Site icon

شیخ حسینہ کے فرار میں سبق !

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

_____________________

بنگلہ دیش کی وزیراعظم ، شیخ حسینہ واجد کا ، استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونا ، اُن حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے ، جو انصاف پر جبر کو ترجیح دیتے ہیں ۔ سرکاری ملازمتوں اور سِول سروس میں کوٹا سے متعلق ایک متنازعہ فیصلے کے بعد ، اگر شیخ حسینہ واجد نے بندوقوں اور توپوں کا سہارا لینے کی بجائے ، صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، مشتعل نوجوانوں سے سامنے بیٹھ کر بات کی ہوتی تو بنگلہ دیش میں جو شدید ترین احتجاجات شروع ہو ئے تھے ، اور تشدد میں تین سو سے زائد جو جانیں گئی ہیں ، ان سے بچا جا سکتا تھا ۔ لیکن ہر ڈکٹیٹر خود کو لافانی سمجھنے کی بھول کرتا ہے ، شیخ حسینہ واجد بھی خود کو لافانی سمجھ رہی تھیں ، انہیں لگ رہا تھا کہ وہ پندرہ برسوں سے بنگلہ دیش پر حکمرانی کرتی چلی آ رہی ہیں ، الیکشن جیت رہی ہیں ، اور انہیں عوامی حمایت حاصل ہے ، لہذا وہ کسی کی بات سنیں نہ سنیں ، انصاف کریں نہ کریں ، گدّی پر سے اُنہیں کوئی اتار نہیں سکے گا ۔ لیکن جس عوام نے اُنہیں گدی پر بیٹھایا تھا اُسی نے اُنہیں گدّی سے اُتار دیا ۔ جبر بڑے سے بڑا اندھ بھکت بھی کب تک برداشت کرے گا ! گزشتہ پندرہ سال یقیناً بنگلہ دیش کے لیے ترقی کے سال رہے ہوں گے ، لیکن بیتے ہوئے سال جبر کے بھی رہے ہیں ۔ جس طرح شیخ حسینہ واجد نے اپنی حریف ، مُلک کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء اور اُن کی سیاسی جماعت ’ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ‘ کو نشانہ بنایا تھا کسی جمہوری ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ خالدہ ضیاء ہنوز نظر بند ہیں ۔ جماعت اسلامی پر شیخ حسینہ واجد کا خاص عتاب تھا ۔ اس الزام کے تحت کہ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں جماعت اسلامی پاکستان کی آلہ کار تھی ، اور اس کے کارکنان اور قائدین جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے ، متعدد لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا ۔ الزام ہے کہ یہ سب انتقامی سیاست کے تحت تھا ۔ بنگلہ دیش میں اندر ہی اندر اسلام پسندوں میں شیخ حسینہ کے خلاف سخت غصے کا ماحول تھا ۔ کوٹا کا تازہ مسئلہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ اس لیے بنا کہ ، شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے شرکاء اور پاکستانی فوج سے لڑنے والوں یعنی مجاہدین آزادی کے ورثا کو ، جن میں مُکتی واہنی کے لوگ بھی شامل ہیں ، سول سروسز اور سرکاری ملازمتوں میں ملنے والا کوٹا بڑھا دیا تھا ۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن نے ، جو شیخ حسینہ کے والد تھے ، یہ کوٹا تیس فیصد مختص کیا تھا ، لیکن 2018 میں اس میں ترمیم کی گئی تھی ، اور اب شیخ حسینہ نے پھر سے سابقہ کوٹا رائج کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ کوٹا کے فیصلے پر نوجوانوں میں بالخصوص طلباء میں شدید اشتعال پھیل گیا تھا ۔ حالانکہ وہاں کی عدالت عظمیٰ نے بعد میں کوٹا گھٹا کر سات فیصد کردیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ باقی بھرتیاں میرٹ پر ہوں گی ، لیکن تب تک تشدد قابو کے باہر ہو چکا تھا اور طلباء نے مزید مطالبات سامنے رکھ دیے تھے جن میں کوٹا کو ختم کرنے کے ساتھ ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ بھی تھا ۔ طلباء کا کہنا تھا کہ آزادی کے مجاہدین کی تیسری نسل کو کوٹا دینے کا کیا جواز ہے ! کوٹا پر فیصلے کو شیخ حسینہ کی اپنے ہمنواؤں کو نوازنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا تھا ۔ کوٹا کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا لیکن ابتدا میں شیخ حسینہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھیں ، انہوں نے طلباء کو دہشت گرد کہا ، رضاکار کہہ کر اُن پر طنز کیا اور اُن پر اپنی فوج چھوڑ دی ۔ بنگلہ دیش میں رضاکار اُنہیں کہا جاتا ہے جو 1971 میں پاکستان کے ساتھ تھے ۔ ڈھیٹ پن ، ضد اور ڈکٹیٹرانہ مزاج نے تین سو سے زائد جانیں لے لیں ۔ مرنے والوں میں طلباء کی اکثریت ہے اور بچے بھی جان سے گیے ہیں ۔ اب شیخ حسینہ ہندوستان پہنچ گئی ہیں ،لندن کے لیے روانہ ہوسکتی ہیں، اُن کے ملک میں اُن کے محل میں خوب لوٹ پاٹ ہوئی ہے ۔ شاید تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے ۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو قتل کیا گیا تھا ، جبکہ انہوں نے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا تھا ! شیخ حسینہ ان کی پچھتّر سالہ بیٹی ہیں ، اب وہ عوام کے نشانے پر آ گئی ہیں ۔ لیکن اس لیے نہیں کہ عوام اُن سے نفرت کرتے ہیں ، اس لیے کہ انہوں نے عوام کو کٹھ پتلی سمجھ لیا تھا ، اور جمہوری بنگلہ دیش میں مَن مانی کرنے لگی تھیں ۔ شیخ حسینہ کا عروج اور زوال عبرت ناک ہے ، لیکن اس سے زیادہ عبرت ناک بنگلہ دیش کے حالات ہیں ۔ اب وہاں پھر ایک فوجی حکومت بن گئی ہے ، عبوری سہی ، کوئی بھی فوجی حکومت کسی بھی جمہوری حکومت سے بہتر نہیں ہو سکتی ، کیونکہ نام کی جمہوری حکومت بھی کسی فوجی حکومت سے بہتر ہوتی ہے ۔ ساری دنیا کو مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ بنگلہ دیش جمہوری پٹری سے نہ ہٹے ، شیخ حسینہ کو کسی غیر ملک میں پناہ گزیں کے طور پر زندگی نہ گزارنا پڑے اور بنگلہ دیش میں جبر کی جگہ انصاف کی حکمرانی ہو ۔ اور ساری دنیا کے حکمراں اس واقع سے سبق لیں کہ انصاف سے حکمرانی ہی میں بہتری ہے ۔

Exit mobile version