Slide
Slide
Slide

محبت رسول ﷺ اور اس کے تقاضے

محبت رسول ﷺ اور اس کے تقاضے

محمد قمر الزماں ندوی

استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ یوپی

________________

پاکیزہ عقیدہ دیا تہذیب عطا کی
تاریخ نہ بھولے گی یہ احسان محمد

بے مثل صحیفے کی طرح سینئہ اطہر
جزدان کے مانند گریباں محمد۔۔۔۔۔۔۔ص

گھبرا کے مسلمان یہ کیا ڈھونڈ رہا ہے
کیا چھوٹ گیا ہاتھ سے دامان محمد

دوستو بزرگو اور بھائیو!

تکمیل ایمان کے لئے محبتِ رسولؐ شرطِ اول ہے۔ صحیح اور سچ بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
ایک مومن کے کامل اور سچا مومن ہونے کے لئے شرط ہے ، کہ اس کے دل میں رسول اللہ ﷺ سے سچی اور حقیقی محبت اور صحیح عشق ہو۔ وہ اپنی خواہشات کو، اپنی چاہت کو احکام شریعت اور ذات رسالت مآب کے لئے فنا کر دینے والا ہو، اس کی نگاہ میں والدین، اولاد اور سارے لوگوں کے مقابلہ میں حضور اکرم ﷺ کی ذات سب سے محبوب و محترم ہو۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اگر ہو اس میں خامی تو ایماں نامکمل ہے

آنحضرت ﷺ نے خود ایک موقع پر فرمایا لا یؤمن أحدکم حتی أکون احب إلیہ من والدہ و ولدہ والناس أجمعین۔ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا،جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول! ہر ایک کی محبت مغلوب ہو چکی ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اپنی ذات سے تعلق زیادہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا عمر ابھی نہیں، حضرت عمرؓ نے قدرے توقف کے بعد فرمایا کہ اب تو اپنی ذات سے زیادہ آپ کی محبت معلوم ہوتی ہے فرمایا ہاں اب (ایمان مکمل ہوا)، الغرض ایمان جب ہی مکمل ہے اور ایک مسلمان پورا مومن تب ہی ہو سکتا ہے، کہ دنیا کے تمام رشتوں سے اور دنیا کے تمام انسانوں سے حتی کہ اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ اس کو رسول ﷺ سے محبت ہو۔

حضرت عروہ بن مسعودؓ کا آنکھوں دیکھا حال:

یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہؓ کی رسول اللہ ﷺ سے محبت و عقیدت کا یہ حال تھا کہ مشرکین نے بھی اس کی گواہی دی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عروہ بن مسعود ثقفیؓ جب آنحضرت ﷺ سے گفتگو کرکے مشرکین مکہ کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے عرب وعجم کے بادشاہوں کو دیکھا ہے۔ ان کے درباروں میں گیاہوں، لیکن بخدا میں نے محمد ﷺ کے ساتھیوں کو جتنا محمد کافدائی اور شیدائی دیکھا،اس کی مثال مجھے کہیں نہیں ملی، وہ تھوکتے ہیں تو تھوک زمین پر گرنے نہیں پاتا، وضو کرتے ہیں تو وضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں میں لے کر ملتے ہیں۔

