Slide
Slide
Slide

مجاہد آزادی، بلند پایہ خطیب حضرت مولانا سید عبدالرب نشتر برونوی مدنی اور ان کا خانوادہ

.

از :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

__________________

کچھ خانوادے "ایں خانہ ہمہ آفتاب است” کا مصداق ہوتے ہیں، انھیں ممتاز خانوادوں میں سے ایک حضرت مولا نا سید عبد الرب نشتر مدنی کا بھی خانوادہ ہے… مولانا عبد الرب نشتر بریار پور برونی کے رہنے والے تھے.. بریار پور، برونی فیلگ سے کچھ فاصلے پر واقع قدیم مسلم آبادی ہے.اسی بستی سے آپ کا تعلق ہے. آپ کی ولادت 9 ربیع الاول 1333ھ روز جمعہ کو ہوئی اور مورخہ . 28/ستمبر 1998 ء کو اسی بستی میں سپرد خاک ہوئے.
گذشتہ دنوں جب ایک جلسہ میں شرکت کے ارادے سے اس بستی میں جانا ہوا، تو جس میدان میں جلسہ تھا، اسی میدان میں ایک کنارے پر بانس کے جافری اور چچری سے گھری ہوئی ایک قبر پر اس عاجز کی نظر پڑی … بزرگوں کی اس بستی میں ایک الگ تھلگ قبر کو دیکھ کر تجسس ہوا ، تو اس عاجز نے منتظمین بطور خاص برادرم سید محمد زید فلاحی زید مجدہم سے معلوم کیا کہ یہ قبر کس شخصیت کی ہے. معلوم ہوا کہ یہ قبر مولانا عبد الرب نشتر کی ہے.

حضرت مولانا سید عبد الرب نشتر مدنی برونوی
مشہور مجاہد آزادی، شیخ الاسلام حضرت مدنی کے شیدائی، جمعیت علماء سے وابستہ عظیم شخصیت اوربلند پایہ خطیب کے طور پر مثالی شہرت رکھتے تھے. نسبی شرافت، اخلاق کی بلندی اور جہاد آزادی میں شرکت کا ذوق آپ کو ورثے میں ملا تھا. مولانا عبد الرب نشتر، عظیم مجاہد آزادی اور قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری کے خلیفہ و مجاز، جامعہ رحمانی مونگیر کے پہلے صدر مدرس حضرت محمد اسحاق برونوی کے خلف الرشید تھے.. آپ کے والد حضرت مولانا اسحاق برونوی، حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی کے شاگرد رشید اور مدرسہ امینہ دہلی سے فارغ التحصیل تھے، آپ کی سند فضیلت پر حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کے بھی دستخط ثبت ہیں..حضرت مولانا محمد اسحاق برونی ملک کے ممتاز مجاہد آزادی اور تحریک ریشمی رومال کے سرگرم رکن رہے ہیں. مولانا اسحاق برونوی کے صاحب زادے (ماسٹر محمود احمد) کی خود نوشت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کے سر کو مونڈھ کر اسے گود کر اس میں سر مہ سے خفیہ پیغام لکھا گیا تھا..ایک روایت یہ بھی ہے کہ مدرسہ امینیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے استاذ مفتی کفایت اللہ کے زیر اثر اور مرکز عقیدت حضرت شیخ الہند کے مشورے سے حجاز مقدس چلے گئے اور وہاں اس خفیہ تحریک کے ایک رکن کے طور پر حجام کے طور پر کام کرتے رہے اور سر میں گودے ہوئے پیغام کو متعلقہ شخصیات تک پہنچاتے تھے… اسی کے نتیجے میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور قید کرکے مالٹا بھیج دیا گیا… لیکن چونکہ ان کے والد سبحان علی صاحب زمین دار تھے اس لیے ان تمام خبروں کو آپ نے خفیہ رکھا تھا اور اس کو افشاء کرنے سے انھوں نے منع کر دیا تھا… البتہ قابلِ اعتماد مجاہدین آزادی کو اس کا علم تھا..اسی وجہ سے آپ کا "اسیر مالٹا” ہونا زیادہ مشہور نہیں ہوسکا. اور اس موضوع پر تحریر کردہ کتابوں میں آپ کا نام مذکور نہیں ہے.

