Site icon

شاہ تقی الدین فردوسی ندوی منیر شریف کا انتقال

شاہ تقی الدین فردوسی ندوی منیر شریف کا انتقال

مولانا قمر الزماں ندوی

__________________

دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ کے قدیم فارغ التحصیل (فراغت1961ء)اور رکن مجلس شوریٰ، خانوادہ منیر شریف پٹنہ کے چشم و چراغ مولانا شاہ تقی الدین احمد فردوسی ندوی آج 19/ ستمبر بروز جمعرات بوقت ڈھائی بجے دن دہلی میں انتقال فرما گئے ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

مولانا مرحوم انتہائی خلیق، نرم مزاج خوش گفتار تھے اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل تھے، اللہ تعالیٰ نے حسن صورت و حسن سیرت دونوں سے نوازا تھا ، ہر ایک کے ساتھ بہت شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے ،لاک ڈاؤن کے بعد ایک بار ان کی دعوت پر ان سے ملنے پٹنہ ان کے گھر گئے تھے، دو تین گھنٹے ان کے ساتھ رہے ، خوب خاطر و مدارت کی اور بہت شفقت سے پیش ائے، بڑی قیمتی مجلس تھی، منیر شریف اور دیگر خانقاہوں اور اہل اللہ کے بارے میں بڑی تفصیلی معلومات فراہم ہوئی ،خاص طور پر مخدوم بہاری حضرت شرف الدین یحییٰ منیری رح کے بارے میں بہت سی باتیں انہوں نے بتائیں ، رخصت ہوتے وقت بہت محبت سے رخصت کیا اور اپنی کتاب ہدیہ کی ،اس پر لکھا،، الی ابنی الحبیب ،،

مولانا شاہ تقی الدین احمد ندوی فردوسی مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی کے رفیق درس یا معاصر تھے ۔ فراغت کے بعد انہوں نے عصری تعلیم حاصل کی اور ایک طویل مدت تک بیرون ملک مقیم رہے ،لیکن ہمیشہ مادر علمی ندوہ اور خانقاہ منیر شریف سے وابستہ رہے ۔ مولانا مرحوم میری تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مہمیز لگاتے تھے اور اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازتے تھے ، ندوہ میں بھی متعدد بار ملاقات کا شرف حاصل رہا ، وہ ندوہ آتے تو ہفتوں قیام کرتے تھے ، وہ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے شاگرد تھے، ان سے خاص تعلق تھا ۔ اسی طرح اپنے استاد حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رح سے ان کو بڑی عقیدت و محبت تھی، وہ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ حضرت مولانا تقی الدین فردوسی ندوی کی مغفرت فرمائے اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور ان کے وارثین پسماندگان اور تمام متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Exit mobile version