ازقلم:محمد تنظیم قاسمی
خادم التدریس
مدرسہ اسلامیہ عربیہ تعلیم القرآن بیلوا، ارریہ
___________________
اگست کا مہینہ چل رہا ہے، 78واں یوم آزادی بالکل قریب ہے، ہم بڑے جوش وخروش کے ساتھ 15/اگست کا جشن مناتے ہیں، یہ دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم یادگار دن ہے، کوٸی آسانی سے یہ دن ہمیں نہیں ملا، بلکہ ہمارے اکابر واسلاف، بزرگوں اور پروجوں کی انتھک محنتوں، کوششوں اور قربانیوں اور بے شمار جانیں گنوانے کے بعد یہ دن ہمیں نصیب ہوا، اس سونے کی چڑیا کو انگریزوں کے ناپاک جسامت سے پاک کرنے کے لۓ مسلمانوں بالخصوص اکابر علماء نے جو کردار ادا کۓ ہیں وہ کسی اور قوم ومذاہب نے نہیں ادا کۓ اور نہ کرسکیں گے، لیکن ہم مسلمان اپنی اس تاریخ کو نہیں جانتے اور جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
ہونا تو یہ چاہیۓ تھا کہ اپنے اداروں، اسکولوں میں کم سے کم اس موقع پر اپنے اکابر علماء کی قربانیوں کو بیان کیا جاتا، ہندوستان کی صحیح تاریخ کو پیش کیا جاتا، تاکہ ہماری نسلیں اس سے واقف ہوتیں، لیکن درحقیقت ہم نے اپنی اس عظیم تاریخ کو بھلا دیا، جبکہ ماضی کی تاریخ ہمیں یاد رکھنی چاہیۓ، بھلانا نہیں چاہیۓ، کیونکہ جو قوم اپنی ماضی کی تاریخ بھلا دیتی ہے وہ اکثر احساس کمتری کا شکار رہتی ہے، لیکن افسوس کہ ہم اپنی تاریخ کو بھلا بیٹھے ہیں، ہم اپنی تاریخ کے خود قاتل ہیں، ہم اپنے اداروں بالخصوص مسلم اسکولوں، کوچنگ سینٹروں میں آزادی کا جشن تو مناتے ہیں، لیکن مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا ذکر نہیں کرتے۔ ہم اپنے ان اداروں میں ناچ گانے وموسیقی کی محفلیں تو سجاتے ہیں، لیکن آزادٸ ہند کی صحیح تاریخ سے اپنے طلبہ وطالبات کو روشناس نہیں کراتے۔ مسلم اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں میں نوجوان لڑکیوں کی بے پردگی کا مظاہرہ کرکے ان کے ڈانس و اکٹنگ کی محفلیں سجا کر ان کے عزت و ناموس کو پامال تو کرتے ہیں، لیکن انہیں جنگ آزادٸ ہند کی روداد نہیں سناتے۔ 15/اگست، 26/جنوری اور دیگر مختلف پروگراموں میں چھوٹی اور بڑی عمر کی بچیوں کو گانے اور فلموں کی اکٹنگ میں شرکت کروانا اور ڈانس وغیرہ کرنے پر مجبور کرنا یہ اکثر مسلم اسکولز اور کوچنگ سینٹر والوں کا خاص رویّہ ہے، جبکہ ان اداروں میں ہمارے قوم کے علماء، تبلیغی جماعت میں وقت لگانے والوں اور دیندار گھرانوں کے بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن نہ اسکول وغیرہ کے ذمہ داروں کو نسلوں کے ایمان کی فکر ہے کہ وہ اس طرح کا پروگرام منعقد کرتے اور کراتے ہیں اور نہ گارجین حضرات کو کہ وہ اس طرح کے اداروں میں اپنی معصوم دوشیزاٶں کو بھیج کر ان کے مستقبل سے بے خوف اور بے فکر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔
اس لۓ میں ان اداروں کے ڈاٸریکٹر، پرنسپل ودیگر ذمہ داروں سے کہتا ہوں کہ وہ آزادی کا جشن ضرور مناٸیں اور منانا بھی چاٸیۓ لیکن قوم کی بیٹیوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں، اس طرح کا پروگرام ضرور منعقد کریں لیکن ناچ، گانے، ڈانس، ڈی جے وغیرہ سے بچ کر مجاہدین آزادٸ ہند کی تاریخ اور علماء دیوبند کی قربانیوں سے روشناس کراٸیں، خود اس عظیم تاریخ کو نہیں جانتے تو کسی عالم دین کو بلا کر ”جنگ آزادی میں علماء دیوبند کا کردار“ کے عنوان سے پروگرام منعقد کراکے اور کرکے خود بھی مسلمانوں بالخصوص علماء کی قربانیوں کو جانیں اور بچوں اور بچیوں کو بھی اس سے واقف کراٸیں، لیکن خدا کے واسطے قوم کی بیٹیوں اور بہنوں کا مستقبل خراب نہ کریں اور میں گارجین، والدین حضرات سے بھی کہتا ہوں کہ اگر اسکولز اور کوچنگ سینٹر اور اس طرح کے دیگر ادارے والے اپنے اس گھناٶنے رویّے سے باز نہیں آتے تو کم سے کم آپ والدین خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں اور بچیوں کے روشن مستقبل کا گلا نہ گھونٹیں اور اس طرح کے اداروں میں اپنی اولاد کو ہرگر نہ بھیجیں، تعلیم ضرور دلواٸیں بلکہ اعلٰی تعلیم دلواٸیں لیکن اس طرح کے اداروں میں نہیں، کیونکہ اس طرح کے اداروں میں تعلیم ملے نہ ملے لیکن آپ کی اولاد کا مستقبل ضرور خراب ہوگا۔
ایسے بہت سے ادارے ہیں جہاں بہترین تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی ہوتی ہے۔ ایسے اداروں کو تلاش کرکے اپنی اولاد کو وہاں بھیجیں، اور ان کے مستقبل کو تابناک اور روشن بناٸیں۔
اللہ ہماری قوم کی حفاظت فرماۓ۔ آمین