مولانا محمد اسحاق ممتاز محدث حضرت مولانا یار علی باروی کے پوتے ہیں.
مولانا یار علی کو ن ہیں؟ ان کا مقام ومنزلت کیا ہے؟ان کی عظمت کا ادراک آسان نہیں. یوں تو وہ ایک گمنام سی شخصیت ہیں لیکن حقیقت میں عظیم المرتبت عالم اور ممتاز محدث ہیں، ان کے مقام ومرتبہ کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ مولانا یارعلی مسند ہند حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے بلند پایہ شاگرد تھے… مولانا یار علی کے سلسلے میں آپ کے رفیق شیخ الکل فی الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی بڑے رطب اللسان رہا کرتے تھے،، سید نذیر حسین محدث دہلوی کے سوانح نگار مولوی افضل حسین مظفر پوری نے اپنی کتاب” الحیاۃ بعد المماۃ "میں
عنوان قائم کیا ہے :مولوی یار علی ساکن بارو ضلع ترہت کا ذکر خیر. اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
"میاں صاحب (سید نذیر حسین محدث) اکثر نہایت حسرت انگیز لہجے میں فرماتے ۔ خدا پیادوں سے وہ کام لیتا ہے جو شہسواروں سے نہیں ہوسکتا ورنہ آج مولوی یار علی بارو ضلع ترہت والے (جومولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کے شاگرد رشید تھے ) اگر دہلی میں بیٹھ کر درس دیتے تو ان کے سامنے کس کا چراغ جل سکتا! ، مگر افسوس کہ خدا نے پورنیہ میں ان سے وکالت کرائی۔”
خاندان میں موجود بعض ریکارڈوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی انگریز افسران بھی آپ کے شاگرد تھے،
مولانا یار علی نے کئی انگریزوں کو عربی فارسی اردو وغیرہ پڑھایا تھا. جن میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن بھی شامل ہیں، آپ کا رشتہ بھی وہیں دہلی میں حضرت باقی باللہ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے والی کسی بزرگ خاتون سے ہوا تھا.

شاہ عبد العزیز کے فتوی کے زیر اثر مجاہدانہ سرگرمیوں میں مولانا یار علی بھی شامل تھے جس کی وجہ سے ان کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہو گیا تھا، اپنے شاگرد انگریز افسران کے ذریعے آپ کو گرفتاری سے قبل اس خطرناک صورتحال کا علم ہوگیا، آپ نے بچتے بچاتے دہلی کو خیر باد کہہ دیا اور چھپتے چھپاتے اپنے وطن برونی پہنچے اور اس کے محلہ بریار پور کو اپنی مستقل رہائش کے لیے منتخب کر لیا.

حالات کی حرارت میں کمی آئی تو حکومت نے آپ کے بعض شاگردوں کے تقاضے پر از راہ قدر دانی آپ کو پورنیہ کا "منصف اعلیٰ” بنادیا، آپ تاحیات اسی عہدے پر فائز رہے. آپ کی وفات اسی خطے میں ہوئی اور مولوی باڑی اتری دیناج پور میں آپ مدفون ہوئے.
بات اصل میں مولانا عبد الرب نشتر سے متعلق چل رہی تھی، ضمناً آپ کے والد بزرگوار حضرت مولانا محمد اسحاق اور آپ کے جد امجد حضرت مولانا یار علی محدث کا تذکرہ آگیا.
مولانا عبد الرب نشتر کو میں نے بچپنے سے سن شعور تک دیکھا ہے. میرے ماموں مشفقِ ملت حضرت مولانا محمد شفیق عالم قاسمی بانی صدر جامعہ رشیدیہ بیگوسرائے سے انھیں بڑی محبت تھی اور ان کے پاس کثرت سے مولانا عبد الرب نشتر کا آنا جانا تھا.
آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی وجاہت عطا کی تھی. ، نورانی چہرہ، سر پر عمامہ؛ ہاتھ میں عصا آپ کی شخصیت کے وقار میں مزید اضافہ کرتا تھا، موصوف ، ذاکر وشاغل آدمی تھے ، ہمہ وقت پاس انفاس جاری رہتا تھا۔مجاہدین آزادی کے حلقہ سے تعلق رکھتے تھے، حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی کی مجلس میں جب وہ جد جہد آزادی کے زمانہ کے واقعات سناتے تو ہم لوگ بڑے حیرت و استعجاب سے ان کی باتیں سنتے تھے۔وہ ایک شاندار مقرر اور بے مثال خطیب تھے مجمع کو ہنسانا اور رلانا دونوں جانتے تھے ، فکری طور پرجمیعۃ علماء ہند کے پرجوش شیدائی تھے.
انہوں نے اپنے عہد نو جوانی میں تحریک خلافت کے رہنما حضرت مولا نا محمدعلی جوہر رحمہ اللہ علیہ کو دیکھا تھا ، جس کو وہ اکثر جلسوں میں بیان کرتے تھے، اور ایک شعر کچھ اس طرح پڑھتے تھےکہ:
دیکھا ہے میں نے محمد علی کا زمانہ
کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ
مجھے نہیں معلوم کہ یہ شعر کس کا ہے؟اصل شعر تو میں نے یوں سن رکھا تھا.
ادھر ہم سے محفل میں نظریں لڑانا
ادھر غیر کو دیکھ کر مسکرانا
یہ بھینگی نظر کا نہ ہو شاخسانہ
‘کہیں پہ نگاہیں‘ کہیں پہ نشانہ‘
اسی کی تضمین آپ نے اس طرح کررکھی تھی اور اسے آپ اپنے خاص اسلوب آہنگ میں پڑھتے تھے تو غضب ڈھادیتے تھے.
جب وہ جوش میں آتے تو آواز ان کی بلند ہو جاتی اور ایک جذب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ۔ پھر اس جوش جذب میں تو وہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔
مولانا عبد الرب نشتر متوسطات اور درجات عالیہ کی تعلیم میرٹھ میں حاصل کی تھی، آپ کے خاص استاذ مولانا ابو اختر میرٹھی تھے جو حضرت تھانوی سے بیعت تھے، مولانا کی خواہش ہوئی کہ مولانا ابو اختر سے تعارفی خط لے کر حضرت تھانوی کی خدمت میں تھانہ بھون پہنچیں، چنانچہ حسبِ خواہش آپ نے تھانہ بھون کا سفر کیا، خانقاہ امدادیہ پہنچے، حضرت تھانوی سے ملاقات ہوئی، شدت شوق اور جوانی کے جوش میں آپ نے مصافحہ کے وقت حضرت تھانوی کا ہاتھ اور
گٹا زور سے پکڑ لیا. حضرت نے ایک وقفہ سے ہاتھ چھڑانا چاہا؛ لیکن شدت شوق میں مولانا نے نہیں چھوڑا بدستور پکڑے رہے، حضرت تھانوی کو خفگی ہوئی اور آپ نے اپنے ہاتھ کو یوں ہی ڈھیلا چھوڑ دیا، مولانا عبد الرب نشتر کو بھی جلد ہی معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوگیا، تو گھبرا کر آپ نے حضرت کا ہاتھ چھوڑ دیا، لیکن ان کی بے اصولی پر حضرت کی ناراضگی زائل نہیں ہوئی، اہل تعلق نے سفارش کی تو ان کی سزا متعدد ایام خانقاہ کے مہمانوں کی خدمت طے کی گئی، مولانا نے شوق سے ان امور کا انجام دیا، بالآخر حضرت نے بعد از نصیحت خوش دلی کے ساتھ آپ کو واپسی کی اجازت دی.
میرٹھ کے تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد مولانا ازہر ہند دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے موقوف علیہ تک کی تعلیم مکمل کی،شاید دورہ حدیث کا مرحلہ تھا اسی دوران تحریک آزادی میں حضرت مدنی کے ساتھ شمولیت کی وجہ سے گرفتاری ہوگئی، جیل جانا پڑا اور باضابطہ فضیلت کی تکمیل نہیں ہوسکی. ضلع بیگوسرائے کے قدیم فضلاء میں سے ایک بزرگ عالم دین حضرت مولانا نفیل الرحمن قاسمی بتاتے ہیں کہ اجلاس صد سالہ کے موقع پر جو قافلہ بیگوسرائے سے دیوبند کے لیے روانہ ہوا؛ اس میں مولانا عبد الرب نشتر بھی بصد شوق شامل تھے. مولانا بڑے ذوق شوق سے
صد سالہ میں تشریف لے گئے؛ سفر کے دوران رفقاء سفر سے بالخصوص مولانا شفیق عالم قاسمی اور مولانا نفیل الرحمن سے کہتے تھے کہ میں فراغت کی تکمیل تو نہیں کرسکا لیکن مجھے ہر حال میں دستارِ فضیلت چاہیے،کہ یہ عدم تکمیل کی نوبت بھی دار العلوم اور حضرت مدنی کے مشن کی وجہ سے آئی. مولانا نفیل الرحمن کہتے ہیں کہ بعد از جہد بسیارمیں نے انھیں ایک دستار لا کر دیا. دستار فضیلت ملنے کے بعد جوش میں مستانے نعرے بلند کرنے لگے. آپ کے کئی نعروں کو اچھی خاصی شہرت ملی ان میں سے ایک نعرہ ” مدنی نشتر کی للکار، دولت ثروت وقف قرار…” یہ بھی کہتے تھے مجھے جیل سے یہ تحفہ ملا ہے… حضرت مدنی کے ساتھ جیل گئے، وہیں سے یہ نعرہ تحفہ میں ملا ہے.
"مدنی نشتر کی للکار.. دولت ثروت وقف قرار ” اس نعرے کا ایک خاص پس منظر ہے.
تحریک دولت ثروت وقف کراؤ کی بنیاد: ہندوستان کی آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کے شاگرد ونو با بھاوے کے طرز پر جنہوں نے 10 اگست 1951 ء میں موضع پوچم پلی تلنگانہ (ضلع رنگا ریڈی ، آندھرا پردیش) سے اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا مولانا نشتر صاحب نے 3/ اکتو بر 1951 سے اپنی تحریک دولت ثروت وقف کراؤ” کا آغاز موضع شنکر پور (محمد پور) مدھیلی ضلع سہرسہ بہار سے کیا اور مختلف مساجد مکاتب اور مدارس کے لئے سینکڑوں ایکٹر زمین وقف کرائی۔ان میں سے بعض اوقاف کا اس عاجز نے مذکورہ علاقے کے سفر میں مشاہدہ کیا.
آپ کے اخلاص اور جہد مسلسل کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے مدارس اور مساجد کے لوگ آپ کو مدعو کرنے ، آپ کی تحریک اور تقریر پر مردوں کے علاوہ عورتیں بھی بہ کثرت اپنے زیورات اتار کر اللہ کی راہ میں پیش کردیتیں. آپ کی تحریک اور نعرہ دولت ثروت وقف کراؤ ، دسواں حصہ وقف کراؤ "جڑ پکڑنے لگی اور مختلف مساجد ومدارس کو بیش قیمت زمین وقف کی کی گئیں
مدرسہ محمد یہ گوگری ضلع کھگڑیا کے جلسہ میں اکثر شرکت فرماتے تھے ، اس کا مشاہدہ تو اکثر لوگوں نے کیا ہے کہ ۷۵ پچھتر سال کی عمر میں برونی سے گوگری تک سائیکل سے جلسہ گاہ تک تشریف لے جاتے ۔ جو بلاشبہ ۷۰، ٨٠ کیلومیٹر سے کم نہیں ہے ۔ عام طور پر آپ پروگرام سے ایک دن پہلے چلتے اور راستہ میں آرام و قیام کرتے تشریف لاتے ، ماشاء اللہ حضرت خوش لباس اور خوش اخلاق بھی تھے ۔ مزاج میں بے تکلفی بہت تھی ، اس لیے کسی بات کے کہنے یا طلب کرنے میں ان کو جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ وہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت تھے، اور انھیں حضرت مدنی سے دیوانگی کی حد تک عشق تھا.
حضرت مولانا محمد شفیق عالم قاسمی جنھیں حضرت مولانا عبد الرب نشتر سے گہرا تعلق تھا اور مولانا بھی انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے.. بلکہ انھیں "سجاد ثانی” کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے.. وہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ مدنی بمبی سے سفر حج پر روانہ ہو رہے تھے. مولانا عبد الرب بھی حضرت مدنی سے ملنے اور انھیں الوداع کہنے کے لیے بمبئی پہنچے، اتفاق سے روانگی کے وقت ملاقات نہیں ہوسکی.. حضرت مدنی پانی کے جہاز پر بیٹھ چکے تھے، روانگی کا الارم بھی بج چکا تھا. اسی درمیان مولانا عبد الرب بھاگتے دوڑتے جان جوکھم میں ڈال کر جہاز کے عرشے پر چڑھ گئے.. یہ دیکھ کر لوگ شور مچانے لگے اور ان سے اترنے کے لیے اصرار کرنے لگے لیکن وہ اپنے مرشد حضرت مدنی سے ملے بغیر کسی صورت اترنے کے لیے تیار نہیں تھے، بہر حال حضرت مدنی یہ کہتے ہوئے جہاز کے اوپر کے حصے میں آئے،کہ یہ میرا دیوانہ (جوکر) ہے. ذرا مل لینے دو.. جب حضرت مدنی نے مولانا عبد الرب سے ملاقات کی تب وہ جہاز سے اترنے پر آمادہ ہوئے . اس "جوکر” کے خطاب کو وہ اپنے لیے باعثِ شرف سمجھتے تھے اور بڑے فخر سے کہتے تھے. کہ میں حضرت مدنی کا "جوکر "ہوں، بلکہ یہ کہتے ہوئے وجد میں آجاتے.
حضرت مدنی بھی مولانا نشتر صاحب کا خاص خیال رکھتے تھے، حضرت کا جب بھی شمال مشرقی علاقے آسام و بنگال کا سفر ہوتا تو برونی ضرور تشریف لاتے.. اور مولانا عبد الرب کے والد مجاہد آزادی مولانا اسحاق برونوی اور ان کے صاحب زادے مولانا عبد الرب نشتر سے ضرور ملاقات کرتے.

مولانا عبد الرب ذکر واذکار کے بہت ہی پابند تھے۔ پاس انفاس کا بھی معمول تھا… دینی وملی مقاصد اور دینی جلسوں میں شرکت کے لیے اسفار کثرت سے کرتے تھے. آخر عمر میں ضعف بہت زیادہ ہو گیا تھا، پھر بھی کسی نہ کسی کے ساتھ سفر کر ہی لیتے تھے.
