قاری محمد برہان الدین قاسمی رح: حوصلہ مند عالم دین، دانشور معلم
✍️ مفتی محمدخالدحسین نیموی قاسمی
_______________
ضلع کھگڑیا، بہار کی مشہور مسلم اکثریتی بستی "کمانڈر” سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم دین، بزرگوں کے فیض یافتہ، اور جمعیت علماء اور اس کے اکابر کے شیدائی مولانا قاری محمد برہان الدین قاسمی کی رحلت علمی وملی حلقوں کے لیے بڑا خسارہ ہے. موصوف کا گزشتہ سوموار مورخہ 30 ستمبر 2024 کو بیگوسراۓ کے ایک پرائیویٹ ہاسپیٹل میں انتقال ہو گیا. قاری صاحب مرحوم کئی سالوں سے شوگر کے مریض تھے. یہ مرض بالآخر آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا . آپ نے اپنی مستعار کی تقریباً پینسٹھ بہاریں دیکھیں. اور اپنے وطن مالوف مانڈر میں سپرد خاک ہوئے.
اس بستی سے متعدد اسباب کی بنیاد پہ اس عاجز کا بھی بڑا گہرا تعلق رہا ہے،اسی بستی سے حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نور اللہ مرقدہ سابق نائب امیر شریعت امارت شرعیہ ورکن شوری دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا سید نوراللہ رحمانی رحمہ اللہ سابق صدر جمعیت علماء بہار کا تعلق تھا.
اس کے علاوہ اس عاجز کے بچپنے کا مختصر سا حصہ بھی اسی بستی میں گزرا ہے ؛ میری ہمشیرہ اسی بستی میں رہتی ہیں؛ اس نسبت سے بارہا مانڈر کا سفر ہوا؛ جس زمانے میں یہ عاجز دارالعلوم دیوبند کا طالب علم تھا؛ اسی زمانے میں ایک مرتبہ رمضان المبارک میں مانڈر کا سفر ہوا، اسی سفر میں پہلی مرتبہ باضابطہ حضرت قاری برہان صاحب سے ملاقات ہوئی؛ تعارف ہوا؛ حضرت قاری صاحب گرم جوشی سے ملے اور خورد نوازی کے طور پر یہ پیشکش کی کہ یہ رمضان المبارک کا پہلا جمعہ ہے؛ میری خواہش ہے کہ آپ جامع مسجد مانڈر میں جمعہ سے پہلے خطاب فرما ئیں. قاری صاحب کے حکم کے مطابق اس عاجز نے محراب کو سنبھالا! خطاب تو کیا طالب علمانہ چند ٹوٹی پھوٹی باتیں رمضان المبارک کے فضائل اور روزہ کی حکمتوں سے متعلق تھیں، حضرت اس تقریر سے بہت خوش ہوئے اور بڑی حوصلہ افزائی فرمائی. آپ کا اور آپ کے والد مرحوم کا مشفق ملت حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی نوراللہ مرقدہ بانی جامعہ رشیدیہ جامع مسجد بیگوسرائے سے گہرا رابطہ تھا اور بارہا قاری صاحب کا حضرت کے ہاں آنا جانا تھا؛ اس درمیان متعدد بار قاری صاحب سے ملاقات کا اور تبادلہ خیال کا موقع ملا.
ان سے اور ان کے علاوہ حضرت مولانا شفیق عالم اور مولانا شیث عالم صاحب مفتاحی مدظلہ کی زبانی ان کے والد قاری ریاض احمد صاحب کے بارے میں متعدد بار کلمات خیر سننے کا موقع ملا. یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ مرحوم قاری ریاض احمد صاحب سے بڑی محبت رکھتے تھے؛ ان کی وفات کے بعد خاص ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے مانڈر تشریف لائے تھے. اور ان کے مرقد پر پہنچ کر ان کے لیے دعائیں کی تھیں.
یاد پڑتا ہے کہ میں نے اپنے بچپنے میں قاری ریاض صاحب کو دیکھا تھا اور ان کی دعاؤں سے فیضیاب ہوا تھا. ان نسبتوں سے جب قاری برہان الدین قاسمی کی اچانک رحلت کا علم ہوا تو بڑا صدمہ ہوا. گزشتہ جون کے مہینے میں جب مانڈر کا سفر ہوا تھا تو جمعہ سے قبل جامع مسجد مانڈر میں عصر حاضر کے تقاضوں پر خطاب کا موقع ملا، بعد جمعہ حضرت مولانا عباس قاسمی صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علماء بہار کی معیت قاری صاحب کے گھر پہنچا، قاری برہان الدین صاحب موجود نہیں تھے،بلکہ بغرض علاج باہر تشریف لے گئے تھے. اس لیے ان کی ملاقات سے محرومی رہی، البتہ ان کے برادر اور ان کے بھتیجوں سے ملاقات ہوئی تھی. اور ان حضرات نے حق ضیافت ادا کیا.
قاری صاحب کی قدیم ترین مرکز علم مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے بھی متعدد بار تشریف آوری ہوئی اور قاری صاحب کی اس عاجز اور جناب مولانا پرویز عالم مظاہری کے ساتھ طویل نشستیں ہوئیں. ان نشستوں میں بالعموم ملی تنظیمی امور پر تبادلہ خیال فرماتے.
جب بھی ملتے تو میرے علمی امور کی پذیرائی کرتے اور مستقبل کے حوالے سے اس عاجز کی حوصلہ افزائی فرماتے.
قاری صاحب کا تعلق ایک علمی ودینی خانوادے سے تھا، آپ کے والد گرامی حضرت حافظ ریاض الدین مرحوم بڑے اللہ والے، جمعیت علماء پر مرمٹ اور حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کے دست گرفتہ تھے،آپ نے اپنے والد کے پاس حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں مدرسہ حسینیہ مانڈر میں پڑھی، بعدازاں مدرسہ شاہی مرادآباد، مظاہر علوم سہارنپور میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی ، 1980 میں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت کی۔
چونکہ آپ فن تجوید وقراءت سے خاص شغف رکھتے تھے اور تصحیح قرآن مجید کا خاص اہتمام کرتے تھے اس لیے "قاری” آپ کے نام کا ایسا سابقہ بنا کہ وہ آپ کے لیے "عـَلَم” کے مانند بن گیا۔
فراغت کے بعد سات سالوں تک مختلف اداروں سے مربوط ہوکر دین کی خدمت انجام دیتے رہے،
1987 میں سرکاری اسکول میں بطور معلم تقرر ہوگیا اور اسکول سے وابستہ رہ کر مسلسل34 سال تک قوم کے بچوں کوزیور علم وحکمت سے آراستہ پیراستہ کرتے رہے. یہاں تک کہ 2020 میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوگئے… اس پورے عرصے میں آپ اپنے وقار وشعار اور وضعداری کی حفاظت کی، ملازمت کے تقاضوں کے علی الرغم جمعیت علماء ہند کے ایک سپاہی کے طور پر جمعیت کی تحریک اور اس کے پیغام کو کھگڑیا ضلع کے مختلف خطوں میں پہنچاتے رہے،اصلاح معاشرہ کی کوششیں بھی کرتے رہے. کئی ٹرم جمعیت علماء کھگڑیا کے عہدہ صدارت پر بھی فائز رہے. اور عہدہ صدارت کا حق ادا کرتے رہے.
ہمیشہ ملی کاموں میں پیش پیش رہے،جمعیت علماء کے علاوہ دیگر تنظیموں سے بھی خیر خواہانہ تعلق رکھتے تھے۔
2003 میں یہ عاجز جب امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کی قیادت میں امارت شرعیہ کے وفد کے ساتھ پہنچا تو آپ نے آپ نے شہر کھگڑیا میں زور دار استقبال کیا، اس کے علاوہ مانڈر، سبل پور، رانکو وغیرہ میں شریک وفد رہے۔
آج جب قاری صاحب ہم سے جدا ہو کر مالک حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں تو بے ساختہ دل سے یہ آواز نکلتی ہے۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس.
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین.