Site icon

تيرے سينے ميں اگر ہے تو مسيحائی کر

تيرے سينے ميں اگر ہے تو مسيحائی کر

✍️ محمد ہاشم خان

__________________

پیش نظر کالم میں اصل مخاطب ضلع سدھارتھ نگر کے کوثر و تسنیم سے دھلے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن اہل حدیث افراد ہیں لیکن اگر دیگر مسالک و عقائد کے متبعین مثلاً دیوبندی، تبلیغی اور بریلوی حضرات اسے خود پر منطبق کرنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ ضلع سدھارتھ نگر کے لوگ اس احساس محرومی میں مبتلا ہیں کہ وہ ایک بہت ہی پسماندہ علاقے کے باسی ہیں۔ یہ محرومی و کم مائگی ان کی سائکی کا مکمل اظہاریہ نہیں بلکہ محض ایک جزو ہے اور جس کا اظہار ان کی تمدنی معاشرت، ایتھوس (Ethos)، گفتگو، رہن سہن، بدنی زبان، فقدانِ اعتماد اور غیرتِ بے فیض و بے محل سے ہوتا ہے۔ یہ سائکی محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنے عظیم الشان ثقافتی ورثے پر فخر کرنے کا تاریخی و علمی شعور نہیں رکھتے۔ پس علم دشمن معاشرہ صرف علم ہی نہیں اپنی تاریخ و تہذیب کو بھی مسترد کرتا ہے۔

لہٰذا گزارشِ احوالِ واقعی سے قبل تاریخی پس منظر پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ اصل مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے کے لیے درکار عمرانی و سماجی شعور کچھ اور روشن ہو سکے۔ ضلع سدھارتھ نگر آبادی نیز پارلیمانی نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے شمال مشرقی خطے میں، فصیلِ کشورِ ہندوستان (ہمالہ) کی ترائی میں، نیپال کی سرحد اور شہزادہ سدھارتھ کی جائے پیدائش کے قریب واقع ایک تاریخی و ثقافتی علاقہ ہے۔ تہذیبی و جغرافیائی طور پر ہمارے لیے فخر کا مقام یہ ہے کہ ہم ثریا سے سرگرم سخن کوہِ ہمالہ کے دامن میں عہدِ کُہن سے آباد ہیں — یوں ہماری تاریخ یونانی فلسفوں سے زیادہ قدیم ہے کہ جب یونانی فلسفے نے ابھی اپنی آنکھ نہیں کھولی تھی تب اُپنی شد اور ویدانت کے فلسفے عروج کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ جب چھٹی صدی قبل مسیح میں فیثاغورث اہل یونان کو قضیہ غورثیت سمجھا رہے تھے، کنفیوشش اہل چین کی اخلاقی تربیت کر رہے تھے، زرتشت آتش پرست ایرانیوں کو توحید کی دعوت دے رہے تھے اور کورش اعظم جہانِ خسروی کی توسیع کرتے ہوئے دنیا کی پہلی عظیم سلطنت کی خشت بنیاد رکھ رہے تھے تب دنیا کے ایک دوسرے چھور پر گوتم ہمیں بتا رہے تھے کہ نروان کیا ہے، اور وجدان کیسے حاصل کرنا ہے، اور وردھمان (مہاویر) اہنسا، تپسیا اور پاکیزگی کی تلقین کر رہے تھے۔ گوتم بودھ، فیثاغورث، زرتشت، کنفیوشش، مہاویر اور کورش اعظم —یہ پیغمبرانہ صفات کی حامل وہ تاریخ ساز ہستیاں ہیں جنہوں نے دنیا پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب ہم عصر تھے۔ یہ اعزاز چھٹی صدی قبل مسیح کو حاصل ہوا۔ مرقوم تاریخ انسانی میں کوئی ایسی صدی نہیں ملتی جس میں ایک ہی صدی میں بیک وقت اتنی ساری عظیم ہستیاں موجود رہی ہوں۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے چار ہستیوں (گوتم بدھ، مہاویر، کنفیوشش اور زرتشت) کے نام سے باقاعدہ مذاہب رائج ہیں اور آج بھی زندہ ہیں۔ ایک طرف ہم تاریخ کے اس عظیم الشان سلسلے کی ایک کڑی ہیں تو دوسری طرف ہم دولت اسلام سے بھی سرفراز ہیں۔ یعنی ہم اللہ کی رحمت سے دوگنا فیض یاب (doubly blessed) ہیں۔

لیکن دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیب کا گہوارہ بننے والی، پیغمبرانہ نفوس کو اپنی آغوش میں پالنے والی اس سرزمین پر جب آج نظر ڈالتے ہیں تو کسی بھی زاویے سے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی زمانے میں اس قدر عظیم الشان ثقافتی ورثے کے مالک تھے۔ ہم جمالیات کی اس راگنی تک تو نہیں پہنچے کہ نحن ابناء الفراعنۃ جیسا کوئی راگ چھیڑ سکیں لیکن ہمارا جاہلانہ سلوک اور مخاصمانہ کردار اس سے کچھ کم نہیں رہا ہے۔ رام و گوتم کی اس سرزمین میں مسلمان اپنی شان و شوکت کے ساتھ ایک معقول تعداد میں آباد ہیں، ایک بڑے رقبے کو شرک و بدعات سے پاک رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان مسلمانوں میں اہل حدیث سر فہرست ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا گاؤں ہو جس میں اہل حدیث نہ ہوں، جو مولویوں سے خالی ہو، یا جہاں کوئی مکتب، مدرسہ یا مسجد نہ ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا گاؤں ہو جو غنی، سخی اور فیاض افراد سے مالدار نہ ہو۔ مکاتب، مدارس، مساجد سب آباد ہیں، سال میں باون خطبوں کے علاوہ مینڈکی جلسے بھی ہوتے ہیں، اور اس کے علاوہ سال میں دو چار عظیم الشان بھنگاری جلسے بھی ہوتے ہیں۔ دھن گِروا سے لے کر مدنی ثم منہجی تک چھوٹی بڑی ہر سائز کے مولوی موجود ہیں۔ علمائے سلف کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ گھر سے غسل خانے اور چوکھٹے سے بازار تک ہر جگہ خود مقدسی کا خمار سایہ فگن ہے۔ عقیدے کی تبلیغ و تشویق کے لیے کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ علاقہ اخلاقی پستی کے اسفل ترین درجے پر فائز ہے۔ کون سی ایسی اخلاقی و سماجی برائی ہے جو عطر کافور میں غرق اہل حدیثوں میں تھوک کے حساب سے نہیں پائی جاتی۔آپ کوئی بھی برائی تصور کر لیں اسے اہل حدیثوں میں حسب توفیق ضرور موجود پائیں گے (بلا شبہ استثنا ہر جگہ ہے)۔ جھوٹ، بغض، مکر، کینہ، بے ایمانی، ریاکاری، بد عہدی، چھل کپٹ، حسد، تعصب غرض یہ کہ آپ خبث و خبائث کا نام لیتے جائیں وہ تمام عیوب ظرف سے زیادہ ہی پائیں گے۔ بہنوں کے حقوق یہ لوگ بھی غصب کرتے ہیں، بھائیوں سے بات چیت ان کی بھی بند رہتی ہے، پڑوسیوں سے لپھڑے یہ بھی کرتے ہیں، لین دین میں بے ایمانی اور بدعہدی یہ بھی کرتے ہیں۔۔۔ قصہ مختصر اینکہ اگر عقیدۂ ناب کا سرور اور فرقہ ناجیہ ہونے کا غرور ان کے خلیوں سے نکال دیا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ مذہب کو مفاد کا متبادل بنانے میں یہ برخود غلط عقیدے کے حاملین دیگر مذہبی جماعتوں سے کہیں بہت آگے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنی ساری محنت و دولت صرف کرنے کے باوجود اگر آپ خود کو بلند اخلاقی مقام پر فائز نہیں کرسکے تو پھر آپ کو سوچنا چاہئے کہ آپ کی اس سعی جمیل کا کوئی مثبت نتیجہ کیوں نہیں نکلا۔ عقیدے پر گفتگو مقصود نہیں کہ ماشاء اللہ اس میدان میں اہل حدیثوں کا کوئی ثانی نہیں ہے، اصل شکایت ان کےرویے سے ہے۔ یہ جمعہ کے خطبے، یہ دینی جلسے اور یہ ساری مذہبیت کوئی تبدیلی کیوں نہیں لا پارہے ہیں، ہمارا اخلاق اور ہمارا مجموعی معاشرتی و سلوکی رویہ بہتر کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ یہ احتساب بہر صورت ہونا چاہئے کہ ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے اس قدر مالدار علاقہ اخلاقیات میں اتنا پست اور ابتذال پسند کیوں ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ جو لاکھوں کروڑوں روپے ہر سال خرچ ہو رہے ہیں وہ ‘مذہبیت’ کو برقرا رکھنے کے لیے ہے، ایسے ہی جیسے گاندھی جی کی ‘فقیری’ کو برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے تھے۔ اگر آپ اپنے احتساب سے مطمئن ہیں تو لعنت ہے ایسے احتساب پر اور لعنت ہے ایسے اطمینان پر۔
اتنی ساری دینی مشقتوں کے باوجود اگر آپ کو جھوٹ ہی بولنا ہے، دھوکہ دینا ہے، حرام کار ہونا ہے، بے غیرت، بے حس اور بے شرم ہی رہنا ہے تو خدا را شوق سے رہیں، اتنے پیسے مت خرچ کروائیں۔ جب منگنی کی ایک عام تقریب میں پانچ کہہ کر پچاس لانا ہے اور چار چھ گھنٹے تاخیر سے آنا ہے اور سب کو لفافے بھی دلوانا ہے، تو ایسے ہی زبردستی لے آئیے اور لوٹ لیجئے۔ میرے باپ آپ پر قربان، سب آپ کا ہی ہے، پوچھنے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں ہے، جب شادی کی تجارت کرنی ہے تو ایسے ہی کر لیجئے جیسے کوئی طوائف بوڑھی ہونے کے بعد لہنگا اٹھائے بیچ چوراہے پر بیٹھ جاتی ہے، شرمانے کی کیا ضرورت ہے۔ شرمانا بے غیرتی کی شان کے خلاف ہے۔ اگر لڑکی کے باپ کو ذلیل ہی کرنا ہے تو ایسے ہی کر لیجئے، شرم کس چیز کی؟ مت شرم کیجئے، یہ کسی غیرت مند کو زیب نہیں دیتا، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ لڑکے والے ہیں، سر بازار ننگا گھومیں یا گھمائیں آپ کو حق حاصل ہے! یہ کائنات، یہ ہفت سماوات، یہ گردش افلاک سب آپ کو مست و رقصاں دیکھنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں، سو رقص کیجئے عریاں یا نیم عریاں، بند کمرے میں یا سڑک پر، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ جنتی ہیں۔ بس ایک چھوٹی سی گزارش ہے، ایک احسان یہ کیجئے کہ خود کو اہل حدیث کہلوانا بند کر دیجئے۔ توحید خالص کی دعوت دینے والی جماعت سے وابستگی رکھنے والے افراد جب اپنا رویہ، اپنا سلوک، اپنی اخلاقیات فروخت کرتے ہیں تو وہ دیوث سے بھی زیادہ کریہہ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ اہل حدیث ہیں تو خود کو ابلیسی تکبر سے دور رکھیں، ابلیس کو بھی اپنی عبادت کا نشہ تھا، ایسا کرارا نشہ کہ اللہ رب العزت کو فار گرانٹڈ لے لیا اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ اس وقت سے بچیں جب عقیدہ ناب کا یہ نشہ سخت آزمائش کا سبب بن جائے۔

Exit mobile version