مولانا عبد الرب واقعی بڑی خوبیوں کے حامل تھے، اورکئی اہل علم نے اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ مولانا عبد الرب نشتر مستجاب الدعوات بھی تھے،ان پر جذب کی کیفیت بھی طاری ہو جاتی تھی.. ایک مرتبہ مولانا شفیق عالم قاسمی مولانا عبد الرب نشتر کے گھر بریار پور برونی تشریف لے گئے… حضرت نے کافی اعزاز واکرام کیا. جب واپس ہونے کے لیے تیار ہوئے تو زور دار بارش ہونے لگی، کسی اہم ضرورت کے تحت مولانا شفیق عالم قاسمی کی فوری واپسی ضروری تھی. جس کی وجہ سے سے مولانا بے چین ہورہے تھے. ان کی بے چینی کو دیکھ کر مولانا نشتر کو جوش آگیا، کہنے لگے مولوی شفیق تم پریشان مت ہو، دیکھنا ابھی بارش رکے گی.. یہاں کسی کی نہیں چلے گی، اوپر رب کی چلے گی، نیچے عبد الرب کی چلے گی.. تیسرے کسی کی نہیں چلے گی.. اس کے بعد اللھم حوالینا ولا علینا کا ورد تسبیح کو گردش دیتے ہوئے پورے جوش کے ساتھ کرنے لگے اور کچھ ہی لمحے میں بارش رک گئی، اس طرح کے کئی واقعات آپ کی زندگی میں ہیں، جن کا مشاہدہ عام طور پر اہل تعلق کرتے رہتے تھے… صدسالہ کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قضیہ نامرضیہ میں آپ کے جذبات خانوادہ مدنی کے ساتھ تھے.. ایک دن عین تہجد کی نماز کے بعد جذبی کیفیت طاری ہوئی اور ،قاری صاحب خالی کریں، قاری صاحب خالی کریں کے الفاظ نکلنے لگے، آپ اس وقت جامعہ رشیدیہ بیگوسرائے میں مولانا شفیق عالم کے مہمان تھے.. اور انھیں کے کمرے میں آرام فرما تھے. مولانا شفیق عالم نے یہ الفاظ سنے تو سخت وحشت ہوئی. (چوں کہ مولانا شفیق عالم حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے عاشق زار تھے) اس خفگی کے عالم میں پوچھا مولانا! کیا بڑبڑا رہے ہیں، لیکن مولانا نشتر نے کہا تیرے کہنے سے کیا ہوتا ہے، فیصلہ ہوچکا ہے، معلوم ہوا کہ اسی دن دوسرے گروپ کا دارالعلوم دیوبند پر تسلط ہوگیا..اور مہتمم دارالعلوم حضرت قاری محمد طیب رحمہ اللہ کو بکمال حسرت ویاس دارالعلوم کو چھوڑنا پڑا. ایک مرتبہ عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب کی برونی تشریف لائے، تو مولانا عبد الرب نشتر نے مولانا شفیق عالم سے فرمائش کی کہ بس ایسے عارف باللہ کا تم دامن تھام لو، ان سے بیعت ہوجاؤ. پھر مولانا کو اپنے جلو میں لے کر حضرت باندوی کی خدمت میں پہنچے.. مولانا نے حضرت باندوی سے مولانا شفیق عالم کا تعارف کراتے ہوئے ہوئے کہا یہ رہے ہمارے سجاد، سجاد ثانی انھیں اپنے سایہ عاطفت میں جگہ عنایت فرمائیں. اسی مجلس میں مشفقِ ملت کی حضرت عارف باللہ سے بیعت وارشاد کا سلسلہ قائم ہوا
ایک مرتبہ مولانا شفیق عالم سے کہا تم اپنے پیر ومرشد حضرت قاری محمد صدیق سے سے ملنے کے لیے فورا ہتھوڑا باندہ کا سفر کرو.. اس لیے کہ اب ان کا چل چلاؤ ہے، تم تو خود سوکھی ہوئی لکڑی کے مانند ہو؛ بس ماچس کی ایک تیلی لگانے کی ضرورت ہے.. جلدی کرو پتنگ کٹ چکا ہے.. مولانا شفیق عالم نے کہا کہ حضرت آپ مایوس کن باتیں نہ کیا کریں، اس سے تکلیف ہوتی ہے، مولانا نشتر نے کہا تیرے کہنے سے کیا ہوتا ہے. کٹ گیا بھئی کٹ گیا. کٹ گیا بھئی کٹ گیا… مولانا شفیق عالم کسی وجہ سے ہتھوڑا باندہ کا سفر نہ کرسکے اور وہی ہوا جس کی طرف مولانا نشتر نے اشارہ کیا ہے تھا. ہفتہ مکمل نہیں ہوا کہ عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب کے انتقال کی خبر موصول ہوئی.
ان کے ایک نواسے نے بیان کیا کہ
ایک دن نانا جان علی الصباح کہنے لگے: آج کلیجی اور حلوا کھانے کو جی چاہتا ہے ۔
گھر والوں نے کہا:اس وقت یہاں تو یہ سب کچھ میسر نہیں ہے، اور صبح کا وقت ہے؛ اس لیے فوری طور پر ملے گا بھی نہیں ! فرمانے لگے : ہمیں تو آج بس وہی کھاتا ہے، تم لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے، ہم تو اوپر والے کے حضور درخواست لگا چکے ہیں، کلیجی آکر رہے گی .
بات آئی گئی، ختم ہوگئی. مولانا ذکر اذکار اور نماز میں مشغول ہو گئے ۔ کافی دیر کے بعد وہ فارغ ہوئے تو فوراً ہی ان کے ایک
رشتہ دار گھر میں اس طور پر داخل ہوئے کہ ہاتھ میں دودھ ، سوجی اور کلیجی اور گوشت تھا ، یہ دیکھ کر سب لوگ حیرت میں پڑ گئے، اور پھر ماشاء اللہ تھوڑی دیر میں یہ سب کچھ تیار ہوا اور مولانا کے ساتھ سارے گھر کے لوگوں نے بھی اسے تناول کیا ۔ اہل تعلق بتاتے ہیں کہ ایسا بارہا ہوا کہ ، ان سے دعا کی درخواست کی گئی اور کچھ دنوں کے بعد ان کی مقبول دعاؤں کا اثر ظاہر ہونے لگا۔
وہ جلسوں میں نعت کے اشعار کے علاوہ اور بھی بہت سے اشعار پڑھا کرتے تھے ، اور نجی مجلسوں میں شاندار لطیفے بھی سناتے تھے، جو اصاغر واکابر دونوں سے متعلق ہوتے تھے.
حضرت مولانا احمد نصر بنارسی نے اپنے مشاہدے میں مولانا عبد الرب نشتر سے متعلق ایک پر لطف واقعہ بیان کیا ہے؛ کھگڑیا ضلع میں ایک قدیم بستی ہے چوڑھلی، وہاں جانے کے لیے دریا عبور کرنا پڑتا تھا، اور کشتی کا سفر کرنا پڑتا تھا. اب تو چوڑھلی کی قدیم آبادی غرق آب ہوگئی ، یہ اس وقت کا واقعہ ہے،جب یہ بستی اپنی اصل جگہ موجود تھی، وہاں ایک بڑا جلسہ ہونا تھا، اس جلسہ میں حضرت مولانا شمس الحق صاحب شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا مرحوم بھی مدعو تھے، ان دونوں کے علاوہ ، مولا نا امین احمد خاں صاحب (جو بعد میں نوری اور کچھ دنوں بعد چترویدی سے مشہور ہوئے ) اور میں بھی مدعو تھا۔ اور خاص بات یہ تھی کہ میں پہلی مرتبہ چوڑھلی جار ہا تھا۔ اس جلسے کی تفصیلات تو بہت طویل ہیں ، مجھے تو صرف حضرت مولانا عبدالرب صاحب مرحوم سے متعلق بات کرنی ہے۔ ہم سب ایک جگہ جمع ہوۓ اور گاؤں والوں کی طرف آئی ہوئی ایک کشتی پر سوار ہوئے ،کشتی اتنی بڑی تھی کہ چھ آدمی آرام سے بیٹھ سکیں ،کشتی چلی ، اور میں نے غالباً پہلی مرتبہ کشتی سے چار گھنٹے تک کا سفر کیا۔ کچھ خوف سا بھی محسوس ہور ہا تھا، خاص کر جب کشتی کسی جگہ بھنور میں آ جاتی اور ہلنے لگتی تو ایک انجان سا خوف محسوس ہوتا، اور دوسرے حضرات بہت اطمینان سے محو گفتگور ہتے ، اس لیے کہ ان کو اس طرح کی سواری کا تجربہ تھا، وہ دونوں بزرگ آمنے سامنے بیٹھے ہوۓ تھے، اچانک گفتگو نثر سے نظم پر آ گئی، اور پھر اشعار سنانے کا دور شروع ہو گیا ۔اچانک مولانا مرحوم میری طرف گھورتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ نے کوئی شعر نہیں سنایا ؟ میں نے عرض کیا کہ نہ میں کوئی شاعر ہوں اور نہ کوئی خاص شعر یاد ہے ۔ بس ابھی آپ کی برکت سے ایک شعر یاد آ گیا وہ عرض ہے۔ جب سے کشتی میں سوار ہوئے تھے، پہلی مرتبہ میں نے زبان کھولی ، ورنہ ڈوب جانے کے خوف سے پانی پیدا کرنے والے کی یاد میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میرے یہ کہنے کی وجہ سے وہ سارے حضرات میری طرف متوجہ ہوگئے ،اور گفتگو کا سلسلہ چل پڑا،مولانا نے کچھ اشعار سناۓ تو میں نے بھی علامہ اقبال کا یہ شعر سنایا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ مولا نا عبدالرب صاحب مرحوم ازراہ مزاح کہنے لگے یہ شعر تو کچھ خاص نہیں ، ، یہ سن کر میرا تو پارا گرم ہو گیا ،لیکن انھوں لطافت کو دوبالا کرتے ہوئے فر مایا: اصل شعر تو یوں ہونا چاہیے :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہمالہ کی چوٹی پر جب پہنچے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا ا اترو گے اب کیسے؟
اتنا کہنا تھا کہ ہم سب بے اختیار ہنسنے لگے اور دیر تک مولانا مرحوم علامہ اقبال مرحوم کے اشعار کی تصحیح کرتے رہے ۔ اور ہم سب بہت ہی محظوظ ہوتے رہے ۔ ان کی دعائیں نیک تمنائیں ہمارے ساتھ ہمیشہ رہیں ۔ (خود نوشت مولانا احمد نصر بنارسی)
آپ کی زندگی کے مختلف رنگ ہیں اور ہر رنگ میں الگ الگ خوشبو ہے، لیکن عمومی طور پر فنا فی اللہ فنا فی الشیخ اور انگریز دشمنی کا رنگ آپ کی زندگی پر غالب رہا.
انگریز دشمنی آپ کے خون میں شامل تھی، تین نسلوں سے آپ کے خانوادہ میں انگریز دشمنی پروان چڑھ رہی تھی، حضرت مدنی کے فیض نے اس چنگاری کو شعلہ جوالہ بنادیا. اور آپ نے عنفوانِ شباب میں ملک کو انگریز کے پنجہ استبداد سے آزاد کرانے کے لیے بڑے جتن کیے.
جنگ آزادی میں سرگرم شرکت کے حوالہ سے متعدد واقعات ہیں جس سے آپ کی جنگ آزادی کے تئیں غیر معمولی دلچسپی کی عکاسی ہوتی ہے، پورے علاقے میں اپنے پرجوش خطاب کے ذریعہ انگریزی گورنمنٹ کے خلاف یہاں کے عوام میں جوش پیدا کردیا تھا.
برونی فلیگ میں سول نافرمانی کے جذبے اور انگریز گورنمنٹ سے نفرت کا اظہار کرنے کے لیے دیگر شیدائیان آزادی کے ساتھ آپ نے ریلوے کی پٹری اکھاڑکر ریلوے سسٹم کو جام کرنے کا کام کیا تھا. اور آزادی کا جھنڈا لہرایا تھا، شاید فلیگ کا لاحقہ جنگ آزادی کی یادگار کے طور پر اسٹیشن کی شناخت بن گیا.
عبد الرب نشتر مدنی جب اپنے مرکز عقیدت حضرت شیخ الاسلام مدنی کا تذکرہ کرتے تو زار وقطار رونے لگتے.
ملک کی آزادی کے بعد بھی انگریزی کلچر پر آپ زبردست تنقید کیا کرتے تھے. جلسوں میں آپ بالعموم انگریزی کلچر کو اپنانے والوں کو للکارتے تھے.
سرگرم اور مرنجا مرنج نشیب وفراز سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد آپ نے /ستمبر 1998 ء کو
جان جان آفرین کے سپرد کردی.
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرماۓ اور جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطافرمائے!
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: