سقوط شام: اندیشے ، امکانات
سقوط شام: اندیشے ، امکانات

سقوط شام: اندیشے ، امکانات از: ڈاکٹر تسلیم رحمانی ____________________ آخر کار شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو ہی گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ظلم و استبداد کے ۶۱ سالہ عہد کا بھی خاتمہ ہوگیا نیز عرب دنیا میں کمیونسٹ نظریے کی حامی بعث پارٹی کا آخری قلعہ بھی منہدم ہوگیا۔ […]

کرپٹو کرنسی اور اسلام: ایک جامع تجزیہ
کرپٹو کرنسی اور اسلام: ایک جامع تجزیہ

کرپٹو کرنسی اور اسلام: ایک جامع تجزیہ از؛ ڈاکٹر سلیم انصاری جھاپا، نیپال ___________________ کرپٹو کرنسی ایک قسم کی ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی ہے جس کے بارے میں آج ہر خاص و عام بات کر رہے ہیں۔ چونکہ یہ ہمارے لیے ایک نئی چیز ہے اور بحیثیت مسلمان ہمیں اسے جاننا چاہیے تاکہ ہم فیصلہ […]

عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ
عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ

عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ از: ڈاکٹر سلیم انصاری جھاپا، نیپال _________________ عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل پیچیدہ اور ہمہ جہت ہیں، جو مختلف تہذیبی، سماجی، اور اقتصادی پہلوؤں کو محیط ہیں۔ ان مسائل میں اسلام کے عطا کردہ حقوق سے لاعلمی، سماجی رسم و رواج کی […]

تازہ ترین پوسٹ

دین و شریعت

کیوں کہ ہماری زندگی کا مقصد،تو صرف اللہ کی عبادت ہے!!

کیوں کہ ہماری زندگی کا مقصد،تو صرف اللہ کی عبادت ہے!! از:-: انوارالحق قاسمی ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال ______________________...
Read More
تجزیہ و تنقید

پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991: سپریم کورٹ کا عبوری حکم اور انتہا پسند عناصر

پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991: سپریم کورٹ کا عبوری حکم اور انتہا پسند عناصر از: محمد شہباز عالم مصباحی سیتل...
Read More
تعلیم و تربیت

بیوی کی عزّت کیجیے

بیوی کی عزّت کیجیے از: محمد رضی الاسلام ندوی ___________________ دفتر میں اپنے کاموں میں مصروف تھا کہ استقبالیہ سے...
Read More
تجزیہ و تنقید

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

انقلاب شام کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ✍ سید سرفراز احمد ____________________ سال 2024 جاتے...
Read More
تجزیہ و تنقید

کم سے کم تین بچے پیدا کرنے کا مشورہ کیوں دیا گیا؟

کم سے کم تین بچے پیدا کرنے کا مشورہ کیوں دیا گیا؟ از: عبدالماجد نظامی ____________________ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ...
Read More

مظفر نگر سانحہ ، ذمہ دار کون؟

مظفر نگر سانحہ ، ذمہ دار کون؟

🖋شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

_________________

چند روز قبل مظفر نگر کے ایک کیفے میں جو ’ سانحہ ‘ پیش آیا ، کیا اس کی کوئی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے ؟ پہلے ’ سانحہ ‘ کو سمجھیں ؛ کیفے سے ، جس کے اندر چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے تھے ، ایک ’ چھاپہ ‘ میں طلبہ و طالبات پکڑے گیے ۔ یہ اندر کیا کر رہے تھے ، اس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ جب طلبہ و طالبات کالج کی بجائے کسی کیفے کے چھوٹے سے کیبن سے برآمد کیے جائیں ، تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اندر بیٹھ کر ’ پڑھائی ‘ کر رہے تھے ۔ یقیناً وہ عشق اور محبت کا کھیل کھیل رہے تھے ۔ اور کالج جانے کے نام پر اپنے والدین کو دھوکہ دے رہے ، اپنے محلے کو بدنام کر رہے ، اور اپنے وجود کو ذلت کی دلدل میں غرق کر رہے تھے ۔ جو لڑکے اور لڑکیاں چھاپے میں پکڑے گیے ، وہ ہر مذہب اور ذات کے تھے ، لیکن اکثریت مسلم طالبات کی تھی ! مسلم طالبات وہ بھی برقعہ اور باحجاب ! ایک خبر آئی ہے کہ اس افسوس ناک ’ سانحہ ‘ پر – یہ ہم سب کے لیے ’ سانحہ ‘ ہی ہے – مظفر نگر کے چند باعزت مسلمانوں نے باقاعدہ ایک میٹنگ لی ، اور معاملہ کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ دیر آید درست آید ، کمیٹی کی تشکیل بھی ضروری ہے ، اور معاملہ کی چھان بین بھی ۔ لیکن ان باعزت اور محترم شخصیات سے ایک سوال ہے : ’ اتنی دیر کیوں لگا دی نیند سے جاگنے میں ؟ ‘ یہ کوئی ایک روز کا معاملہ تو نہیں تھا ، پتا چلا ہے کہ اس کیفے میں ( اور مزید ایسے ہی کیفوں میں ) سب کھلے عام ہوتا رہا ہے ، اور آتے جاتے لوگ ، طلبہ و طالبات کو کیفے میں جاتے اور کیفے سے باہر آتے دیکھتے بھی رہے ہیں ! کیوں لوگ نہیں جاگے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کوہِ قاف پر جانے کی ضرورت نہیں ہے ، جواب سامنے ہے ؛ مسلمان نیند میں رہنا پسند کرتے ہیں ، اس لیے ۔ انہیں کوئی واردات ، سانحہ یا معاملہ اس وقت سنگین اور شرم ناک لگتا ہے ، جب چڑیاں کھیت چگ جاتی ہیں ، اور ان کی زبان سے نکلتا ہے ،’ ارے ہم تو یہ سب دیکھ رہے تھے ۔‘ مسلم لڑکیوں کی ’ بے راہروی ‘ اور ان میں ارتداد کی لہر کا الزام فوراً ’ ہندتوادیوں ‘ کی ’ سازش ‘ اور ’ منصوبہ بندی ‘ پر دھر دیا جاتا ہے ، ہم جیسے لوگ بھی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں ، لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں ۔ کیا ہم ذات پات کے عفریت کے شکار نہیں ہیں ؟ ہیں ، اسی لیے ایک بڑی تعداد میں لڑکیاں عمر ڈھل جانے کے بعد بھی غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں ، یا کسی بوڑھے کے ہاتھوں تھما دی جاتی ہیں ۔ کیا ہم شادی کے لیے ایسی لڑکیاں تلاش نہیں کرتے جو اپنے ساتھ ’ جہیز ‘ لائیں ؟ جی ، ایسا ہے ، اور اس کے نتیجہ میں لڑکیاں بیٹھی رہتی ہیں ، راہ سے ہٹ جاتی ہیں ۔ شادی کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے ، اسی لیے کچھ والدین ایسے بھی پائے جاتے ہیں ، جو غربت کے سبب یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اپنے لیے خود کوئی بَر ڈھونڈ لیں ، اور وہ اکثر بَر ’ غیروں ‘ میں ڈھونڈ لیتی ہیں ۔ کیا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے ؟ نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ اب مسلم لڑکیاں ’ غیروں ‘ کے ساتھ بیاہ کرنے لگی ہیں ، اپنا ایمان تجنے لگی ہیں ، اور لڑکے بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی سے معذور ہیں ، اس لیے ’ بھگوائیوں ‘ پر سارا دوش ڈال دیتے ہیں ۔ کیا ہم نے یہ کوشش کی کہ مسلم بچیوں کے لیے تعلیمی ادارے بنائے جائیں ؟ کیا مذہبی قیادت ، سیاسی اور سماجی قیادت کے پاس کوئی منصوبہ ہے کہ بچیاں تعلیم بھی پائیں اور غیروں کے اختلاط سے محفوظ بھی رہیں ؟ کیا مسلم ’ سیٹھوں ‘ کے پاس عام مسلمانوں کی غربت دور کرنے کا کوئی حل ہے تاکہ یہ غربت کے سبب اپنی بچیوں کو بربادی کی طرف نہ ڈھکیل سکیں ؟ کوئی حل نہیں ہے ، اکثر مسلمان ’ سیٹھ ‘ بس عیش کر رہے ہیں ، اور ان کی اولادیں بھی ۔ کَل کو ان سے پوچھ گچھ ہوگی ، اور اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکیں گے ، کیونکہ سوال کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہوگی ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: