خلیفۂ راشد امام حسن علیہ السلام
حیات و خدمات
محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
___________________
تعارف:
خلیفۂ راشد امام حسن علیہ السلام، حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بڑے فرزند تھے۔ آپ کا تعلق اس گھرانے سے تھا جس نے اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے لازوال قربانیاں دیں۔ آپ کی شخصیت میں علم، تقویٰ، شجاعت، صبر اور عفو کی نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
ولادت اور تربیت:
امام حسن علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو ہوئی۔ آپ کی پیدائش پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے حد خوشی ہوئی، اور آپ نے اپنے نواسے کا نام حسن رکھا، جو عربی زبان میں "خوبصورت” یا "اچھا” کے معنی میں آتا ہے۔ آپ کی پرورش اسلامی اقدار کے مطابق ہوئی اور آپ کو اسلامی تربیت کا بہترین نمونہ بنایا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے آپ کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی تربیت، رہنمائی اور دعائیں آپ کو خاص طور پر حاصل رہیں۔
بچپن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملی شفقت و محبت:
امام حسن علیہ السلام کو بچپن سے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور شفقت نصیب ہوئی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر آپ کو اپنے کاندھے پر بٹھاتے، اور صحابہ کو فرماتے کہ "حسن اور حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں”۔ آپ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قربت اور محبت نے آپ کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا جس کی وجہ سے آپ کے کردار میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف نمایاں طور پر جھلکتے تھے۔
علم و تقویٰ:
امام حسن علیہ السلام نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علم کے بیش قیمت موتی حاصل کیے۔ آپ قرآن اور حدیث کے علوم میں مہارت رکھتے تھے، اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے تھے۔ آپ کی زبان سے ہمیشہ حق اور سچائی کا اظہار ہوتا تھا، اور آپ کے اعمال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی جلوہ گری ہوتی تھی۔
تقویٰ اور پرہیزگاری آپ کی زندگی کا لازمی حصہ تھے۔ آپ نماز، روزہ اور دیگر عبادات میں خاص اہتمام رکھتے تھے اور ہمیشہ لوگوں کو نیکی کی طرف راغب کرتے تھے۔ آپ کا دل خوف خدا سے لرزاں رہتا تھا، اور آپ نے کبھی دنیاوی مال و دولت کی طرف رغبت نہیں کی۔
شجاعت اور بہادری:
امام حسن علیہ السلام نے شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ بھی کیا۔ جنگ جمل، جنگ صفین اور دیگر معرکوں میں آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مل کر مخالفین کے خلاف بھر پور جنگ لڑی۔ آپ کی شجاعت اور بہادری نے آپ کو مسلمانوں میں ایک بلند مقام عطا کیا۔ آپ نے ہر معرکے میں اپنی دلیری کا ثبوت دیا اور مخالفین کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
خلافت اور صلح:
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد 40 ہجری میں امام حسن علیہ السلام کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا گیا۔ آپ کے دور خلافت میں معاشرتی اور سیاسی مسائل نے شدت اختیار کر لی تھی۔ حضرت معاویہ بن ابو سفیان نے شام میں اپنی الگ حکومت قائم کر لی تھی اور امام حسن علیہ السلام کی خلافت کو چیلنج کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑے معرکے کی توقع تھی، لیکن امام حسن علیہ السلام نے امت مسلمہ کی فلاح اور اتحاد کے خاطر ایک بڑا اور تاریخی فیصلہ کیا۔
امام حسن علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کر لی، جو اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس صلح کے ذریعے آپ نے امت مسلمہ کو تقسیم اور خونریزی سے بچانے کی کوشش کی۔ اس صلح کے نتیجے میں آپ نے اپنی خلافت سے دستبردار ہو کر اسلامی وحدت کو ترجیح دی، اور اس طرح مسلمانوں کے درمیان امن و امان بحال ہوا۔
یہ صلح امام حسن علیہ السلام کی اعلیٰ بصیرت، حکمت اور دور اندیشی کا مظہر تھی۔ اگرچہ اس فیصلے پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا، مگر امام حسن علیہ السلام کی نیت اور مقصد خالصتاً امت مسلمہ کی بھلائی اور اتحاد کی حفاظت تھا۔ آپ کی یہ قربانی اسلام کی بقا اور مسلمانوں کی وحدت کے لیے ایک لازوال مثال بن گئی۔
اخلاق و عفو:
امام حسن علیہ السلام کے حسنِ اخلاق اور عفو و درگزر کی مثالیں تاریخ اسلام میں بے شمار ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے دشمنوں کو معاف کر دیتے اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے۔ آپ میں نرم دلی، صبر اور عفو کے اوصاف ہمیشہ نمایاں رہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ کو ایک شخص نے برا بھلا کہا، تو آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا۔
