وہ جو بیچتے تھے دوائے دل !!!!
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل !!!!
محمد قمرالزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
ڈاکٹر غلام محمد رح سید الطائفہ حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رح کے انتہائی قریبی اور معتمد لوگوں میں تھے وہ سید صاحب رح کے خلیفئہ ارشد تھے، انہوں نے سید صاحب کے فیض علم اور کشکول معرفت سے بھر پور استفادہ کیا تھا ۔ ۱۹۸۷ء میں جب وہ ہندوستان تشریف لائے تو بطور خاص حیدر آباد دکن بھی قدم رنجا ہوئے تھے ۔ تشنگان علم و معرفت نے ان کی آمد پر ان سے کافی کسب فیض کیا، اسی موقع پر حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی مرحوم کی دعوت پر *دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد* میں دینی تعلیم میں مصروف طلباء اور اساتذہ کے مشترکہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نہایت درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :
*ہم تمام لوگوں کا اصل وطن عالم بالا ہے ،جہاں ہم کو اللہ رب العزت کی معرفت حاصل ہوئی تھی اور یہیں بالآخر ہمیں واپس ہونا ہے ،یہ درمیانی مدت ہے، جس میں ہم دنیا میں آئے ہیں ،یہاں اللہ رب العزت نے ہر انسان کے ساتھ دو چیزیں رکھ دی ہیں ،ایک قلب ،دوسرا اس کے مقابل میں نفس، قلب اصل میں خیر اور نیکی کا داعی ہے،قلب اپنی اصل اور فطرت کے لحاظ سے خراب نہیں ہوسکتا، قلب کی عظمت کا حال یہ ہے کہ اللہ رب العزت زمین و آسمان میں نہیں سما سکتا، لیکن مومن کے قلب میں آجاتا ہے ،اس کے مقابل نفس ہے، جو اصل میں برے کاموں کی طرف دعوت دیتا ہے ،اس لئے قلب کے لئے تزکیہ نہیں ہے ، بلکہ نفس کے لئے تزکیہ ہے۔
*ڈاکٹر صاحب نے قلب کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا،، کہ نفس کی تین حالتیں ہوتی ہیں، اول یہ کہ وہ بالکل بگڑا ہوا ہو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں، ایسا نفس قلب کو دبوچ لیتا ہے اس حالت کو قرآن حکیم نے قلب اثیم گنہگار دل قرار دیا ہے اس پر ریاضت ہو تو نفس لوامہ بنتا ہے کہ برائی تو اس سے ہوتی ہے، لیکن ہونے کے بعد اس پر ملامت کرتا ہے ، اس کیفیت کا نام توبہ ہے ،اس وقت قلب کی جو حالت ہوتی ہے، اسے قرآن نے قلب منیب جھکنے اور رجوع ہونے والا دل قرار دیا ہے، اگر نفس پر مزید سختی کی جائے اور کچھ ریاضت اور ہو جائے تو وہ خیر کے بالکل تابع ہوجاتا ہے، اس کیفیت کو قرآن کی اصطلاح میں نفس مطمئنہ کہتے ہیں، اس وقت قلب پر پوری طرح سلامتی غالب آجاتی ہے اور قلب قرآن کے الفاظ میں قلب سلیم بن جاتا ہے ،جب نفس مطمئنہ اور قلب سلیم حاصل ہوجائے تو پھر مرضئی عبد اور مرضئی رب میں کامل موافقت پیدا ہوجاتی ہے ،اس کو قرآن نے رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ )اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی) کے ذریعہ تعبیر کیا ہے ،اس مقام پر پہنچنے کے بعد پھر کوئی غم ،غم نہیں رہتا غم اصل میں نام ہے مرضئی عبد اور مرضئی رب میں ٹکراؤ کا،اور جب ان دونوں کا ٹکراؤ نہ ہو اور بندہ اپنی مرضی اور خوشی کو خدا کی مرضی اور خوشی میں گم کردے اور جدھر مولا ادھر شاہ دولہ کا محاورہ صادق آنے لگے تو کبھی غم نہ ہوگا*
*اس تزکیہ نفس کا نام دراصل علم ہے ۔ لفظی علم صرف معلومات کا جمع کرنا ہے ،خدا وہ خبیر و بصیر ہے ،یہ صرف معلومات کا حاصل ہونا ہے ۔ جب آپ اپنے اندر خدا کو پانے لگیں اور اپنی نگاہ بصیرت سے خدا کو دیکھنے لگیں ،یہ اصل علم ہے اور ایسے ہی اصحاب علم کے بارے میں خدا کی کتاب قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ۔ بے شک اللہ سے تو بس اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں* ۔
بات قلب اور اس کی کیفیت اور اس کی تقسیم کی چل رہی ہے، تو اس کی اصلاح اور حفاظت کس طرح ہو، اس سلسلہ میں بھی کچھ باتیں ذہن نشین ہونا ضروری ہے۔۔قدرت اللہ شہاب مرحوم کی کتاب شہاب نامہ ابھی دنوں پہلے زیر مطالعہ تھی، انہوں کامیابی کا اصل راز پر گفتگو کرتے ہوئے بڑی قیمتی بات کہیں ہیں ـ
کہ : زندگی کا اصل راز یہ ہے کہ دنیا کو قلب سے نکالو، گو ہاتھ میں بقدر ضرورت موجود رہے۔ دنیا کا ہاتھ میں ہونا مضر نہیں، دل میں سمانا مضر ہے، قلب تو بس حق تعالٰی کے رہنے کی جگہ ہے، قلب کو صاف رکھنا چاہیے، نہ معلوم کس وقت نور حق اور رحمت الہی قلب پر جلوہ گر ہوجائے، اس کا خاص اہتمام رکھو کہ قلب فضولیات سے خالی رہے، جس طرح فقیر اپنے برتن کو خالی رکھتا ہے کہ نہ معلوم کسی وقت کسی سخی کی نظر عنایت ہوجائے ، ایسے ہی قلب کو خالی رکھو نہ معلوم کس وقت رحمت کی نظر ہوجائے۔۔۔ (شہاب نامہ ۱۱۷۰)
قدرت اللہ شہاب مرحوم شہاب نامہ میں مزید لکھتے ہیں، کہ "قلب کو دنیا کی فضولیات سے خالی رکھا جائے تو اس میں فروتنی، عجز اور انکساری کے شگوفے کھلتے ہیں۔ ان شگوفوں کی خوشبو عجب اور کبر کی بدبو کو باہر کرتی ہے۔۔ عجب میں انسان دوسرے کو تو حقیر نہیں سمجھتا، لیکن اپنے کو عظیم سمجھتا ہے، کبر میں دوسرے کو بھی حقیر سمجھتا ہے، یہ رزائل قلب کی صفائی کو گندگی سے آلودہ کر دیتے ہیں، اس غلاظت سے نجات حاصل کرکے اگر قلب کو عجز و انکساری کی پستی میں بچھا دیا جائے تو اس کا رخ پاکیزگی کے پرنالے کی جانب مڑ جاتا ہے، کیونکہ قاعدہ ہے کہ :
ہر کجا پستی است آب آں جا رود
ہر کجا مشکل جواب آں جا رود
ہر کجا در دے دوا آں جا رود
ہر کجا رنجے شفا آں جا رود
مطلب یہ کہ پانی نشیب ہی میں جاتا ہے۔ جہاں کوئی مشکل ہوتی ہے اسی کے حل کے لیے جواب ملتا ہے، جہاں درد ہو وہاں دوا کام آتی ہے، جہاں کوئی مرض ہو اسی سے شفا نصیب ہوتی ہے۔۔
کہہ دینے کی حد تک تو یہ ایک معمولی سی، چھوٹی سی بات ہے کہ قلب کو فضولیات سے خالی رکھنا چاہیے، لیکن اس پر عمل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ قدم قدم پر بار بار ناکامی، مایوسی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن میرا تجربہ ہے کہ اگر ثابت قدمی کے ساتھ انسان اس کوشش میں لگا رہے۔ تو رفتہ رفتہ اس کا نخل تمنا ضرور سرسبز ہونے لگتا ہے، اگر اس کی خواہش کے مطابق اس کوشش کا نتیجہ خاطر خواہ نکلتا ہوا نہ بھی محسوس ہو پھر بھی اس لگے رہنے ہی میں لگے رہنا چاہیے، اس سعی اور کاوش میں اس مقولے کو پیش نظر رکھنا تقویت دیتا ہے۔۔
یابم او را یا نیابم جستجوئے می کنم
حاصل آید یا نیاید آرزوئے می کنم
اس کو پاؤں یا نہ پاؤں اس کی طلب میں لگا رہوں گا۔ وہ ملے یا نہ ملے اس کے ملنے کی آرزو برابر کرتا رہوں گا۔۔
برسوں کی ریاضت۔ مجاہدہ اور کوشش کے بعد اگر یہی احساس حاوی رہے کہ مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ تو درحقیقت اس کو سب کچھ حاصل ہوگیا۔۔ لیکن جونہی کسی کے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ اب میرا قلب عاجزی اور انکساری کا مسکن بن گیا ہے، تو خطرہ ہے کہ شاید وہ پہلے سے بھی زیادہ کبر عظیم میں مبتلا ہوگیا ہو، اس دو دھاری تلوار سے بچ بچ کر چلنا ہی کامیابی کا اصل راز ہے” ۔۔ (شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب مرحوم صفحہ ۱۱۷۰/۱۱۷۱)