آہ اے جی نورانی!
_________________
ملک کی ایک قابل صد احترام شخصیت نے گزشتہ روز ممبئی میں آخری سانس لی۔ عبدالغفور عبدالمجید نوانی، جو اے جی نورانی کے نام سے مشہور ہیں ، نہ صرف قانونی بلکہ صحافتی حلقوں میں بھی شہرت سے زیادہ عزت اور عزت سے زیادہ محبوبیت رکھتے تھے۔
ملک کی ایک قابل صد احترام شخصیت نے گزشتہ روز ممبئی میں آخری سانس لی۔ عبدالغفور عبدالمجید نوانی، جو اے جی نورانی کے نام سے مشہور ہیں ، نہ صرف قانونی بلکہ صحافتی حلقوں میں بھی شہرت سے زیادہ عزت اور عزت سے زیادہ محبوبیت رکھتے تھے۔ نام و نمود سے بے پروا نورانی صاحب کا قلم اُن کا سچا تعارف تھا۔ اُنہوں نے کبھی محفلوں میں شریک ہونے، میٹنگوں میں جانے، لیکچرس دینے، مہمان خصوصی بننے یا فیتہ کاٹنے اور افتتاح کرنے کو اہمیت نہیں دی۔ ممبئی میں سکونت پزیر تھے مگر بہت کم اہل ممبئی ہوں گے جنہوں نے نورانی صاحب کو دیکھا ہوگا۔ البتہ اُن کی تحریریں جا بہ جا دکھائی دیتی تھیں ۔ کبھی اُن کا مضمون ’’دی ہندو‘‘ ، ’’انڈین ایکسپریس‘‘ ، ’’اسٹیٹس مین‘‘ یا ’’ہندوستان ٹائمس‘‘ میں نظر آیا تو کبھی ’’اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی‘‘ اور ’’فرنٹ لائن‘‘ جیسے صفحۂ اول کے رسائل میں جن کیلئے وہ اکثر لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے کی اہم بات یہ بھی ہے کہ اُن کا مضمون جس کسی اخبار یا رسالے میں چھپا، بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا۔
دورِ حاضر کی وہ دُنیا جس میں انسان اپنے پی آر، مارکیٹنگ، لانچنگ اور ری لانچنگ پر توجہ مرکوز کرتا ہے یا فیس بک، انسٹا گرام، ایکس (سابقہ ٹویٹر) یا وہاٹس ایپ کو عوام و خواص سے رابطہ اور اس حوالے سے شہرت کا مؤثر ذریعہ سمجھتا ہے، نورانی صاحب ان سب سے ہمیشہ دور رہے بلکہ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، موبائل فون تک استعمال نہیں کیا ۔ اُن کے دولتکدے پر ایک عدد لینڈ لائن فون تھا، اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اُن کیلئے سب کچھ وہ کتابیں تھیں جو اُن کے زیر مطالعہ رہا کرتی تھیں ، غوروفکر کی ضرورت تھی جو ڈوب کر لکھنے اور دلائل کے ساتھ لکھنے کی اُن کی صلاحیت کو مہمیز کیا کرتی تھی۔ میرؔ نے ایسی ہی شخصیات کیلئے کہا تھا: پیدا کہاں ہیں ایسا پراگندہ طبع لوگ= افسوس تم کو میر ؔسے صحبت نہیں رہی
نورانی صاحب نہ صرف یہ کہ بہترین تجزیہ نگار تھے بلکہ اعلیٰ پایہ کے قانون داں ، ماہر ِ آئین اور چند بڑے اور مشہور مقدمات میں اپنے موکلوں کی پیروی کرنے والے سربرآوردہ قانون داں تھے۔ تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ ایم کروناندھی کو جب اُن کی سیاسی حریف جے للیتا نے جیل میں ڈال دیا تھا تب اُن کی پیروی نورانی صاحب ہی نے کی تھی۔ شیخ عبداللہ کو جب سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا تب اُن کا مقدمہ بھی نورانی صاحب ہی نے لڑا تھا۔ دو جلدوں میں اُن کی کتاب ’’سوال بابری مسجد کا، معاملہ قومی افتخار کا‘‘ (یہ کتاب کے نام کا ترجمہ ہے) ہر اُس نوجوان کیلئے ضروری ہے جس کی ولادت سن ۲۰۰۰ء کے بعد ہوئی اور جو بابری مسجد کے قضیہ کو بالتفصیل اور تاریخی حقائق و شواہد کے حوالے سے جاننا چاہتا ہے۔ ’’دی مسلمس آف انڈیا، اے ڈاکیومینٹری ریکارڈ‘‘ بھی اُن کی تصانیف میں ازحد اہم ہے۔ فہرست ِ تصانیف پر نگاہ دوڑائیے تو معلوم ہوگا کہ قانون، تاریخ، آئین اور عدالتی اُمور نوانی صاحب کا خاص میدان تھے۔ اخبارات اور رسائل میں شائع ہونے والے اُن کے مضامین اُن کی وسعت علمی، مطالعہ، حقائق سے استفادہ اور دلائل کی ناگزیریت کا رعب طاری کرنے والے ہوتے تھے۔ افسوس کہ اُن کا قلم خاموش ہوگیا مگر اُن کی کتابیں اُن کے بھرپور تعارف کے طور پر اہل علم کے درمیان رہیں گی اور ہر عہد میں اپنا لوہا منوائیں گی۔
بشکریہ روزنامہ انقلاب ممبئی