مسلمانوں کی دینی جماعتیں اور ادارے اپنے مقصد کے حصول میں ناکام کیوں؟
عدم شورائیت،اقرباء پروری،خود غرضی اور آپسی انتشار نے جماعتوں کو مقصد سے دور کردیا
از: عبدالغفارصدیقی
__________________
ہم اپنی کسی بیماری کے علاج کے لیے جب کسی ڈاکٹر سے دوا لیتے ہیں تو یہ بھی جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے مرض میں افاقہ بھی ہورہا ہے یا نہیں۔اگر تین دن دوا کھانے کے بعدطبیعت میں کچھ سدھار محسوس نہیں ہوتاتو ہم ڈاکٹر بدل دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل تقریباًہر فرد کا ہوتا ہے،خواہ اس کا تعلق شہر سے ہو یا دیہات سے،وہ تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ۔موجودہ زمانے میں بعض ڈاکٹر حضرات علاج شروع کرنے سے قبل ٹیسٹ کراتے ہیں،تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ہوسکے اور درست علاج کیا جاسکے اور بعض اطباء دوران علاج بھی ٹیسٹ اسی لیے کراتے ہیں۔ہمارایہ رویہ اپنی ذات یا اپنے عزیزوں کی جان تک محدود ہوتا ہے اور اس لیے ہوتا ہے کہ ہم صحت مند رہنا چاہتے ہیں اورمرض پر قابو پانا چاہتے ہیں،موت اگرچہ برحق ہے اس کے باوجود ہم جان بوجھ کر نہیں مرنا چاہتے۔
اجتماعی معاملات میں ہمارا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ہم کبھی یہ جائزہ نہیں لیتے کہ اپنی اجتماعی بیماریوں کے علاج کے لیے جو علاج اور طریقہ ہم نے تجویز کیا تھا اور جس نسخہ پر ایک مدت تک ہم عمل کرتے رہے ہیں،وہ کتنا کارگر ہوا؟اس کے کتنے مثبت نتائج نکلے؟ہمارا قومی اور اجتماعی مرض کس حد تک دور ہوا؟جن مقاصد کے حصول کے لیے ہم نے اپنے ادارے قائم کیے،جماعتیں بنائیں،اس میں وقت اور پیسہ صرف کیا،کیا وہ مقاصد پورے ہورہے ہیں؟یا ماضی قریب میں ان کے پورے ہونے کے امکانات ہیں؟ہمارے بعض اداروں کو قائم ہوئے ایک صدی گذر گئی،ہماری بعض جماعتوں کے قیام کے صد سالہ جشن منالیے گئے؟مگر ہم نے یہ جائزہ نہیں لیا کہ جو منزل اپنے کارواں کے لیے ہم نے طے کی تھی کیا اس منزل تک ہمارا کارواں پہنچ گیا؟ اگر ہم منزل پر نہیں پہنچے تو پھر جشن کیسا؟پھر تو ماتم منانا چاہئے تھا۔کف افسوس ملنا چاہئے تھا۔اپنے پروگرامس پر نظر ثانی کرنا چاہئے تھی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ادارے اور جماعتیں اپنی کامیابی کی بڑی بڑی رپورٹیں شائع کرتے ہیں،کچھ جماعتیں زبانی اپنی کارکردگی بیان کرتی ہیں تو کچھ تحریری طور پر بڑے بڑے دعوے کرتی نظر آتی ہیں۔لیکن جب ہم زمین پر دیکھتے ہیں اور اپنے گردو پیش ان کی رپورٹوں کی روشنی میں کامیابیاں تلاش کرتے ہیں تو ہر طرف سے مایوسی ہاتھ لگتی ہے؟جب کسی جماعت کے امیر یا ادارے کے سربراہ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے نزدیک ہندوستانی مسلمانوں کا سفر عروج کی جانب ہے یا زوال کی طرف،تو وہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان زوال کا شکا ر ہیں۔اگر ان سے کہا جاتا ہے کہ پھر آپ کا ادارہ یا جماعت کیا کررہی ہے؟تو وہ بغلیں جھانکنے اور عوام کو مورد الزام ٹھہرانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
ہمارے ملک میں یوں تو سینکڑوں جماعتیں،انجمنیں،اور ادارے ہیں۔البتہ کچھ بہت بڑی جماعتیں ہیں۔جن کا بجٹ سالانہ پچاس کروڑ تک پہنچ رہا ہے۔ان کے ممبران کی تعداد دس پندرہ ہزار سے زائد ہے،لاکھوں لوگ ان کے عقیدت مند ہیں۔اتنے بڑے مالی اور انسانی سرمائے کی موجود گی کے باوجودبھی وہ زوال کا شکا رہیں؟آخر ایسا کیوں ہے؟اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟مسلم عوام زوال کے گہرے کنویں میں ڈوب رہی ہے۔ان میں بے دینی بڑھ رہی ہے،وہ بے روزگار ہورہے ہیں،ان کی بے شعوری میں اضافہ ہورہا ہے۔ان کا سیاسی وزن گھٹ رہا ہے اور ہمارے دینی ادارے تماشہ دیکھ رہے ہیں،اپنے شاندار حجروں اور کارپوریٹ آفسوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ان کی ذاتی املاک میں اضافہ ہورہا ہے۔اس پر غورو فکر کی ضرورت ہے۔
ایک جماعت جس کا کام مسلمانوں کو مسجدوں سے جوڑنا تھا۔نمازی بنانا تھا۔ان کو سنت پر عمل کرنے والا بنانا تھا۔ان کا ایمان بنانا تھا۔کیا اس کے ذمہ داروں کو یہ جائزہ نہیں لینا چاہئے کہ امت میں ان امور کی حالت کیا ہے؟کتنے لوگ مسجد سے جڑے ہیں،ان کی ایمانی کیفیت کیا ہے؟کیا وہ اپنی زندگی کے جملہ معاملات میں سنت پر عمل کرتے ہیں؟بھارت کی اسی فیصدمساجد پر اس جماعت کا قبضہ ہے۔ہر روزہر مسجد میں ایمان بنانے اور دین کا مشورہ کرنے کے لیے یہ لوگ جمع ہوتے ہیں۔ہزاروں بار اپنی تجویز کردہ کتاب کا ورد کرچکے ہیں۔کروڑوں لوگ چلہ لگاچکے ہیں۔اس کے باوجود ان کی نماز بھی درست نہ ہوسکی۔وہ یہ تو سیکھ گئے کہ نماز کیسے پڑھتے ہیں؟ مگر یہ نہ جان سکے نماز کیوں پڑھتے ہیں،اور نماز میں کیا پڑھتے ہیں؟وہ تعداد پوری کرنے میں لگے ہیں،پانچ کے بجائے سات اور نو وقت کی نماز پڑھنے لگے ہیں،مگر ان کی نماز اگر آپ دیکھیں گے تو ان کو رسول اکرم ؐکی زبان میں ”چور“ کہیں گے کیوں گہ یہ لوگ نماز میں چوری کرتے ہیں۔مجھے ننانوے فیصد حنفی مساجد میں ایسے امام ملے جن کے پیچھے سری رکعات میں کبھی سورہ فاتحہ مکمل نہیں پڑھ پایا۔چار رکعات چھ منٹ میں اور دو رکعات تین منٹ میں مکمل کرنے والے اور چالیس منٹ میں بیس رکعات تراویح مع ڈیڑھ دو پارہ کی تلاوت کرنے والے نماز کے چور ہی نہیں بلکہ ڈاکو ہیں۔اس جماعت سے وابستہ بیشتر لوگ حلیہ سے ضرور مسلمان لگتے ہیں۔لیکن ان کے تجارتی معاملات،خاندانی امور،اور اخلاقیات میں دوردور تک اسلام کا نام نہیں ہے اور ہوبھی کیوں؟ جب کہ ان کی کتاب میں ان عناوین پر کوئی تعلیم ہی نہیں ہے۔
ایک اور جماعت ہے جو خود کو علماء کی جماعت کہتی ہے۔جس پر آج کل چچا بھتیجوں کا قبضہ ہے۔اس کے قیام کا مقصدحکومتی اداروں سے مسلمانوں کی دینی شناخت کی حفاظت،مسلمانوں کی دینی تعلیم میں اضافہ تھا۔بلاشبہ اس نے اس مقصد کے حصول کے لیے دینی تعلیمی ادارے قائم کیے،جلسے کیے،تحریکیں چلائیں۔مگر کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی شناخت کی حفاظت کس حد تک ہوئی؟دینی تعلیمی اداروں میں دین کی تعلیم دی گئی یا مسلک کی۔ان کے فارغین مسلم سوسائٹی کے کس کام آئے؟کیا علماء نے امت کی اصلاح کا وہ کام انجام دیا جس کے لیے ان کی تعلیم پر امت کا پیسہ خرچ کیا گیا تھا؟یا انھوں نے اپنی تعلیم کومحض پیسہ کمانے کا ذریعہ بناڈالا۔امت میں مدارس کی تعداد میں بلا شبہ اضافہ ہوا مگر کیا زیادہ تر مدارس امت میں تعلیم کے لیے کھولے گئے یا اپنا پیٹ پالنے اور علماء کو برسر روزگار کرنے کے لیے؟اربوں روپیہ زکاۃ کا خرچ ہورہا ہے،اور اس کے نتیجہ میں چند بے روزگار علماء قوم کو دیے جارہے ہیں۔وہ امت کے مسائل کیا حل کرتے خود امت پر ایک بوجھ بنے ہوئے ہیں۔کہاں گئے وہ اہل علم جن کو دیکھ کر انسان کے دل کی دنیا بدل جاتی تھی۔جو دنیا کو ٹھوکر مارتے تھے،جو مال کو فتنہ سمجھتے تھے۔آج تو بیشتر علماء کے جسم کا حدود اربعہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قارون کا سارا خزانہ یہیں دفن ہے۔کیا اس جماعت کے ذمہ داروں نے قوم سے بابری مسجد بچانے،پھر وہاں مندر نہ بننے دینے،طلاق بل پاس نہ ہونے دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ان وعدوں کا کیا ہوا؟اب کہتے ہیں کہ جان دے دیں گے مگر وقف پر حکومت کا قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔کیا واقعی یہ لوگ جان دے دیں گے۔گزشتہ دنوں بدنام زمانہ ٹی وی کے ایک شو میں جس طرح حکومت کی تعریف میں حضرت رطب اللسان رہے،جس طرح اقوام متحدہ اور عرب ممالک کے سربراہوں کے سامنے موجودہ حکومت کے کاموں کی تحسین فرمائی گئی،کیا اس سے یہ اندازہ لگانا غلط ہے کہ حضرت نے سودے بازی کرلی ہے۔
یہی حال ہماری دوسری تنظیموں اور اداروں کا ہے۔ایک جماعت کا مقصداقامت دین اس کے قیام کے وقت جس قدر قریب تھا آج اس کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہوتا ہوا معلوم ہوتاہے۔ وہ ادارہ جو مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا،وہ مجلس جو سیاسی بے وزنی ختم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی،اپنے مقاصد میں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔
اس تجزیہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہمارے ادارے یکسر ناکام ہیں،انھوں نے یقیناً بہت سے اچھے کام بھی کام کیے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ ہم ان کی عدم موجودگی میں اس سے بھی زیادہ برے حال میں ہوتے۔لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ بیشتر ادارے اپنے مقصد کے حصول میں اسی فیصد تک ناکام ہیں۔ہمیں ٹھنڈے دل سے اپنا جائزہ لینا چاہئے،بدلتے حالات کے تحت اپنے طریقہ کار پر بھی غور کرنا چاہئے۔اپنا پیغام پہنچانے کے لیے لاکھوں لوگوں کا مجمع اکٹھا کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے،یہ میڈیا کا دور ہے،اب ہر گھر تک بات پہنچانے کے برقی ذرائع موجود ہیں،ایسے میں ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔آمدو رفت پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے،اگر دس ہزار لوگ محض دوہزار روپے بھی ایک جلسہ یا اجتماع پر خرچ کرتے ہیں تب بھی،ہم دو کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں،جب کہ دس ہزار لوگوں تک یہ پیغام ویڈیو اور آڈیو کے ذریعہ بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔
ہماری ناکامی کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے اندر اخلاص ختم ہوتا جارہا ہے۔ہمارے پیش رو جس طرح اپنے کام کے لیے مخلص تھے ہم نہیں ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اقرباء پروری کے سبب مناصب نااہلوں کے سپر د کیے جارہے ہیں۔تیسرا سبب عدم شورائیت ہے۔ہمارے زیادہ تر فیصلے صرف امیر کے حکم و ایماء پر ہوتے ہیں۔چوتھا سبب یہ ہے کہ ہم ذاتی مفادات کو اجتماعی مفاد ات پر ترجیح دیتے ہیں۔پانچواں سبب دنیا پرستی ہے۔ دنیا کی آسائشوں کا حصول ہی مقصد زیست بن گیا ہے۔چھٹا سبب ایک دوسرے کی مخالفت ہے۔ابھی تک ہم ایک دوسرے کو ضال و مضل،میں تقسیم کرتے ہیں،ہم بزرگوں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں،ان کے فرمودات وحی الٰہی کے مثل غیر مبدل قرار دے دیے گئے ہیں۔ ساتواں سبب خدا کی کتاب سے روگردانی ہے،ہمارے دینی اداروں کے نصاب میں قرآن مجید کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔آٹھواں سبب جواب دہی اور جائزہ کا فقدان ہے۔امراء خود کو جوادب دہی سے بالا تر سمجھتے ہیں اورعوام کے اندر اپنے ذمہ داروں سے سوال کرنے کی ہمت نہیں ہے۔نواں سبب دین کے صحیح تصور سے ناآشنائی ہے اوردسواں سبب حکمت و مصلحت کے نام پر پسپائی کو بخوشی اختیار کرلینا ہے۔
اس وقت ساری دنیا میں مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ہندوستان میں وہ جس کسم پرسی کے دور سے گزر رہے ہیں،ہم سب دیکھ ہی نہیں رہے بلکہ بھگت رہے ہیں۔یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم اپنے عمل کا جائزہ لیں۔اپنے مقاصد پر نظر ثانی کریں۔اپنے طریقہ کار میں مثبت تبدیلی لائیں۔دنیا کی فکر سے زیادہ فلاح آخرت کوپیش نظر رکھیں۔ہماری تقریروں اور تحریروں سے ہی نہیں،بلکہ ہمارے عمل سے دین کے سچے ہونے کا اظہار ہو نا چاہئے۔ہم صرف زبان سے ہی اللہ پر توکل اور ایمان کابیان نہ کریں بلکہ ہمارے رویہ و کردار سے چشم بینا رکھنے والوں کو وہ توکل اور ایمان نظر آنا چاہئے۔