۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

اسلامی عائلی قانون کا تحفظ خود ہماری ذمہ داری ہے!

محمد قمر الزماں ندوی

استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

_________________

دوستو،بزرگو اور بھائیو !

اسلام ایک کامل، مکمل اور جامع وہمہ گیر دین ہے اور آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سال میں اس کے مکمل کئے جانے کا اعلان ہو چکا ہے، سورۂ مائدہ میں ہے
،، اليوم أكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتي و رضيت لكم الاسلام دينا،،(آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے کامل و مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کر دیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کیلئے پسند کر لیا)
دوسری جگہ ہے ، ان الدین عند اللہ الاسلام ۔ اللہ کے نزدیک اب قابل قبول دین صرف اسلام ہے ۔
آگے فرمایا ،، ومن یبتغ غیر الاسلام دینا ، فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین ۔
جو شخص اسلام کے علاؤہ کوئی اور دین پسند و اختیار کرے گا وہ اس کی جانب سے ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا ۔
جامع اور مکمل دین ہونے کی صفت تنہا اسلام کی شان ہے ،دنیا کا کوئی دوسرا دین قدیم ہو یا جدید اس مقام تک نہیں پہونچتا؛ خواہ وہ دین سماوی ہو جیسے یہودیت و نصرانیت یا زمینی جیسے تمام مشرکانہ مذاہب ،بشمول ہندو مذہب،بدھ مذہب ،جین مذہب اور وہ عقائدوخیالات جنہوں نے انسانی زندگیوں میں مذہب کی جگہ لے لی ہو، جیسے کمیونزم، سوشلیزم اور دیگر اسی سے ملتے جلتے ازم۔
جامع سے مراد اور مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اور مکمل کا مطلب یہ ہے کہ جو رہنمائی اور احکامات اس نے دئے ہیں، ان میں اب مزید اضافہ اور بڑھوتری کی گنجائش نہیں ،کیونکہ یہ دین رب العالمین کی طرف سے آیا ہے اور اسی نے یہ بات بتائی ہے کہ اب یہ مکمل ہوگیا ہے۔
جب رب العالمین نے ہی اس انسان کو پیدا کیا ہے ،جو اس دین پر عمل کرنے کا پابند ہے اور اسی نے یہ دنیا بنائی اور دنیا کے حالات بنائے تو وہی سب سے زیادہ جانتا ہے کہ یہ انسان ان حالات میں کتنا عمل کر سکتا ہے اور اسکو کیا کیا عمل کرنا چاہیے ،اسی لئے جب کوئی اسلامی حکم ہمارے سامنے آئے جو قرآن وسنت سے ثابت ہو تو اس کو قبول کرنے یا اس کو مفید و مناسب سمجھنے میں ہمارے لئے کسی تردد کی گنجائش نہیں –
دین اسلام عقائد ،عبادات اور معاملات پر مشتمل ہے اور یہی وہ تین پہلو ہیں، جو انسانی زندگی پر محیط ہیں ،عقائد کی بنیاد پر تو یہ طے ہوتا ہے کہ کن باتوں کے ماننے پر آدمی دین اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اور کن باتوں کے نہ ماننے سے خارج ہوتا ہے،اس لئے دین میں عقائد کو سب سے زیادہ بنیادی اور اولین حیثیت حاصل ہے،لہذا عقائد کی صحیح نوعیت اور انکی تفصیل سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ نا واقفیت کی بنا پر کوئی مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہو جائے ،عقائد میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور صفات،اس کا دینی پیغام لانے والے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے انبیاء علیہم السلام کا مقام نبوت اور اسکی ضروری تفصیل، نیز خدا کی پیدا کی ہوئی غیر مرئی یعنی دکھائی نہ دینے والی عام نظروں سے مخفی مخلوق فرشتوں ،اسکی اتری ہوئی کتاب اور یوم آخرت کے ہونے اور وہاں حساب سزا وجزا ہونے پر یقین کرنا شامل ہے۔
عقائد کو صحیح طور پر ماننے کے بعد اسے انکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی کو انکے مطابق بنانا ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ خالق و معبود ہے،اس لئے اسکی عبادت فرض ہے اور چونکہ وہ تن تنہا معبود ہے،اس لئے اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کیا جا سکتا ،اس نے احکامات کو سمجھانے کے لیے رسول بھیجے اور آخر میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بنا کر بھیجا ہے، انکی پوری پوری اطاعت کرنا ضروری ہے ۔
عقائد و عبادات کے بعد زندگی کے عام معاملات آتے ہیں، ان میں خدا تعالیٰ کے احکامات جن کی وضاحت اس کے رسول نے کی ہے ، انکی تعمیل واجب ہے ۔
مذکورہ بالااشاروں کی بنیاد پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سب باتیں تفصیلات رکھتی ہیں ان کا جاننا اور ان پر عمل کرنا ایک مسلمان پر واجب اور ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔ (مستفاد از مقدمہ کتاب اسلام ایک مکمل دین مستقل تہذیب مولانا عبیداللہ اسعدی)
اس حقیقت کے یقین اور اعتراف کے بعد کہ اسلام ہی آخری دین ہے اور اب صرف یہی دین اللہ کے نزدیک قابل قبول ہے ، کسی اور مذہب کی تقلید و پیروی اور اتباع کسی طرح درست اور جائز نہیں ہے ،ایسا شخص آخرت میں مجرم اور گھاٹا اٹھانے والا ہوگا ۔۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ان الدین عند اللہ الاسلام ۔۔۔ دوسری جگہ فرمایا و من یبتغ غیر الاسلام دینا ، فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین ۔۔

دوستو بزرگو اور بھائیو!

ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہ ملک نہ تو دار الاسلام ہے اور نہ پوری طرح دار الحرب یا ہندو راشٹر ہے، بلکہ دار الامن ہے یہ الگ بات ہے کہ اس امن کو توڑنے میں ، مٹھی بھر شر پسند عناصر ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں اور اس ملک کے امن و امان کو توڑنے اور تاراج کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جس میں وہ ابھی تک ناکام ہو رہے ہیں اور ان شاءاللہ ناکام ہوتے رہیں گے۔ اس ملک میں جمہوری نظام کی وجہ سے ہم لوگ مکمل اسلامی قانون پر تو عمل نہیں کرسکتے کہ اس کے لیے اسلامی خلافت اور قوت نافذہ کا ہونا ضروری ہے ۔ اسلامی حکومت ہوگی تو سارے احکام پر عمل ضروری ہوگا ، تبھی دفاعی ،فوج داری اور قانون جرم و سزا یعنی حدود و قصاص و رجم اور دیگر اجراءات کا نفاذ ہوسکے گا ۔
لیکن ہم اس ملک میں اسلامی عبادات نماز روزہ حج زکوٰۃ و قربانی صدقات و عشر کی ادائیگی کے ساتھ اسلام کے عائلی نظام نکاح طلاق رجعت عدت ، خلع، ہبہ، نفقہ، حضانت ، وراثت اور وصیت وغیرہ پر مکمل عمل کرسکتے ہیں ۔ اس راہ میں ہمارے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، یہاں کے آئین و دستور میں ہمیں اپنے عائلی زندگی اور عائلی نظام پر بھرپور عمل کرنے کی اجازت ہے، اس کے لیے قانون کی دفعات اور شقیں موجود ہیں۔ ہمیں حکومت کہیں نہیں روک ٹوک سکتی اور اس راہ میں کوئی قانونی رکاوٹ بھی نہیں ہے ۔
لیکن یہ سچ ہے کہ جب ہم خود اسلام کے عائلی نظام پر عمل کرنے میں اسلام کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے لگے اور اس میں افراط و تفریط کے شکار ہوگئے، تو اس راہ میں بھی رکاوٹیں آنی شروع ہو گئیں اور حکومت اور مخالف طاقتیں یکساں سول کوڈ کی بات کرنے لگیں، ہمارے مسلم پرسنل لا پر حملہ شروع ہوگیا۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسلام نے ہمیں نکاح و طلاق عدت و رجعت خلع اور فسخ و تفریق وراثت و وصیت اور حضانت کا جو عادلانہ اور منصفانہ نظام قانون اور اصول دیا ہے، اگر مسلمان شریعت کے مطابق اور سنت کے موافق اس پر عمل کرتے تو آج یہ دقت اور پریشانی ہمارے سامنے نا آتی ان حالات کا ہمیں سامنا نہیں کرنا پڑتا۔۔
نکاح کو آسان بنایا گیا ہم نے خود اس کو مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ نکاح میں شوہر کے انتخاب میں اصل معیار دین داری بتایا گیا ہے، ہم نے مال، دولت، حسن اور خاندان کو اصل وجہ معیار بنایا، جس کی نحوست کی وجہ سے آئے دن عائلی مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔

دوستو بزرگو اور بھائیو!

یہ دنیاوی دستور ہے کہ جس راستے پر لوگ چلتے رہتے ہیں اگر روڈ میپ میں وہ راستہ نہ بھی ہو تو وہ راستہ بن جاتا ہے اور حکومت کی جانب اس راستہ کو قانونی راستہ کا درجہ مل جاتا ہے اور جو راستہ پہلے سے سروے میں موجود ہو، لیکن زمانہ سے لوگوں نے اس کو چھوڑ دیا ہو اس پر چلنا بند کردیا ہو تو وہ راستہ ڈیڈ روڈ ہو جاتا ہے اور اس کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے ،کیونکہ لوگوں نے اس پر چلنا چھوڑ دیا ہے ۔
یہی حال ہمارے اسلام کا ہے ہمارے دین اور ہماری شریعت کا ہے کہ اگر ہم اس پر چلتے رہیں گے تو وہ دین وہ شریعت اور وہ طریقہ باقی اور محفوظ رہے گا اور اگر ہم اس کو چھوڑ دیں گے اس کو اپنی زندگی میں نافذ نہیں کریں گے تو وہ دین کمزور ہو جائے گا وہ شریعت کمزور ہو جائے گی اور احکام مٹ جائیں گے، وہ راستہ ڈیڈ روڈ ہو جائے گا ۔

دوستو بزرگو اور بھائیو!

ہم پابند ہیں کہ اس ملک میں ہم جس قدر اسلامی احکام پر عمل کرسکتے ہیں اور جتنا عائلی نظام کو فالو کرسکتے ہیں، اتنا ہر حال میں کریں ، کیونکہ ہم اس کے مکلف بنائے گئے ہیں ۔
ایک بڑے عالم گزرے ہیں علامہ بویطی رح جو فقہ شافعی کے بڑے جید عالم گزرے ہیں ، مسئلہ خلق قرآن کی وجہ سے حکومت نے ان کو جیل میں ڈال دیا اور پا بہ زنجیر کردیا ، لیکن ان کے عزم حوصلے اور ذوق عبادت میں کمی نہیں آئی، جمعہ کے دن وہ غسل کرتے ، کپڑے تبدیل کرتے ، مسواک کرتے ،عطر و سرمہ لگاتے اور جب جمعہ کی اذان ہوتی تو فورا جیل کے دروازے کی طرف گھسیٹ گھسیٹ کر چلتے، لہو لہان ہو جاتے ، اور دروازے کے پاس بیٹھ جاتے ، کیونکہ آگے نہیں جاسکتے کہ جیل کا دروازہ بند ہوتا اور وہاں پہرہ دار ہوتے ، اور جب لوگ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس آتے تو وہ بھی اپنے بیرک کی طرف واپس آجاتے ۔لوگ سوال کرتے کہ حضرت! آپ اتنی زحمت کیوں کرتے ہیں ؟
آپ پر تو اس حال میں جمعہ فرض نہیں ہے، وہ جواب دیتے کہ جیل کے دروازے تک ہم جاسکتے تھے، وہاں تک ہم پہنچتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ یہ سوال نہ کردیں کہ بیوطی ! جب جمعہ کی نماز کے لیے پکارا گیا اور تم نے جیل کے گیٹ اور دروازے تک کم سے کم جانے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ جہاں تک تم جاسکتے تھے ،آگے پہنچانا نہ پہنچانا یہ ہماری ذمہ داری تھی ، تو ہم کیا جواب دیں گے ؟

دوستو بزرگو اور بھائیو!

اس ملک میں ہم مذہبی عبادات کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لا پر عمل کرسکتے ہیں ، ہمیں اس کی بھر پور اجازت ہے ، اگر ہم خود عائلی نظام پر عمل کرنا ترک کردیں گے، تو ہمارا مسلم پرسنل لا بھی مٹ جائے گا اور ہم عائلی نظام پر عمل کرنے سے محروم کردئے جائیں گے ۔
اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اسلامی عبادات کو اسلامی معاشرت کو اسلام کے عائلی نظام کو اسلام کے نظام وراثت کو اسلام کے نظام اخلاق کو اسلام کے نظام معاشرت کو اور اسلام کے نظام خاندان کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور اسلامی راستے کو ڈیڈ روڈ نہ ہونے دیں، ورنہ ہم خدا کی نگاہ میں مجرم ہوں گے اور دین و دنیا دونوں کا نقصان کریں گے ،سکون و چین کی زندگی سے محروم ہو جائیں گے ۔
اسلام نے نکاح کا جو عادلانہ اور حکیمانہ نظام اور سسٹم دیا ہے، اس پر ہم عمل کریں ، نکاح کو آسان بنائیں ، رشتہ کے انتخاب میں دین داری کو اصل معیار بنائیں ، رشتہ کے دوام کے لیے کفو ، ہمسری، برابری اور جوڑ کابھی خیال رکھیں ۔ رشتہ میں دڑاڑ اور کھٹاس پیدا نہ ہو محبت اور پریم سے اس رشتہ کو نبھائیں، عورت کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ کریں ، بیوی شوہر کے لیے لباس کی طرح ہے اور مرد بیوی کے لیے لباس کے مانند ہے، اس سے قربت اور تعلق کو سمجھیں اور یہ سمجھیں کہ یہ رشتہ کتنا پاکیزہ اور قربت والا ہے ، جس کو لباس سے تشبیہ دی گی ہے ،اہک دوسرے کی سخت باتوں کو نظر انداز کریں ۔ اگر وقتی ناچاقی اور ان بن ہو جائے تو آپس میں مل جل کر اس ناراضگی کو ختم کرلیں ، کسی کو معلوم بھی نہ ہو ۔ اور اگر بات نہ بنے تو وقتی طور پر بستر الگ کرلیں ، لیکن کمرہ تبدیل نہ کریں ، ہوسکتا ہے دونوں کو اپنی کمی اور غلطی کا احساس ہو جائے اور دونوں مل جل کر رہنے لگیں ، اگر یہاں بھی بات نہ بنے تو مسواک سے یا رومال سے تھوڑی سی تنبیہ کرے لیکن زور سے یا نازک جگہ پر نہ مارے ۔
اگر اس کے باوجود لڑکی میں اصلاح نہ دیکھے تو دونوں خاندان سے دو مخلص حکم اور پنچ کو سامنے لائے جو ان دونوں میں صلح کرا دے اور نکاح کے رشتہ اور تقدس اور ضرورت کو سمجھائے، اگر یہاں بھی بات نہ بنے تو پھر مجبوری میں طلاق کا سہارا لے سکتا ہے ۔ لیکن اس میں بھی جو بہتر ہے، اس راستے کا انتخاب کرے یعنی طلاق احسن یا طلاق سنت دے ، طلاق احسن یہ ہے کہ طہر کی حالت میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دے اگر عدت میں رجوع کرلے گا تو دوبارہ اس کی بیوی ہو جائے گی اور اگر عدت پوری ہوگی تو یہی طلاق رجعی طلاق بائن ہو جائے گی اور دونوں کا نکاح ختم ہو جائے گا ۔ لیکن دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تین الگ الگ طہروں میں تین طلاق دے یعنی طلاق کی مدت کو طویل کردے تاکہ درمیان میں رجوع کرنا چاہیے تو رجوع بھی کرسکے ۔
لیکن ایک مجلس میں تین طلاق دینا یا ایک پاکی میں تین طلاق دینا یا ناپاکی کی حالت میں طلاق دینا یہ سنت کے خلاف ہے اگر چہ طلاق ہو جاتی ہے ۔ لیکن یہ عمل سخت ناپسندیدہ ہے اور اس کی وجہ سے ہم حکومت کی نظر میں بھی مجرم ہو جاتے ہیں ۔
جہاں تک عدت کی بات ہے عدت کا نفقہ کیا ہے ، کیا مطلقہ عدت کے بعد بھی نفقہ لے سکتی ہے ، کیا حکومت ہدیہ اور جرمانہ کے نام سے ہم سے لے کر مطلقہ کو دلوا سکتی ہے ، اس کے نقصانات کیا کیا ہیں ،
متاع بالمعروف کا کیا مطلب ہے ؟ کیا شوہر از خود اضافہ کرکے مطلقہ کو کچھ دے سکتا ہے ؟ اس پر گفتگو ہم اگلے جمعہ کریں گے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شریعت کے ایک حکم پر عمل کرنے کی ہمت حوصلہ اور جذبہ دے آمین یا رب العالمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: