ،جو آج ناکام ہوگئ،جن کی دعوت سے ہم آج محروم ہوگئے،جن کی یاری سے آج انجمن کی ایک شاخ جدا ہوگئی،جن کی جدایئگی پر ہم آج غموں کے بادلوں تلے دب چکے ہیں.
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

آج شام سات بجے کی اندوہ ناک خبر کسی پہاڑ سے کم نہیں ،جس نے خرمن دل کو خاکستر کردیا، سیمانچل کا یہ علمی قلندر اس قدر ادبی اور علمی کہکشاؤں پر اپنی فرقت کا آنسو چھلکا ۓ گا گمان نہیں تھا،میڈیائ دنیا پر کچھ دیر تلک ایسا محسوس ہواکہ قدردانوں کی فہرست کافی طویل ہے،اس عظیمُ خسارہ پر یہ گلوبی محلہ کراہ اٹھا،ہاتھوں نے بارگاہ عالی سے فریاد کیا،زبانوں نے قلب عمیق کی اتھاہ سمندر میں مغفرت کی سیپ کو تلاش کیا،نوک قلم نے جھوم جھوم کر بارگاہ خداوندی میں ایصال ثواب کا پرچہ لکھا،مغفرت ،صبر اور نعم البدل کے مطالبے سے پیارااحتجاج بھی نظر آیا جس سےانسان اپنے خالق کے دربار میں عرضی لگا رہا تھا اور کیوں نہ ہو جب اپنے درمیان سے ایک مستند عالم دین،ایک منجھا ہوا قلم کار،ایک بہترین شاعر،ایک باغیانہ نظرو فکر کے حامل،ایک اجتہادی صاحب الراۓ عالم باکمال کا ارتحال ہوا ہو ،جنھیں دنیا کبیر الدین فوزاں کے نام سے جانتی ہے ،جن کا گھر پورنیہ ضلع کے مشہور گاؤں “بیل گچھی “سے سٹے” گندواس “ہے –

آپ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان میں سے ہیں،ملک آزاد ہونے کے دس سال بعد آپ کی فصیلت دیوبند سے مکمل ہوئ ہے،زمانۂ طالب علمی سے ہی آپ ذہانت وفطانت مثالی اور تمثیلی رہی ہے،اساتذۂ کرام کے درمیان بھی آپ محبوب نظر رہے ہیں،دنیاۓ علم کے کتب خانہ علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحب زادہ علامہ انظرشاہ کشمیری کے آپ خاص الخاص شاگرد رشید رہے ہیں ،آپ کی علمی گیرائ اور ادبی ذوق کی گہرائ میں علامہ انظرشاہ کشمیری کا بڑا دخل رہا ہے،تراش خراش کرکے آپ کو بھی ان نگاہ خاص نے علامہ بنادیا ،آپ کے علامہ کا لاحقہ “فوزاں” کی شفٹنگ میں بھی حضرت کشمیری کی ہی محبت شامل ہے۔

مولانا کبیرالدین فوزان اور مولانا شاہد عادل قاسمی ایک فریم میں

کم سنی میں ہم سب پر بھی آپ کا شہرہ کافی جلوہ گر تھا،بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے آپ ملحق تھے،تقرری کے لیے بہ طور ممتحن آپ جب کسی مدرسے میں ایکسپرٹ بن کر نمودار ہوتے تھے تو واقعتا سوالات کی نوعیت سے علمی بوند ٹپکتا تھا،بلاکی صلاحیت تھی،قوت استدلال بھی غضب کا تھا،زبان کی شیلی اور اجتہاد کی برسات سے ہم جیسے کم علم مولوی ہانپتے کانپتے نظر آتے تھے،کچھ تفرداتی خیالات بھی آپ کے وقت کے نمونے تھے، جسے کئی مرتبہ ہمیں خورد نوازی کے ساتھ آپ بتاتے تھے، لیکن جوں کہ ہم دونوں کا مشرب ایک ہی تھا ،اس لیے ہم بھی مدلل گفتگو کرتے جس پر آپ کبھی مسکراتے ،کبھی تھپتھپاتے ،کبھی اپنے استدلال سے ہمیں پچھاڑنے کی سعی کرتے دوچار عقیدوں کی گفتگو کے علاوہ ہمارا موقف ان سے جدا نہیں رہا آپ صاحب علم تھے اور اہل علم کے قدردان بھی تھے خواہ آپ کے معاصر ہوں یا آپ کے سامنے زانوئے تلمذ کرنے والا کوئ شاگرد –

ارریہ ادبی ڈھابہ پر بعد مغرب ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے ہم نشینوں اور رفیقوں سے اور دن کے اجالے میں ہمارے مدرسہ یتیم خانہ میں ضرور تشریف لاتے جہاں آپ اپنے عزیز اور مدرسہ مذکور کے مدرس مفتی ہمایوں اقبال سے خیالاتی اور طبعیاتی مراسم کو پیش کرتے اور آپسی تبادلۂ خیال کرتے –

تخلیق آدم اور میراث کے کچھ مسائل پر بے سروپا کے خیالات سے ضرور اہل علم متفکر ہوتے اور انھیں رجوع کی دعوت دیتے جنھیں وہ کبھی مان گئے اور کبھی منوانے کی ضد پر مصر ہوگئے-

حالیہ دنوں “تورات “پر وہ تحقیقی کام کررہے تھے، جنھیں مجھے سونپ دینا چاہتے تھے ،گزشتہ روز کی عیادت پر عقدہ کھلا کہ احسان قاسمی صاحب کے حوالے کردیا ہوں ،مجھے خوشی ہوئ کہ وہ صاحب ذوق کے ہاتھوں تھما گے ،خدا کرے وہ باعث خیر ہو-

مدرسہ تنظیمیہ بارا عیدگاہ پورنیہ اور مدرسہ نورالاسلام لکھن جھری پورنیہ میں وہ بر سر ملازمت رہے، ملحقہ مدرسوں میں گزشتہ سالوں سرکاری مولویوں کی تنگ دستی اور فاقہ کشی بڑی عام رہی ہے، مہینوں مہینوں کی اجرت سالوں سال نہیں ملنے کی کیفیت پر ان کا دل جو رویا ہے دیکھنے لائق ہے، خوب صورت نشتر سے آپریشن اور لٹھے میٹھے بول سے علاج کی سبیل کو ڈھونڈھتے کی اچھی کوشش کی ہے۔

کب تلک بیوی کی چپل زیب پا کرتا رہوں
رات دن بس ایک بھٹے پر گزر کرتا رہوں
قرض خواہوں سے بھلا کب تک مفرکرتا رہوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

ہم دونوں ہم نسبت تھے، یہ الگ بات ہے کہ میرے وہ دیرینہ استاد تھے اور نہ ہی میرا ان سے بالمشافہہ قدیم رشتہ تھا البتہ غائبانہ شہرت اور قلمی زیارت سے میں ان کا مرید تھا ،کچھ عقیدے اور علمی باتیں تھیں جہاں ہمارا موقف الگ تھا مگر اس فانی دنیا میں ایک سنجیدہ انسان کبھی بھی ایک باصلاحیت انسان سے دوری نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی کوئ ذاتی عناد-
بالخصوص میں تو بشیر بدر کو گنگناتا رہتا ہوں:

اے خدا تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمین
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے

مولانا کبیرالدین فوزان اپنی کتاب گلگشتِ خیالات کے ساتھ

فوزان صاحب نام کے کم اور کام کے بڑے انسان تھے، امنگوں اور آرزوؤں سے بھر پور تھے، تنگ دستی اور کم سبیلی کے باوجود ان کی کمر خمیدہ ہوئ تھی اور نہ ہی ان کی بینائ کم ہوئ تھی،اپنے ارادوں اور مہموں کو انھوں نے ہمیشہ ریشمی لباس پہنایا ہے ،بے کلی کی کیفیت کو اپنے اوپر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا ہے،تنقیدی تیور سے اکثروبیشتر مواقع سے ایک نئی معنویت کو بھی جنم دیا ہے ،تاریخ پورنیہ پر آپ کی کاوش مشعل راہ ہے ،مشہور نقاد حقانی القاسمی نے لکھا ہے:

“پورنیہ کے جغرافیائی ،طبعی،ثقافتی اور سیاسی مزاج کی تفہیم کا ایک وسیلہ “آئینۂ پور نیہ “نامی کتاب بھی ہے ،جو اطلاعی اسلوب میں ہے اور نہایت بے تکلفانہ غیر رسمی انداز میں لکھی گئی ہے،کہیں کہیں طنز ومزاح کی آمیزش اور کاٹ دار فقرے کی وجہ سے قرات کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے”(رینو کے شہر میں صفحہ ۹۹)

آپ کا قلم،آپ کا علم اور آپ کی مساعی جمیلہ بے شمار ہیں،ملک کے مقتدر رسالوں اور مجلوں میں آپ کو جگہ ملی،تحقیقی اور تنقیدی سی می ناروں میں آپ کی شمولیت آپ کی صلاحیت کی ضامن ہے،سیاسی شعور اور سیاسی اتھل پتھل پر بھی آپ کی گہری نگاہ مرکوز رہی ہے ،احسان قاسمی صاحب کی زبان میں آپ ایک علمی ادبی اور قلمی مجذوب ہیں،مشتاق نوری صاحب کی زبان میں آپ ایک شخص نہیں بل کہ شخصیت کے مالک ہیں ،حقانی القاسمی صاحب کی زبان میں آپ کا جانا ایک علمی خسارہ ہے،عبد المنان صاحب کی زبان میں آپ کے افکار ہمیشہ تابندہ رہیں گے،نعمان قیصر صاحب کی زبان میں آپ اجتہادی فکرونظر کے حامل ہیں ،ہمدم صاحب کی زبان میں آپ منجھے ہوۓ ادیب ہیں،جہانگیر نایاب صاحب ایک درنایاب کی گم شدگی پر اشک بار ہیں ،پرویز علیگ کے پاس آج عقیدت کے الفاظ تنگ ہیں، دین رضا اختر دیرینہ ہمدم کے روٹھ جانے پر صاحب فراش ہیں، تنہا صاحب اپنے قلمی دوست کے کھو جانے پر گم سم ہیں،راکیش جی اپنے متر کی جدائی گی پر مکمل خاموش ہیں،رفیع حیدر انجم جی تو کچھ کہنے اور لکھنے کی سکت سے آج عاجز ہیں،ہمراز بابو اپنے مرنجا مرنج انسان کے جانے پر غم زدہ ہیں اورناچیز بھی ان کی عزیزم نوازی اور اخلاق دوستی والی خصلت پر آج بھی فدا ہے۔

ہجوم اس قدر کیوں ہے شراب خانہ میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

سچ یہی ہے کہ آپ ایک آفاقی اعتبار حاصل کئے ہوۓ ہیں ، جن کی رحلت سے ہم سبھی سوگوار ہیں ،جن کی مفارقت سے علم وادب کا خیمہ آج دل ملال کے ساتھ کھڑا ہے،جن کی اونچی کان اور دھیمی گفتگو سے معاشرہ محروم ہوچکا ہے،جن کے آنگن کے پھول اور بزم رفیقاں کے چمن آج رنجور ہیں،جن کے خوشہ چیں اور جن کے حلقۂ احباب آج رب دوجہاں سے مغفرت کی بارش اور باران رحمت کی فریاد لیے دست بدعا ہیں اور احوال دل یہ کہنے اور ماننے پر مصر ہیں کہ
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: