Slide
Slide
Slide

شیخ اعظم مولانا سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی علیہ الرحمہ: احوال و آثار

شیخ اعظم مولانا سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی علیہ الرحمہ: احوال و آثار

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

____________________

دنیائے سنیت میں جن ہستیوں نے اپنی علمی، فکری، عملی، تعمیری، تخلیقی، اشاعتی، تبلیغی، دعوتی اور روحانی صلاحیتوں سے اسلامی دنیا کو منور و ششدر کیا، ان میں مخدوم العلماء شیخ اعظم حضرت مولانا سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ ایک بلند پایہ شخصیت کے مالک تھے۔ آپ رہبر شریعت، رہنمائے طریقت اور واقف اسرار معرفت و حقیقت تھے۔ آپ کا تعلق کچھوچھہ مقدسہ کے ایک عظیم روحانی سلسلے اور خانوادے سے تھا، جس نے صدیوں تک علم و روحانیت کے فروغ اور مسلم معاشرہ کی اصلاح میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی ذاتِ بابرکت کو اولادِ غوث الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اور آپ کا نسب عظیم صوفی بزرگ مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ سے جا ملتا ہے۔

ولادت اور ابتدائی زندگی:

شیخ اعظم حضرت علامہ الحاج سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کی ولادت 6 محرم 1355ھ بمطابق 1935ء کو ہوئی۔ آپ کے دادا اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمۃ نے ولادت سے قبل بشارت دی تھی کہ ان کے پوتے سے سلسلۂ اشرفیہ کا خوب خوب اظہار ہوگا، اور اسی بنیاد پر آپ کا نام "اظہار اشرف” رکھا گیا۔ یہ بشارت آپ نے اس وقت دی تھی جبکہ آپ مدینہ منورہ میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالکل سامنے تھے۔

آپ کی تربیت خاندانی روایت کے مطابق انتہائی پاکیزہ اور تقدس بھرے ماحول میں ہوئی۔ جب آپ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو بسم اللہ خوانی کی رسم نہایت اہتمام کے ساتھ ادا کی گئی، جس میں آپ کے والد گرامی حضرت سرکار کلاں، نانا حضرت سید مصطفیٰ اشرف، اور پھوپھا حضرت محدث اعظم ہند علیہم الرحمہ نے شرکت فرمائی۔

تعلیم و سندِ فراغت:

حضرت شیخ اعظم کی تعلیم کا آغاز ایک عظیم روحانی اور علمی ماحول میں ہوا۔ آپ نے درس نظامی کی تکمیل 1377ھ بمطابق 1975ء میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور سے کی اور سند فضیلت حاصل کی۔ آپ کی شخصیت میں علمی فہم، فقہی بصیرت، اور روحانیت کی گہرائی بدرجۂ اتم موجود تھی، جس نے آپ کو میدان علم و عمل کا شہسوار اور روحانیت و تصوف کا تاجدار بنایا۔

تدریسی خدمات:

فراغت کے بعد حضرت اظہار اشرف علیہ الرحمہ نے فی سبیل اللہ تدریس کا آغاز کیا۔ آپ نے 1377ھ تا 1381ھ بمطابق 1957ء تا 1961ء جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں بلا معاوضہ تدریسی خدمات انجام دیں، جہاں آپ نے ہزاروں طلبہ کو علم و حکمت کے زیور سے آراستہ کیا۔

بیعت و ارادت:

حضرت شیخ اعظم 1378ھ بمطابق 1958ء میں اپنے والد گرامی حضرت سید شاہ مختار اشرف اشرفی سرکار کلاں کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔ بیعت و ارادت کی بدولت آپ کے اندر روحانیت و معرفت کے چراغ روشن ہوئے، جو بعد میں سلسلۂ اشرفیہ کی سربراہی اور فروغ کا ذریعہ بنے۔

نکاح اور عائلی زندگی:

آپ کا نکاح 1379ھ بمطابق 1959ء میں سیدہ نزہت فاطمہ علیہا الرحمہ کے ساتھ ہوا۔ نکاح کے بعد آپ نے اپنے پہلے تبلیغی و دعوتی دورے کا آغاز کیا، جو مالیگاؤں میں دس روزہ محرم شریف کے پروگرام کے سلسلے میں تھا۔

اہم تعمیری کارنامے:

حضرت شیخ اعظم نے اپنی زندگی میں بے شمار تعمیری کارنامے انجام دیے، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

جامع اشرف کی بنیاد 1399ھ بمطابق 1978ء میں رکھی گئی۔

مسجد اعلیٰ حضرت اشرفی کا قیام 1410ھ بمطابق 1989ء میں عمل میں آیا۔

مختار اشرف لائبریری 1416ھ بمطابق 1995ء میں قائم کی گئی۔

اشرف حسین میوزیم 1416ھ بمطابق 1996ء میں قائم ہوا۔

اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے روضے کی تعمیر 1422ھ بمطابق 2001ء میں مکمل ہوئی۔

1425ھ /2004 میں آپ کی سرپرستی میں الاشرف اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا۔

1433ھ /2012ء میں جامع اشرف کے جدید ہاسٹل کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

سیمانچل اور ضلع اتر دیناج پور میں آپ نے اپنی زندگی میں کثیر دینی و تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جس کے بیان کے لئے صفحات درکار ہیں۔

آپ نے نہ صرف ہندوستان بلکہ بنگلہ دیش میں بھی دینی درسگاہ "مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم” کی بنیاد رکھی، جو سلسلہ اشرفیہ اور سنیت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔

آپ کے قائم کردہ تمام علمی ادارے آج بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں اور دین اسلام اور علوم اسلامیہ کی اشاعت و تدریس و تحقیق میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

مذہبی صحافت میں کردار:

حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے مذہبی صحافت کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ کی سرپرستی میں 1418ھ بمطابق 1997ء سے تا دم وفات ماہنامہ "الاشرف” کراچی سے شائع ہوتا رہا۔ اسی طرح، مجلہ "غوث العالم” کا اجرا بھی آپ کی سرپرستی میں 1420ھ بمطابق 1999ء میں ہوا، جس نے مذہبی صحافت میں ایک طویل عرصے تک نمایاں کردار ادا کیا۔

حج و زیارت:

حضرت شیخ اعظم کو اللہ تعالیٰ نے کئی بار حج و زیارت کی سعادت سے بھی نوازا۔ آپ نے پہلا حج 1387ھ بمطابق 1976ء میں کیا اور آخری سفر حج 1424ھ بمطابق 2003ء میں فرمایا۔ اسی طرح 1401ھ بمطابق 1980ء میں کربلائے معلیٰ، نجف اشرف، کاظمین، بغداد شریف اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت بھی کی۔

شعری و اشاعتی خدمات:

حضرت شیخ اعظم نہ صرف ایک عظیم عالم، مہتمم و منتظم، داعی، صوفی، پیر اور خطیب تھے، بلکہ آپ ایک کہنہ مشق مقبول شاعر بھی تھے۔ آپ کا شعری مجموعہ "اظہار عقیدت” پہلی بار 1423ھ بمطابق 2002ء اور دوسری بار 1428ھ بمطابق 2007ء میں شائع ہوا۔ آپ کی شاعری میں عشقِ رسول اور اہل بیت کی محبت کا رنگ نمایاں ہے۔ آپ نے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے مجموعۂ کلام "تحائف اشرفی” پر تضمین کی صورت میں "اظہار سخن” کی بھی اشاعت فرمائی، جو تصوف و روحانیت میں آپ کی گیرائی و گہرائی اور عقیدت کا مظہر ہے۔ آپ نے فارسی زبان میں مخدوم پاک کے ترجمۂ قرآن کا اردو ترجمہ "اظہار البیان” کے نام سے بھی شائع کیا۔

سجادہ نشینی:

حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ 21 شعبان 1417ھ بمطابق 2 جنوری 1997ء کو والد گرامی سرکار کلاں حضرت مفتی سید شاہ مختار اشرف اشرفی علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد خانقاہ اشرفیہ سرکار کلاں کے سجادہ نشین بنے۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک کو خانقاہ کی ترقی و توسیع میں صرف کیا۔

خراجِ تحسین:

آپ کی علمی و دینی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ماہنامہ غوث العالم نے 2007ء میں آپ پر خصوصی شمارہ ’’معارف شیخ اعظم‘‘ شائع کیا، جس میں آپ کی زندگی اور خدمات کو سراہا گیا۔

آخری خطاب:

حضرت شیخ اعظم نے اپنی زندگی کا آخری خطاب 15 دسمبر 2012ء کو بہار کے علاقے باڑی، بائسی، ضلع پورنیہ میں فرمایا۔

اوصاف:
حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ ایک صاف دل اور نیک سیرت انسان تھے۔ ان کی زندگی عفو و درگذر، بڑوں کی تعظیم، اور چھوٹوں پر شفقت سے عبارت تھی۔ وہ خاموش طبع تھے، لیکن ہمیشہ عمل اور کوشش میں مصروف رہتے تھے۔ حاجت مندوں کی مدد کرنا، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا، مہمان نوازی اور خوش اخلاقی ان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔

وصال:

علم و عمل کا یہ روشن چراغ اور شریعت و طریقت کا یہ مہر درخشاں 29 ربیع الاول 1433ھ بمطابق 22 فروری 2012ء کو بدھ کے روز ممبئی کے اسماعیلیہ اسپتال میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آپ کی کی نماز جنازہ خلف اکبر قائد ملت حضرت مولانا سید شاہ محمد محمود اشرف اشرفی جیلانی، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف، نے پڑھائی اور تدفین یکم ربیع الآخر 1433ھ بمطابق 24 فروری 2012ء بروز جمعہ کچھوچھہ شریف میں ہوئی۔

نتیجہ:

شیخ اعظم حضرت مولانا سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کی شخصیت علمی، فکری، عملی، روحانی اور اصلاحی دنیا میں ایک درخشاں ستارے کی مانند تھی۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی خدمت اور سنیت کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اپنی علمی و روحانی وراثت کے ذریعے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں دین و ایمان کی شمع روشن کی۔ آپ کے کارنامے، تعمیرات اور علمی خدمات آج بھی اہل اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت شیخ اعظم کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: