Site icon

فیسبک کے نام نہاد مفکرین کے نام

فیسبک کے نام نہاد مفکرین کے نام

✍️ ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

________________

فکری اور نظریاتی اختلاف کی گنجائش سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح ہر ایک کو اپنی رائے دینے کا بھی اختیار ہے ۔ لیکن یہ اختلاف اور تنقید اصول و ضوابط اور مہذب انداز میں رہے تو یقیناً اس کے مفید و موثر اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں ۔ وہیں اگر ہمارے نظریاتی اختلاف میں ذاتی عناد ، مسلکی تعصب ، علمی برتری فخر و مباہات شامل ہو جائے ،یا نسبت و تعلق کے عمل دخل کی بنیاد پر کسی بھی مسئلہ میں نظریاتی اختلاف کیا جائے گا تواس کے اثرات یقینی طور پر مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں۔

آج سوشل میڈیا کے صارفین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں نہ تنقید و تحقیق کے آداب پتہ ہیں اور نہ وہ علمی روایات کے پاسدار ہیں اور نہ ہی ان کا سماجی یا سیاسی اثر و رسوخ ہے ۔ جب اس طرح کے لوگ کسی پر تنقید کرتے ہیں تو وہ تنقید نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ تنقیص ہوتی ہے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو کوئی نہیں پوچھتا ہے تو وہ اپنی بوکھلاہٹ کا شکار کسی بھی شخص کو بنا لیتے ہیں ۔ آج سوشل میڈیا پر جو چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں یا سیاسی ،سماجی یا نظریاتی مسئلہ میں اختلاف کا جو رویہ پایا جارہاہے وہ جاہلوں سے بھی گیا گزرا ہے ۔ اس اختلافی کردار میں تنقید کے اسلوب و آداب تو بہت دور کی بات ہے فیسک کے ان نام نہاد مفکرین کی چیزوں کو دیکھ کرہنسی آتی ہے تو وہیں ایسا لگتا ہے کہ ابھی انہیں اختلاف رائے کی بنیادی باتیں ہی نہیں معلوم ہیں۔

یہ طبقہ جس قدر جاہل اور ان پڑھ معلوم ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ یہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر معذور بھی ہے ۔ اسی پر بس نہیں یہ طبقہ خود غور و خوض یا تدبر و تفکر قطعی نہیں کرتاہے بلکہ کسی کے تابع ہوکر اول فول بکنے لگتا ہے ۔ بعض فیس بک کے مفکرین کی تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی کے اشاروں پر رقص کررہے ہیں، ان سے یہ سب کچھ کروایا جارہاہے ۔ ان کی نہ کوئی اپنی رائے ہے اور نہ سوچ ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیسبک کے مفکرین کسی کے خلاف تحریر لکھنے کے بعد باقاعدہ اپنے حواریین سے کہہ کر اپنی تحریر و تقریرپر کمینٹ اور نشر کراتے ہیں ۔ اس کے بعد فخریہ کہتے ہیں کہ میری فلاں پوسٹ پر اتنے کمینٹ آگئے اور اتنے شیئر ہوگئے ۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ ان نام نہاد مفکرین کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
اگر واقعی مفکر و دانشور یا ملت کا بہی خواہ بننے کا اشتیاق ہے تو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ فیسبک پر تحریر لکھنے اور کسی کو گالی بکنے، یا اس کو ذاتی طور پر عناد و تعصب کا شکار بنانے سے کوئی مفکر نہیں بن جاتاہے اور نہ سماج کا حساس اور سنجیدہ طبقہ ایسے لونڈوں کو اپنا قائد و رہبر سمجھتا ہے ۔ اس لیے جو صلاحیت ہم اس طرح کی لایعنی باتوں میں صرف کر رہے ہیں اس سے بہتر ہے کہ زمینی سطح پر تعمیری اور مثبت کام کیجیے تاکہ اس سے معاشرے کا کچھ بھلا ہوسکے۔

روایتی طرز عمل اختیار کرنا یا جذبات میں آکر اپنے ہوش کھو بیٹھنے کی اہمیّت اسلام میں قطعی نہیں ہے ۔ جب سماج میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس پر کچھ کہنے ، لکھنے اور بولنے سے قبل مخلصانہ طور پر غور و خوض کرکے کوئی رائے دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح کسی کی رائے ، نظریہ اور فکر سے اختلاف کرنے سے پہلے بھی اپنی باتوں پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے اختلاف سے سامنے والے کی دل آزاری بھی نہ ہو اور اس کی اصلاح بھی ہو جائے ۔ یہ رویہ تو موزوں بھی ہے اور معاشرتی ترقی کے لیے مفید و موثر بھی ہے۔

البتہ کسی نے کچھ کہا اور اس کے خلاف ہنگامہ برپا کردینے یا تہذیب و تمدن کا دامن چھوڑ کر ننگے ہوکر ناچنے سے کبھی بھی سامنے والے کی اصلاح نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ہمارا یہ کردار رہا ہے ۔ فیسبک کے نام نہاد مفکرین کو اپنے رویہ اور اختلاف رائے کے طریقہ میں علمی و تحقیقی مزاج پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نرمی بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

حالیہ تنازع کے تعلق سے بعض فیسبک کے مفکرین کی تحریریں نظر نواز ہوئیں تو پتہ چلا کہ اختلاف رائے یا کسی کی اصلاح کرنے کا یہ رویہ تو ہر گز نہیں ہے ۔ اسلامی تعلیمات میں اس طرح کی کوئی روایت یا اصحاب علم وفضل کا کوئی کردار ایسا نہیں ملتا ہے جو کہ فیسبک کے نام نہاد مفکرین کی حمایت کرتا ہو ۔ ہاں اس رویہ کو نفرت و عداوت پر مبنی کوئی رویہ قرار دینے میں کسی طرح کی قباحت نہیں ہے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ جب یہ گہما گہمی اور غیر سنجیدہ باتیں نشر ہوتی ہیں تو وہ لوگ ضرور ہنستے ہوں گے جو ہر وقت ہماری کوتاہی تلاش کرنے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ جو قوم اختلاف میں علمی روایت کو برقرار نہیں رکھ سکتی اور نظریاتی اختلاف کو ذاتی بنادیتی ہے وہ معاشرے کو کیا دیگی ؟ اس لیے کہیں نہ کہیں ہم اپنی ان خود ساختہ مصلحتوں اور محدود مفادات کی وجہ سے جگ ہنسائی کراتے ہیں۔

آج کل اس طرح کے نام نہاد مفکرین اور سیاسی شعور سے خالی افراد نے ایسا ماحول تیار کردیا ہے جس سے ہماری سوچ کی سطحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ کہ اگر کسی شخص کی گفتگو ، تجزیہ، یا تحریر و تحقیق میں تین مرتبہ بی جے پی کا نام آ جائے ، اتفاق سے کسی داڑھی ٹوپی والے ، اس سے بھی آگے اگر کسی مولوی نے بی جے پی کا نام لے لیا تو ہمارے یہ فیسبک کے نام نہاد مفکرین اس پر اتہام و الزامات کی یورش کردیتے ہیں۔ ان کے لیے آر ایس ایس کا ایجنٹ قرار دینا تو بہت چھوٹی بات ہے، یہودیوں کا آلہ کار تک بنادیتے ہیں ۔ اس طرح کی گھٹیا سوچ معاشرے میں توازن و اعتدال کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے ۔جب بھی کسی نے روایتی فکر سے اٹھ کر کوئی بات کی ہے تو اس کے خلاف اس جذباتی گروہ نے اس کو نہ صرف مسخ کیا ہے بلکہ اس کے خلاف اتنا ہنگامہ کیا کہ وہ دوبارہ اس جانب سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کا سماج تکثیری روایات کا امین ہے ۔ اس لیے ہندوستان جیسے معاشرے میں ہر اس عمل و کردار اور رویہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو سیکولر اور جمہوری نظام کو مخدوش و مجروح کرے ۔ ہاں ہمیں ان تمام کردار کو سپورٹ کرنا ہوگا جو ہمارے ملک کے سیکولر و جمہوری نظام کو مستحکم اور بہتر بنائیں ۔ اس تناظر میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے اور فیسبک کے نام نہاد مفکرین بھی سنجیدگی سے غور و خوض کریں کہ ہندوستانی معاشرے میں کن روایات پر عمل کرکے معاشرے میں امن و سکون برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

آخر میں یہ بات کہنا مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا تعلق ایسے مذہب سے ہے جو ہمیں ایک اچھا انسان بننے کی ہدایت کرتا ہے ۔ ہم اچھے انسان اسی وقت ہوسکتے ہیں جب کہ ہماری جملہ مساعی اور افعال و کردار ایسے ہوں جن میں توازن و ہم آہنگی پائی جائے ۔ نفع رساں ثابت ہوں ۔ اسی طرح اختلاف رائے بھی ایسا عمل ہے جس میں ہمارے یہاں قطعی توازن نہیں پایا جاتاہے، کبھی اختلاف کرنے والا اعتدال سے تجاوز کردیتا ہے، تو کبھی جس سے اختلاف کیا گیا ہے وہ حد پار کر دیتا ہے، اس لیے دونوں گروہوں کو اپنی نفسیات و جذبات پر کنٹرول رکھنے اور اس کے مطابق اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب بھی ہم کسی سے اختلاف کریں تو پورے ہوش و حواس میں کریں، آداب و اخلاق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی بات کہیں ۔

Exit mobile version