Site icon

مظفر نگر سانحہ ، ذمہ دار کون؟

مظفر نگر سانحہ ، ذمہ دار کون؟

🖋شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

_________________

چند روز قبل مظفر نگر کے ایک کیفے میں جو ’ سانحہ ‘ پیش آیا ، کیا اس کی کوئی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے ؟ پہلے ’ سانحہ ‘ کو سمجھیں ؛ کیفے سے ، جس کے اندر چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے تھے ، ایک ’ چھاپہ ‘ میں طلبہ و طالبات پکڑے گیے ۔ یہ اندر کیا کر رہے تھے ، اس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ جب طلبہ و طالبات کالج کی بجائے کسی کیفے کے چھوٹے سے کیبن سے برآمد کیے جائیں ، تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اندر بیٹھ کر ’ پڑھائی ‘ کر رہے تھے ۔ یقیناً وہ عشق اور محبت کا کھیل کھیل رہے تھے ۔ اور کالج جانے کے نام پر اپنے والدین کو دھوکہ دے رہے ، اپنے محلے کو بدنام کر رہے ، اور اپنے وجود کو ذلت کی دلدل میں غرق کر رہے تھے ۔ جو لڑکے اور لڑکیاں چھاپے میں پکڑے گیے ، وہ ہر مذہب اور ذات کے تھے ، لیکن اکثریت مسلم طالبات کی تھی ! مسلم طالبات وہ بھی برقعہ اور باحجاب ! ایک خبر آئی ہے کہ اس افسوس ناک ’ سانحہ ‘ پر – یہ ہم سب کے لیے ’ سانحہ ‘ ہی ہے – مظفر نگر کے چند باعزت مسلمانوں نے باقاعدہ ایک میٹنگ لی ، اور معاملہ کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ دیر آید درست آید ، کمیٹی کی تشکیل بھی ضروری ہے ، اور معاملہ کی چھان بین بھی ۔ لیکن ان باعزت اور محترم شخصیات سے ایک سوال ہے : ’ اتنی دیر کیوں لگا دی نیند سے جاگنے میں ؟ ‘ یہ کوئی ایک روز کا معاملہ تو نہیں تھا ، پتا چلا ہے کہ اس کیفے میں ( اور مزید ایسے ہی کیفوں میں ) سب کھلے عام ہوتا رہا ہے ، اور آتے جاتے لوگ ، طلبہ و طالبات کو کیفے میں جاتے اور کیفے سے باہر آتے دیکھتے بھی رہے ہیں ! کیوں لوگ نہیں جاگے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کوہِ قاف پر جانے کی ضرورت نہیں ہے ، جواب سامنے ہے ؛ مسلمان نیند میں رہنا پسند کرتے ہیں ، اس لیے ۔ انہیں کوئی واردات ، سانحہ یا معاملہ اس وقت سنگین اور شرم ناک لگتا ہے ، جب چڑیاں کھیت چگ جاتی ہیں ، اور ان کی زبان سے نکلتا ہے ،’ ارے ہم تو یہ سب دیکھ رہے تھے ۔‘ مسلم لڑکیوں کی ’ بے راہروی ‘ اور ان میں ارتداد کی لہر کا الزام فوراً ’ ہندتوادیوں ‘ کی ’ سازش ‘ اور ’ منصوبہ بندی ‘ پر دھر دیا جاتا ہے ، ہم جیسے لوگ بھی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں ، لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں ۔ کیا ہم ذات پات کے عفریت کے شکار نہیں ہیں ؟ ہیں ، اسی لیے ایک بڑی تعداد میں لڑکیاں عمر ڈھل جانے کے بعد بھی غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں ، یا کسی بوڑھے کے ہاتھوں تھما دی جاتی ہیں ۔ کیا ہم شادی کے لیے ایسی لڑکیاں تلاش نہیں کرتے جو اپنے ساتھ ’ جہیز ‘ لائیں ؟ جی ، ایسا ہے ، اور اس کے نتیجہ میں لڑکیاں بیٹھی رہتی ہیں ، راہ سے ہٹ جاتی ہیں ۔ شادی کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے ، اسی لیے کچھ والدین ایسے بھی پائے جاتے ہیں ، جو غربت کے سبب یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اپنے لیے خود کوئی بَر ڈھونڈ لیں ، اور وہ اکثر بَر ’ غیروں ‘ میں ڈھونڈ لیتی ہیں ۔ کیا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے ؟ نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ اب مسلم لڑکیاں ’ غیروں ‘ کے ساتھ بیاہ کرنے لگی ہیں ، اپنا ایمان تجنے لگی ہیں ، اور لڑکے بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی سے معذور ہیں ، اس لیے ’ بھگوائیوں ‘ پر سارا دوش ڈال دیتے ہیں ۔ کیا ہم نے یہ کوشش کی کہ مسلم بچیوں کے لیے تعلیمی ادارے بنائے جائیں ؟ کیا مذہبی قیادت ، سیاسی اور سماجی قیادت کے پاس کوئی منصوبہ ہے کہ بچیاں تعلیم بھی پائیں اور غیروں کے اختلاط سے محفوظ بھی رہیں ؟ کیا مسلم ’ سیٹھوں ‘ کے پاس عام مسلمانوں کی غربت دور کرنے کا کوئی حل ہے تاکہ یہ غربت کے سبب اپنی بچیوں کو بربادی کی طرف نہ ڈھکیل سکیں ؟ کوئی حل نہیں ہے ، اکثر مسلمان ’ سیٹھ ‘ بس عیش کر رہے ہیں ، اور ان کی اولادیں بھی ۔ کَل کو ان سے پوچھ گچھ ہوگی ، اور اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکیں گے ، کیونکہ سوال کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہوگی ۔

Exit mobile version