Slide
Slide
Slide

بابا بلھے شاہ اور حضرت رومی

بابا بلھے شاہ اور حضرت رومی

✍️ معین نظامی

___________

مجھے درست طور پر اندازہ نہیں ہے کہ ہم میں سے بہت سے "روشن خیال”لوگوں نے بابا بلھے شاہ کے ساتھ وہ بدسلوکی کیوں شروع کر رکھی ہے جو مغرب میں رومی کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے؟ یعنی مغرب میں رومی منفی مذہب اور مشرق میں بلھے شاہ منفی مذہب.

یہ دونوں امر ہی حقائق کا بد ترین مسخ ہے. دونوں اکابر کی کیفیتی شاعری کے بعض اجزا کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا کُلّی اور قطعی حکم لگا دینا علمی و تاریخی دیانت سے بعید ہے. اس رنگ کی شاعری کم و بیش ہر اہم صوفی شاعر کے ہاں ملتی ہے. تو کیا ہر صوفی شاعر مذہب بیزار تھا؟ بالکل نہیں.

یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ بابا بلھے شاہ اس نوعیت کے مجذوب یا قلندر تھے کہ دائرۂ دین و مذہب سے آزاد تھے یا وہ عملاً بھی نام نہاد دارا شکوہی طرز کی وحدتِ اَدیان کے قائل تھے. ایسا نہیں ہے. وہ بہت پختہ سُنی حَنفی مسلمان، ذمہ دار قادری شطّاری صوفی، نہایت قابلِ احترام انسان اور شریعت و طریقت پر دوٹوک عمل کرنے والے اہلِ دل و نظر تھے.

بابا بلھے شاہ کے شیخِ طریقت شاہ عنایت قادری کی جتنی عربی و فارسی تصانیف بھی باقی رہ گئی ہیں اور ان کے قلمی عکس چَھپ چکے ہیں، وہ سب کی سب ان کی راسخ العقیدگی، دینی حمیت، فقہی بصیرت اور مذہبی اصولوں کی بے لاگ پابندی کی عکّاس ہیں. ایسا سخت گیر پیر و مرشد اور ذمہ دار مربّی اپنے کسی لا ابالی، آزاد خیال اور لا دینیت کی حدوں کو چھوتے ہوئے مرید کو تا دیر خود سے وابستہ نہیں رکھ سکتا تھا. بابا بلھے شاہ اپنے فکر و عمل میں اگر سچ مچ ویسے ہی مبالغہ آمیز حد تک آزاد منش ہوتے، جیسا کہ الفاظ میں ان کی شخصیت اور افکار کی تجریدی مصوری کرنے والے دانش ور ہمیں بتاتے ہیں تو وہ اپنے شیخ سے قطعاً متوسّل نہ رہ پاتے. جب کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے باہمی روابط ہمیشہ برقرار رہے اور شاہ عنایت کو بلھے شاہ میں کوئی ایسی بے عملی نظر نہیں آئی جو قابلِ مواخذہ یا لائقِ ترکِ تعلق ہوتی.

رومی کے محبوب شمس تبریزی بھی، عام تصور کے برعکس انتہائی پابندِ شریعت بزرگ تھے. ان کا پابندیِ شریعت کا معیار اور اہتمام اتنا کڑا تھا کہ اس تعلق سے وہ ابنِ عربی اور کئی دوسرے اکابر کو بھی روک ٹوک دیا کرتے تھے. یہ سب باتیں بھی مستند منابع سے ثابت ہیں.

بلھے شاہ اور رومی میں بہت سی فکری اورعملی مشابہتیں ہیں جن پر بہت ٹھوس اورتفصیلی بات چیت ہونی چاہیے. دونوں شاہ عنایت اورشمس کی وجہ سے تنقید اور ناپسندیدگی کا شکار ہوئے اور دونوں ہی نے اپنے اپنے کلام میں شاہ عنایت اورشمس تبریزی کا ایک جیسا والہانہ ذکر کیا.

ہمارے لیے مناسب نہیں ہے کہ ہم اپنے دانستہ یا نا دانستہ مفادات کی خاطر دونوں بزرگوں کو ان کے حقیقی لباس کی جگہ اپنی مرضی کے رنگ برنگے چولے پہناتے پھریں.

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: