فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ سازش یا سچائی ؟

فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ سازش یا سچائی ؟

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

فلم ’پٹھان ‘ کے بعد اب ایک اور فلم ’دی کیرالہ اسٹوری ‘ پر ہنگامہ شروع ہو گیا ہے ۔ بس فرق یہ ہے کہ جو لوگ’ پٹھان ‘پر انگلیاں اٹھا رہے تھے وہ اب ’دی کیرالہ اسٹوری ‘ فلم کو اٹھا رہے ہیں یعنی اس کی حمایت کر رہے ہیں ۔ میں دونوں فلموں کا قطعی موازنہ نہیں کرنے جا رہا ہوں بلکہ بات یہ کرنی ہے کہ فلم ’دی کیرالہ اسٹوری ‘ کسی سازش اور ایجنڈے کا حصہ ہے یا پھر واقعی اس کے پیچھے کوئی حقیقت ہے جس کا سامنے آنا ضروری تھا کیونکہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے ۔ میں یہ بات کس لیے کہہ رہا ہوں ،اس کی وجہ ہے ۔ آج میں ایک نیوز 18؍انڈیا کے پروگرام میں شریک ہوا جس کو امن چوپڑا اینکر کر رہے تھے۔ اس میں پوری ٹیم فلم کی آئی تھی ۔ ڈائریکٹر وپول شاہ اور اداکارہ اداشرما بھی موجود تھیں ۔ ان سے میری بات چیت ہوئی ۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس فلم میں ایک ایک لفظ صحیح ہے ۔ یعنی فیکٹ کے ساتھ فکشن نہیں ہے ۔

یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ 500؍لڑکیوں سے تو میں مل چکا ہوں جن کے ساتھ یہ واقعہ گزرا ہے یعنی ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنایا گیا اور پھر انھیں دہشت گردانہ عمل میں جھونک دیا گیا تھا ۔ دعویٰ یہ ہے کہ ایسی 32؍ہزار ہندو لڑکیاں ہیں جن کے ساتھ یہ ہوا ہے ۔ حالانکہ اب وہ اعداد و شمار کے سوال پر ہاتھ کھڑے کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر ایک ہے تب بھی مسئلہ تو ہے اور میں بھی یہ مانتا ہوں کہ ہندو ہو یا مسلم اگر کوئی ہندوستانی لڑکی کا استعمال دہشت گردی کے لیے کر رہا ہے تو یہ انتہائی شرمناک ہے اور اس کی مذمت ہونی چاہئے ۔ اس کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔ مسٹر وپول شاہ نے کہا کہ میں نے پوری فلم میں ’لو جہاد ‘ کا استعمال نہیں کیا ۔ یہ سچ ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی میں نے یہ فلم نہیں دیکھی صرف ٹیزر دیکھا ہے ۔ باوجود اس کے پوری بحث لو جہاد پر ہو رہی ہے یا کرائی جا رہی ہے ۔ وہ گودی میڈیا جو پلوامہ پر خاموش ہے ، خواتین پہلوانوں پر خاموش ہے ، اب اس مسئلہ پر بحث کرا رہا ہے ۔ میں کچھ دوسری بات کرنا چاہتا ہوں اور کچھ بنیادی سوال اٹھانا چاہتا ہوں ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ایک فلمساز اور قلم کارنے کیرالہ کی حقیقت بیان کردی ۔ پانچ سو سے زائد ایسی لڑکیوں سے ملاقات کر لی ۔ پوری فلم بنا دی ۔ سچائی سامنے لے کر آئے لیکن کیا یہ قومی سلامتی کا معاملہ نہیں ہے ؟ اگر آئی ایس آئی ایس یعنی داعش جیسی دہشت گرد تنظیم یا جیش محمد ہو یا القاعدہ ہو اگر ان لوگوں نے اتنے بڑے پیمانے پر ہندو لڑکیوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کر لیا تو سوال یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں ؟ مرکز میں گزشتہ 9؍سال سے مودی حکومت ہے جوبھارت کے تحفظ کے لیے زیادہ شور مچاتی ہے وہ کہاں تھی ؟ این آئی اے کو کیا اس سلسلہ میں کہیں سے کوئی انپٹ نہیں ملا تھا؟ اگر پتہ چلا تھا تو اس کی جانچ کیوں نہیں کرائی گئی ؟ اس معاملہ میں تو کمیشن بننا چاہئے تھا ۔ اس کی تحقیق سنجیدگی سے ہونی چاہئے تھی ۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ جب ہندو لڑکیوں کا استعمال ہو رہا ہے تو پھر مسلم لڑکیوں کا بھی ہو رہا ہوگا کیونکہ دہشت گرد تو دہشت گرد ہے اس کو مذہب سے کیا لینا دینا ۔ جب یہ معاملہ سامنے آ چکا ہے اور مسٹر شاہ کا دعویٰ ہے کہ اس فلم کی ایک ایک بات سچ ہے تو پھر اب مرکزی حکومت کس بات کا انتظار کر رہی ہے اور یہ کس کی ناکامی ہے ؟ بحث اس پر ہونی چاہئے کہ آخر ہماری مرکزی حکومت نے کیا کیا ؟ اتنا بڑا حادثہ عمل میں آ گیا اور مودی حکومت کو بھنک تک نہیں لگ سکی ۔ کیا ہمارے میڈیا کو اس حوالے سے بحث نہیں کرنی چاہئے ؟ ویسے اب تک ہمارا کھوجی میڈیا کیا کرتا رہا ؟کیا میڈیا اب صرف شام کو مرغے لڑانے کے لیے رہ گیا ہے ؟ چار لوگوں کو بٹھائو اور ایجنڈے کے تحت بحث کرائو ۔

 آخر یہ حقیقت میڈیا نے اجاگر کیوں نہیں کی ؟ اتنے بڑے پیمانے پر لڑکیاں چلی جاتی ہیں اور کسی کو بھنک تک نہیں لگتی ، ایک قلم کار اس اہم ترین مسئلہ کو ایک فلم کے ذریعہ اٹھا رہا ہے اور باقی لوگ خاموش تماشائی ہیں ۔ اگر فلم کو علماء کرام نے دیکھی ہے جیسا کہ وپول شاہ نے کہا ہے اور انھوں نے پاس کیا ہے تو اس میں کیا ہے ۔ایک بات اور ہے وہ یہ کہ اگر یہ فلم مسلم مخالف ایجنڈے کے تحت بنی ہے اور اسلاموفوبیا چلایا جا رہا ہے تو اس سے زیادہ شرمناک بات کچھ نہیں ہوگی ۔ ویسے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازشیں بھی خوب ہو رہی ہیں اور فلم انڈسٹریز کا مزاج بھی بدلا ہے ۔ سستی شہرت کے لیے اب لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ جو بھی ہو میں تو بس یہی کہوں گا کہ دہشت گرد ی کے خلاف اگر فلم بنی ہے تو بہت بہت مبارکباد اور حکومت کو ڈائریکٹر صاحب سے سارے اعداد و شمار لے کر کاروائی کرنی چاہئے ۔

Exit mobile version