حضراتِ صحابہ کا عشقِ رسولؐ

حضرت خبیبؓ کو جب پھانسی پر لٹکایا گیا تو، کسی مشرک نے کہا ہاں اب تو یہ سوچتے ہوں گے کہ (معاذ اللہ) محمد (ﷺ) تمہاری جگہ ہوتے اور تم چھوٹ جاتے، حضرت خبیبؓ نے فرمایا کہ مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ آپ کے قدم مبارک میں کانٹا چبھے اور میں چھوٹ جاؤں۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و عقیدت کا یہ حال تھا کہ آپؐ کے چشم ابرو کے وہ منتظر رہتے، حکم اور اشارہ ملتے ہی، پہلے مرحلے میں عمل شروع فرما دیتے، کبھی کبھی تفصیل ووضاحت اس کی بعد میں ہوتی، چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ آپؐ خطبہ دے رہے تھے حضرت ابن مسعود مسجد نبوی کے دروازے تک پہنچے تھے کہ آپؐ نے اعلان فرمادیا کہ تمام لوگ بیٹھ جائیں وہ وہیں بیٹھ گئے، آپؐ نے فرمایا اندر آجاؤ، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ام عبد کا بیٹا کھڑا رہتا۔
صحابہ کرام کو رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا خطاب اور لقب ہی اس بنا پر ملا کہ وہ سب رسول اللہ کے اتنے عاشق اور چاہنے والے تھے کہ دنیا کی تمام چاہتیں ان پر قربان تھیں۔ صحابہ کرامؓ آپ کے حکم ہی کے منتظر نہیں رہتے، بلکہ کوئی علامت یا اشارہ بھی مل جاتا جس سے آپ کے رجحان اور قلبی میلان کا پتہ چلتا تو فوراً اسے اپنے سینے سے لگا لیتے اور اسی وقت اس پر عمل شروع کر دیتے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ کہیں تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں ایک انصاری صحابیؓ کے دروازے پر نظر پڑی جس پر ایک خوبصورت سا قبہ بنا ہوا تھا جس سے بظاہر ٹیپ ٹاپ کا احساس ہو رہا تھا۔ صحابہ کرامؓ سے آپؐ نے دریافت کیا کہ یہ مکان کس کا ہے؟ حاضرین نے جواب دیا کہ فلاں شخص کا یہ مکان اور قبہ ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا اس طرح کا مال اس کے مالک کے لئے قیامت کے دن وبال جان ہوگا۔ اس قبہ کے مالک انصاری صحابی کو جب آپ کی کراہت اور ناپسندیدگی کا علم ہوا تو انہوں نے فورا قبہ توڑ دیا، دوبارہ جب رسول اکرم ﷺ کا اس راستے سے گزر ہوا تو قبہ نظر نہیں آیا، آپؐ نے قبہ کے بارے میں صحابہ کرامؓ سے پوچھا، تو جواب ملا کہ آپؐ کی ناپسندیدگی کے سبب اس نے قبہ توڑ دیا، آپؐ نے فرمایا اللہ اس پر رحم کرے، اللہ اس پر رحم کرے۔ (ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ ایک دن رسولؐ نے مجھ کو کسم کا رنگا ہوا گلابی زعفرانی رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں اس ارشاد گرامی سے سمجھا کہ آپؐ نے میرے اس کپڑے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے، چنانچہ میں فورا گیا اور اس کپڑے کو جلا ڈالا، تو آنحضرت ﷺ نے پوچھا تم نے اس کپڑے کو کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو جلا ڈالا، آپؐ نے فرمایا: تم نے اس کپڑے کو اپنی کسی عورت کو کیوں نہیں پہنا دیا؟ کیوں کہ عورت کے لئے اس قسم کے کپڑے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مشکوۃ)

چونکہ آنحضرت ﷺ کے اولین مخاطب حضرات صحابہؓ تھے اور انہی کے واسطے سے پوری دنیا میں اسلام کی اشاعت ہونی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو منتخب بنایا تھا۔ اس جماعت کے دل ودماغ پر آنحضرت ﷺ کی محبت و عظمت کے جو گہرے نقوش ثبت ہوئے تھے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ حضرات صحابہ کرام آپ کے جذبات و رجحانات پر بھی دل وجان سے قربان تھے۔ آپ کے فیصلے ان کے لئے آخری فیصلے ہوا کرتے تھے۔ صحابہ کرام کی زندگی میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملے گی کہ کسی معمولی صحابی نے بھی آنحضرت ﷺ کے احکام، ارشادات و فرمودات سے سرموانحراف کیا ہو۔

صحابیات کی محبت رسولؐ

آنحضرت ﷺ سے یہ عشق و محبت اور جاں نثاری صرف مردوں کے ساتھ خاص نہیں تھی، بلکہ صحابیات کے اندر بھی عشق نبی اور محبت رسول کا کامل جذبہ موجود تھا، ان کے دلوں میں آنحضرتؐ کے لئے نفس کی قربانی، خواہشات کی قربانی اور جذبات کی قربانی مکمل طور پر پائی جاتی تھی، جس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔
ایک مرتبہ بریدہ اسلمی نامی ایک صحابی بہت رنجیدہ خاطر ہو کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے۔ چہرہ سے حزن وملال ٹپک رہا تھا کچھ کہنا چاہتے تھے مگر جھجھک رہے تھے، ان کو جب آپؐ نے اس حال میں دیکھا تو شفقت سے پوچھا اسلمی! کیوں اس قدر مغموم ہو، کون سی آفت آ پڑی ؟ اللہ نے چاہا تو تمہارا غم راحت میں بدل جائے گا۔ انہوں نے عرض کیا: آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں! غلام کی مدت سے آرزو ہے کہ اس کی شادی ہوجائے لیکن اس کی یہ آرزو تو بس ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ میری بد صورتی کی وجہ سے شادی کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے، جہاں بھی پیغام دیا، نفرت وحقارت سے ٹھکرا دیا گیا، اتنا کہنے کے بعد اسلمی کے چہرے پر دکھ درد کے آثار اور بڑھ گئے، محسنِ انسانیت سے رہا نہ گیا فرمایا ’’اسلمی‘‘ جاؤ معلوم کرو کہ اس وقت عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت کون سی لڑکی ہے؟ میں اس سے تمہاری شادی کراؤں گا۔
اسلمی نے حیرت اور تعجب سے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو سنا اور نہایت لجاجت سے عرض کیا! پیارے آقا! بدصورت کی کیا ایسی قسمت کہ کوئی معمولی لڑکی بھی مل جائے، آپ مجھے آزمائش میں نہ ڈالئے۔ سرکار نے دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا ’’اسلمی! خدا کی ذات پر بھروسہ رکھو، ان شاء اللہ عرب کی منتخب اور خوب صورت لڑکی سے تمہارا نکاح کرایا جائے گا۔ جاؤ تم تحقیق کرو اور مجھے اطلاع دو۔ اسلمی فرمانِ رسول قبول کرتے ہوئے نکل پڑے اور دریافت کرکے خبر دی کہ فلاں قبیلے کے سردار کی لڑکی سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ آپؐ نے کہا: اسلمی جاؤ لڑکی کے باپ کو میرا سلام کہو اور کہو کہ محمدؐ نے تمہاری لڑکی کے لئے منتخب کرکے بھیجا ہے۔ اسلمی ان کے گھر گئے اور ’’علیک سلیک‘‘ کے بعد رسولؐ کا یہ پیغام سنا دیا، اس پر لڑکی کے والد نے برانگیختہ ہو کر اسلمی کو بہت سخت وسست الفاظ کہا اور نہایت حقارت آمیز سلوک کرکے وہاں سے بھگا دیا: وہ مایوس اور بوجھل طبیعت ہوکر لوٹنے لگے۔
ادھر لڑکی نے باپ کو یوں غصہ ہوتے دیکھ کر پوچھا! ابا جان کون آیا ہے اور آپ اس قدر خفا کیوں ہو رہے ہیں؟ باپ نے بیٹی سے کہا تم بریدہ اسلمی کو جانتی ہو، بیٹی نے جواب دیا ہاں، ابا جان اچھی طرح جانتی ہوں، عرب کا وہ بدصورت جس کی بدصورتی ضرب المثل بن گئی ہے۔ باپ نے لا پرواہی سے جواب دیتے ہوئے کہا: ہاں وہی آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ رسولؐ نے اس کو تمہارے لئے منتخب کرکے بھیجا ہے۔ تو آپ نے کیا جواب دیا؟ لڑکی نے چونک کر پوچھا۔
کیا جواب دیتا جھڑک کر نکال دیا۔ جی تو یہ چاہ رہا تھا کہ زبان کھینچ لوں۔ کمبخت پیام دینے بھی آیا تو میری چاند جیسی بیٹی کو جس کے لئے شرفاء عرب کے کئی نوجوان اپنی پلکیں بچھانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ صورت اور یہ ارادے۔
لڑکی نے بے چین ہوکر کہا: ابا جان یہ آپ نے کیا کیا، میں خوب جانتی ہوں کہ آنے والا شخص نہایت بدصورت ہے اور ہرگز آپ کا داماد بننے کے لائق نہیں۔ لیکن ذرا یہ تو دیکھئے کس نے بھیجا ہے؟ شاعر کی زبان میں لڑکی نے یوں جواب دیا:

غورکر ابا، نہ اس کے رنگ کالے کو دیکھ
میں یہ کہتی ہوں کہ اس کے بھیجنے والے کو دیکھ
میں نے یہ مانا کہ کالا حسن میں بھی ماند ہے
بھیجنے والا تو ابا چودہویں کا چاندہے

اس طرح سے صالحہ لڑکی نے باپ کو سمجھایا اور حضور پاک ﷺ کی عظمت کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ فورا جائیے معافی مانگ کر رضامندی کا اظہار کیجئے! میں تو شادی کے لئے دل وجان سے تیار ہوں۔ چنانچہ وہ صحابی اسلمی کے پہنچنے سے پہلے آپ کی خدمت میں پہنچ گئے اور اپنی نادانی کا اظہار کرکے خوشی خوشی اس نسبت کے لئے تیار ہوگئے (بحوالہ شمع راہ)
شادی بار بار نہیں کی جاتی اس لئے لڑکی اور لڑکے کے والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اچھا ماحول اچھا گھرانہ ملے۔ لڑکا خوبصورت اور خوب سیرت ہو، لڑکے کے والدین کی بھی دلی تمنا ہوتی ہے کہ لڑکی صورت اور سیرت کی جامع ہو، لڑکے کی طبیعت کے موافق ہو، بسا اوقات تو نباہ کی صورت مشکل ہوجاتی ہے۔ اس واقعہ میں بھی اگر حضرت بریدہ اسلمی بذات خود لڑکی کے پاس پیغام لے کر جاتے تو لڑکی انکار کر جاتی لیکن حکم تھا رسولؐ کا، اشارہ تھا آقا مدنی کا، اس لئے اس صحابیہ نے اپنی خواہشات اور جذبات کو قربان کر دیا اور اس نے اس رشتے کو خوشی خوشی قبول کر لیا۔
کیا اطاعت اور جانثاری کی ایسی مثال دنیا میں مل سکتی ہے!
اطاعت و تابعداری، جاں نثاری و قربانی اور نقل و اتباع کی ایسی مثال دنیا کی کوئی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔ در اصل صحابہ کرام کی زندگی نقل و اتباع، اطاعت وانقیاد کی بہترین تصویر تھی انہوں نے اپنی زندگی کے رخ کو اس ذات کی طرف کر دیا تھا جس سے بڑھ کر کسی کی زندگی قابلِ تقلید اور لائق اتباع نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے ساری محبت و عظمت کا محور اسی ذات کو قرار دیا تھا جس نے ان کو نئی زندگی عطا کی تھی۔ اس کے آگے کسی محبت و عظمت کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں تھی۔اور تھی تو اسی کے واسطے سے تھی، اس ذات کے اشارے کے آگے جانیں قربان تھیں۔ صحابہ کرامؓ آپ کے ہر ہر فیصلے پر صرف سرِ تسلیم خم ہی نہیں کرتے بلکہ اس میں شک و تذبذب کی راہ پیدا کرنے والے کو کیفر کردار تک پہنچا دیتے۔

جو رسولؐ کے فیصلہ پر راضی نہیں اس کا یہی صلہ ہے۔

دورِ نبویؐ میں ایک یہودی کا کسی مسلمان سے جھگڑا ہو گیا، بتایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان منافق تھا۔ اس لڑائی میں فیصلے کے لئے یہودی نے پیغمبر اسلام رسولؐ اکرم کے پاس جانے کا مشورہ دیا کیوں کہ اس کو یقین تھا کہ آپؐ حق کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے، بشر نامی منافق جو بظاہر مسلمان تھا اس نے یہود کے سردار کعب بن اشرف کے پاس مقدمہ لے جانے کی رائے دی، تادیر گفتگو کے بعد رسولؐ کے پاس فیصلے کے لئے پہنچے، آپؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمادیا، مسلمان آپؐ کے فیصلے پر راضی نہ ہوا اور حضرت عمرؓ کے پاس یہ مسئلہ لے جانے پر اس نے یہودی کو راضی کر لیا، اس نے سمجھا کہ حضرت عمرؓ کفار کے معاملے میں سخت ہیں۔ وہ یہودی کے حق میں فیصلہ دینے کے بجائے میرے حق میں فیصلہ دیں گے۔ فاروق اعظمؓ کے پاس جب یہ دونوں پہنچے اور ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص جو اپنے بارے میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ اس نے اللہ کے نبیؐ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے تو وہ اندر تشریف لے گئے اور ایک تلوار لاکر اس کو یہ کہتے ہوئے قتل کر دیا کہ جو شخص رسولؐ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اس کا یہی صلہ ہے۔ اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
فلا وربک لا یومنون حتی یحکمون فیما شجر بینھم ثم لا یجدوافی أنفسھم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما (النساء ۶۵)سو آپ کے رب کی قسم، یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک کہ یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنا لیں اور پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو پورا تسلیم کر لیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے احکام القرآن)
محبت رسولؐ اور طریقۂ رسول ہی ہماری کامیابی کا زینہ ہے:
لہذا ضرورت ہے کہ ہم مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آنحضرت ؐ کے رجحانات وخیالات کو سو فیصد اپنانے کی کوشش کریں۔ آپؐ سے نسبت رکھنے والی ایک ایک چیز کی عظمت و محبت ہمارے دل میں ہو۔ آپ کی تعلیمات اور طریقہ ہر چیز پر مقدم ہو۔ بڑی سے بڑی خواہش کی اس کے سامنے کوئی وقعت اور حیثیت نہ ہو۔ جب حضوراکرمؐ کا حکم اور فرمان سامنے آئے تو ہر چیز صحیح ہے۔ جو کھانا آپؐ کو لذیذ اور مرغوب تھا وہ ہمیں مرغوب ہو جو لباس آپؐ کو پسند تھا وہ ہمیں بھی پسند ہو اور الغرض جو چیزیں آپ کو پسند تھیں وہ ہمیں پسند ہو، پھر کیا ہے؟

کی محمد ؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: