مجدد عصر پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی
احوال و آثار
محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
مجدد عصر، منبع فیض و برکات حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ کی شخصیت برصغیر پاک و ہند کے عظیم علمی و روحانی بزرگان دین میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ آپ کا تعلق سلسلۂ عالیہ چشتیہ سے تھا، جو اسلامی روحانی سلاسل میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس سلسلے کے بزرگوں نے اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے، ان کی روحانی تربیت کرنے اور ان کے قلوب کو اللہ کی محبت سے منور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ کی ولادت 14 اپریل 1859ء بمطابق 1 رمضان 1275ھ کو گولڑہ شریف میں ہوئی، جو آج کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان واقع ہے۔ اس مبارک مقام پر آپ کی زندگی کا آغاز ہوا اور یہیں پر آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ، دینی خدمات اور روحانی تعلیمات کے فروغ میں بسر کیا۔
خاندانی پس منظر:
آپ کے والد سید نذر دین شاہ علیہ الرحمہ ایک متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب 25 واسطوں سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ اور 36 واسطوں سے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے۔ یہ خاندانی نسبت آپ کی نسبی عظمت کی دلیل ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ معصومہ موصوفہ بنت پیر سید بہادر شاہ تھیں، جو اپنی نیک خصلتوں اور پرہیزگاری کے لیے معروف تھیں۔ اس پاکیزہ ماحول نے آپ کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
ابتدائی و اعلیٰ تعلیم:
حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ کی ابتدائی زندگی کا آغاز علم و معرفت کی روشنی سے ہوا۔ صرف چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید کا ناظرہ شروع کیا۔ قو ت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید کا ناظرہ سبق روزانہ آپ حفظ کر کے سُنا دیا کر تے تھے۔ جب قرآن حکیم کا ناظرہ ختم کیا ،تو اسی وقت آپ کو پورا قرآن کریم حفظ بھی ہو چکا تھا۔ یہ آپ کی قوت حافظہ اور اللہ کی خاص عنایت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آپ کی مزید تعلیم کے لئے آپ کو مختلف مدارس اور بزرگوں کے پاس بھیجا گیا، جہاں آپ نے عربی، فارسی، صرف و نحو، اور دیگر علوم کی تحصیل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا محی الدین علیہ الرحمہ کا نام نمایاں ہے جن سے آپ نے "کافیہ” تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے حسن ابدال کے نواح میں موضع "بھوئی” کے مولانا محمد شفیع قریشی کی درسگاہ میں تعلیم حاصل کی، جہاں آپ نے منطق اور اصول کی کتابیں پڑھیں۔
روحانی سفر اور بیعت:
علمی تعلیم کے ساتھ ساتھ، آپ کا روحانی سفر بھی جاری رہا۔ آپ نے موضع انگہ (علاقہ سون ضلع شاہ پور) کا سفر اختیار کیا جہاں آپ نے مولانا حافظ سلطان محمود سے علم کی تکمیل کی۔ انگہ میں ہی قیام کے دوران آپ کو حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی چشتی علیہ الرحمہ کی زیارت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ سیال شریف میں حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی علیہ الرحمہ نے آپ پر خصوصی شفقت فرمائی اور آپ کو سلسلہ چشتیہ نظامیہ سلیمانیہ میں بیعت کیا اور خلافت سے نوازا۔
یہ بیعت آپ کی روحانی زندگی میں ایک اہم موڑ تھا۔ آپ نے اپنے شیخ کے زیر سایہ اپنی روحانی تربیت کو مکمل کیا اور سلسلۂ چشتیہ کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ خواجہ شمس الدین سیالوی علیہ الرحمہ کے ساتھ آپ کا روحانی تعلق اتنا گہرا تھا کہ آپ اکثر سیال شریف جایا کرتے تھے اور وہاں پر قیام کرتے تھے۔
قادیانی فتنے کے خلاف مجددانہ جد و جہد:
حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ نے اپنے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ قادیانی مرزائی فتنہ کا قلع قمع کرنا ہے۔ ملعون مرزا غلام احمد قادیانی نے جب اپنے باطل دعوے کیے کہ وہ مسیح موعود، مہدی اور نبی ظلی ہے، تو مجدد عصر حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی۔ آپ نے قادیانی فتنہ کے خلاف اپنی تصانیف، مناظروں اور تبلیغ کے ذریعے مسلمانوں کو آگاہ کیا اور اس فتنے کے زہر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بھر پور جدوجہد کی۔
حضرت پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں کہ ”آپ ﷺ نے مجھے عالمِ خواب میں یہ حکم دیا کہ یہ مرزا قادیانی غلط تاویل کی قینچی سے میری احادیث کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور تُو خاموش ہے“۔ اس خواب کے بعد پیر مہر علی شاہ نے اپنی بقیہ زندگی فتنۂ قادیانیت کے مقابلے کے لئے وقف کر دی۔
علمی خدمات
آپ علیہ الرحمہ نے اپنے علمی ذوق اور دینی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی اہم تصانیف لکھیں۔ آپ کی تصانیف میں "تحقیق الحق فی کلمۃ الحق”، "شمس الہدایہ فی اثبات حیات المسیح”، "سیف چشتیائی”، "اعلاء کلمۃ اللہ فی بیان ما اھل بہ لغیر اللہ”، "الفتوحات المصدیہ”، "تصفیہ مابین سنی و شیعہ”، "فتاویٰ مہریہ”، اور "ہدیۃ الرسول” شامل ہیں۔ یہ تصانیف آپ کی علمی بصیرت، دین اسلام کی خدمت، اور قادیانی فتنے کی تردید میں آپ کے مضبوط موقف کی عکاسی کرتی ہیں۔
علامہ اقبال کا استفسار:
حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ کے علمی اور روحانی مقام کو علامہ اقبال نے بھی تسلیم کیا۔ علامہ اقبال نے آپ کو ایک مکتوب لکھا جس میں حضرت شیخ اکبر ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم "حقیقت زماں” کے بارے میں رہنمائی طلب کی۔ یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کی شخصیت نہ صرف ایک عظیم روحانی پیشوا کی تھی بلکہ علمی دنیا میں بھی آپ کا مقام بلند تھا۔
وصال اور مزار شریف:
حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دین اسلام کی خدمت میں گزارا۔ آپ کا وصال 29 صفر المظفر 1356ھ بمطابق 11 مئی 1937ء کو ہوا۔ آپ کا مزار شریف گولڑہ شریف، اسلام آباد میں واقع ہے، جو آج بھی مرکزِ انوار و تجلیات ہے۔ ہر سال ہزاروں زائرین آپ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔
نتیجہ:
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ کی زندگی ایک روشن مثال ہے۔ آپ کی تعلیمات، خدمات اور تصانیف آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ کا مزار شریف آج بھی لوگوں کے لیے فیض کا سرچشمہ ہے، جہاں لاکھوں عقیدت مند آکر اپنے دلوں کو منور کرتے ہیں۔ آپ کا یہ پیغام آج بھی زندہ ہے کہ دین اسلام کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے ہر دور میں علماء اور اولیاء کی جدوجہد ضروری ہے، اور یہ جدوجہد حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ جیسے مجددین کے نقش قدم پر چل کر ہی ممکن ہے۔