آپ کی سخاوت اور فیاضی بھی معروف تھی۔ آپ نے ہمیشہ مستحقین کی مدد کی اور کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیا۔ آپ کی زندگی میں درجنوں ایسے واقعات ملتے ہیں جب آپ نے ضرورت مندوں کی بھر پور مدد کی۔ آپ کے گھر کا دروازہ ہر وقت ضرورت مندوں کے لیے کھلا رہتا تھا، اور آپ نے ہمیشہ اپنی ذاتی ضروریات سے زیادہ دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دی۔
واقعات:
امام حسن علیہ السلام کی زندگی میں کئی ایسے واقعات ہیں جو آپ کی شرافت، صبر اور عفو کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہاں دو ایسے واقعات بیان کیے جاتے ہیں جو آپ کی شخصیت کو مزید واضح کرتے ہیں۔
1. معافی اور عفو کا واقعہ:
ایک مرتبہ امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور آپ کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ امام حسن علیہ السلام نے تحمل اور بردباری سے اس کی بات سنی اور پھر مسکرا کر فرمایا: "اے شخص! اگر تو نے جو کچھ کہا ہے، وہ درست ہے تو اللہ مجھے معاف کرے، اور اگر وہ جھوٹ ہے تو اللہ تجھے معاف کرے۔” یہ سن کر وہ شخص شرمندہ ہو گیا اور آپ کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام انتہائی متحمل مزاج تھے۔
2. سخاوت کا واقعہ:
ایک اور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن ایک ضرورت مند شخص امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنی حاجت بیان کی۔ امام حسن علیہ السلام نے اس کی حالت دیکھ کر اپنا تمام مال و متاع اس کے حوالے کر دیا۔ جب آپ کے ساتھیوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا: "ہم اہل بیت کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہم اپنے پاس مال رکھیں اور ہمارے در پر کوئی حاجت مند خالی ہاتھ لوٹ جائے۔”
خطبات:
امام حسن علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دوران اور اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پر مسلمانوں کو خطابات دیے۔ آپ کے خطبات میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی تلقین ہوتی تھی۔ یہاں آپ کے دو مشہور خطبات کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔
1. خطاب برائے صلح:
جب امام حسن علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا، تو آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"اے لوگو! میں نے صلح اس لیے کی ہے تاکہ امت محمدی کا خون بہنے سے روکا جائے اور تمہارے درمیان امن و امان قائم ہو۔ یاد رکھو، حکومت کی حاکمیت اور جاہ و حشم ہمارے لیے کسی وقت بھی مقصد نہیں رہے، بلکہ ہمارا مقصد ہمیشہ اللہ کی رضا اور دین کی سربلندی رہا ہے۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ امت کے مفاد میں کیا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ فیصلہ تمہارے لیے بہتر ثابت ہوگا۔”
2. خطاب برائے تقویٰ:
ایک اور موقع پر امام حسن علیہ السلام نے لوگوں کو تقویٰ کی اہمیت پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
"اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے، اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ اپنے اعمال کو درست کرو، اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کوشش کرو۔ وہی تمہارا خالق ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ دنیا کی چمک دمک میں نہ کھو جاؤ، بلکہ آخرت کی تیاری میں مشغول رہو۔”
شہادت:
امام حسن علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ ایک عظیم سانحہ تھا جو 50 ہجری میں پیش آیا۔ آپ کو زہر دیا گیا جس کی وجہ سے آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کی شہادت امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم صدمے کا باعث بنی۔
آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا، جہاں آج بھی آپ کی قبر مبارک مرجع خلائق ہے۔ آپ نے ہمیشہ مسلمانوں کو صبر، عفو اور اتحاد کی تعلیم دی۔ آپ کی زندگی رہتی دنیا تک اسلامی تعلیمات کی عملی مثال کے طور پر شاہد عدل رہے گی۔
**نتیجہ:**
امام حسن علیہ السلام کی زندگی اور خدمات اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ آپ نے اپنے علم، تقویٰ، شجاعت اور حکمت سے امت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کا درس دیا۔ آپ کی صلح کا فیصلہ اور آپ کی اخلاقی برتری ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے لیے ایک مثال رہے گی۔ امام حسن علیہ السلام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ مسلمانوں کو صبر، اتحاد اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کی تعلیم دیتا ہے۔ آپ کی شخصیت ایک مثالی مسلمان کی عکاسی کرتی ہے، جو دین اور دنیا دونوں میں کامیابی کے لیے ایک مکمل نمونہ ہے۔