تعمیر قوم میں تعلیم کا کردار
از: محمدناصر ندوی
متحدہ عرب امارات
____________________
رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں تشریف لائے تو یہ دنیا ہر طرح کی برائیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، کوئی برائی ایسی نہ تھی جو سماج میں نہ پائی جاتی ہو، عام لوگوں کی نہ جان محفوظ تھی نہ مال، نہ عزت وآبرو محفوظ تھی ،نہ اخلاق وکردار ، ظلم وجور کی کوئی حد نہ تھی اور سماج کے تمام فیصلے ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کے اُصول پرصادر ہو رہے تھے ، مذہبی پہلو سے دیکھئے تو بدترین روش عام تھی، جس میں عرب بھی گرفتار تھے ، اور عجم بھی ،اعرب سے لے کر چین تک پوری مشرقی دُنیا ایک اکیلے خدا کے تصور سے بہت دور جاچکی تھی۔
ان حالات میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ پھرجب عمر مبارک چالیس سال ہوئی تو نبوت کا تاج گہربار سر مبارک پر رکھا گیا ، بظاہر یہ خیال ہوتا ہے کہ ان حالات میں جو پہلی وحی نازل ہوتی، وہ اصلاحِ عقیدہ کے پہلو سے توحید کے اثبات اور شرک کے رد میں ہوتی، یا انسانی نقطۂ نظر سے ایسی آیت نازل ہوتی جس میں ظلم وجور سے منع کیا گیا ہو، انسانی اُخوت وہمدردی اور محبت ومروت کی طرف دعوت دی گئی ہو، یا سماجی اصلاح سے متعلق کوئی آیت ہوتی، جس میں بے شرمی اور بے حیائی سے روکا گیا ہو ۔
لیکن آپ ﷺ پر سب سے پہلے جو آیت نازل ہوئی، اس میں ان میں سے کسی بات کا تذکرہ نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"اپنے رب کے نام سے پڑھئے ،جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا، اس نے انسان کو جمے ہوئے لہو سے پیدا کیا، پڑھئے ، اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا، جس نے انسان کو وہ (کچھ) سکھادیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ جس نے آدمی کو وہ سارا علم عطا فرمادیا جو وہ پہلے نہ جانتا تھا۔‘‘ (العلق:۱؍تا۵)
یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تعلیم وتعلم کی طرف متوجہ فرمایا؛ اس لئےکہ علم کی مثال روشنی کی ہے۔ جس طرح روشنی ہر شخص کی ضرورت ہے،اسی طرح علم کے بغیر باوقار زندگی ممکن نہیں ہے۔
آج مسلم معاشرہ میں علم کی بہت کمی ہے، عقیدہ وعمل،اور معاشرت واخلاق کی زیادہ تر برائیاں لا علمی کا نتیجہ ہیں، جہالت کی تاریکی ہی میں یہ تمام مفاسد پرورش پاتے ہیں، تعلیم کی روشنی جتنی پھیلے گی، یہ بگاڑ بھی خود بخود دُور ہوتا جائے گا، تعلیم کے بغیر سماج کی برائیوں کو دُور کرنے کی مثال جڑوں کے بجائے ٹہنیوں اور پتوں پر پانی دینے کی ہے، کہ اس سے وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے؛ لیکن کسی دیرپا تبدیلی کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔
اسلام نے صرف مذہبی تعلیم ہی کو اہمیت نہیں دی ؛ بلکہ اس نے علم کی تقسیم علم نافع اور علم غیر نافع سے کی ہے۔ جو علم انسان کو دینی یا دُنیوی اعتبار سے نفع پہنچائے اور ان کے مسائل حل کرے، وہ علم نافع ہے اور جو علم انسانیت کےلئے ہلاکت اور مضرت کا سامان ہو، وہ علم غیر نافع ہے۔ رسول اللہ ﷺ علم نافع کےلئے دُعا فرمایا کرتے تھے اور جو علم نافع نہ ہو، اس سے پناہ چاہتے تھے۔ اس اُصول پر غور کیا جائے تو اکثر عصری علوم وفنون علم نافع کی فہرست میں آتے ہیں۔ طب انسانی جسم کیلئے نفع بخش ہے۔ انجینئرنگ انسانی ضروریات کی تکمیل میں مفید ہے، علم قانون میں انسان کی عزت وآبرو کی حفاظت ہے، ادب وصحافت کے ذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انجام دیا جاتا ہے، جس پر سماج کی اخلاقی اور روحانی اقدار کا تحفظ موقوف ہے، تجارت ومعاشیات سے متعلق علوم کا مقصد فرد اور سماج کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے صرف کے جائز اور مناسب مواقع کی رہنمائی کرنا ہے، جس کے مفید اور نافع ہونے میں کسی کےانکار کی گنجائش نہیں ہے، اس لئے یہ تمام علوم اسلام میں مطلوب ہیں اور ان کی حیثیت فرض کفایہ کی ہے۔ اسلام نے لوگوں کو کائنات کی مخفی حقیقتوں میں غور وفکر اور تدبر کی دعوت دی، نیزحکمت ودانائی کی ہر بات کو مؤمن کی متاعِ گم گشتہ قرار دیا۔(الحكمةضالةالمؤمن حيث وجدهافهوأحق بها) اسلام نےعلم کے اعتراف میں اپنے اوربیگانے کا فرق نہیں کیا۔ حضورﷺنے اُمیہ بن ابي الصلت کے اشعار کی تعریف فرمائی ،جو زمانۂ جاہلیت کا شاعر تھا،اسی طرح تحصیل علم میں بھی آپ ﷺ نے کبھی دوست اوردشمن کافرق نہیں فرمایا، غزوۂ بدر میں جو غیر مسلم قید ہوکر آئے، ان کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: کہ ان میں جو لوگ پڑھے لکھے ہوں، وہ دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں، یہی ان کا فدیۂ رہائی ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہ دشمن تھے نہ کہ دوست اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ مشرک تھے، علم دین تو ان سے حاصل ہو نہیں سکتا تھا، اگر آپ ؐ ان سے تعلیمی فدیہ وصول کرنے کے بجائے مالی فدیہ ہی وصول کرتے تو معاشی نقطۂ نظر سے اہل مدینہ کیلئے یہ بھی حق بجانب ہوتا؛ کیونکہ اس وقت مسلمان سخت غربت و افلاس کی حالت میں تھے ، اور فاقہ کشی کے ساتھ گزر بسر عام تھی؛ لیکن آپؐ نے ان حالات میں بھی تعلیم کو ترجیح دی۔ یہ گویا اس بات کا درس ہے کہ تعلیم کا حاصل کرنا بہرحال ضروری ہے، چاہے اس کےلئے پیٹ کاٹنا پڑے یا فاقے برداشت کرنے پڑیں؛ لیکن بچوں کی تعلیم کو کسی قیمت پر نظر انداز نہ کیا جائے۔
آج مسلمانوں کو یہی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ چاہے وہ معمولی کھائیں، معمولی پہنیں، عیش وعشرت کے دوسرے اسباب سے خود کو آراستہ نہ کر پائیں، معاشی تنگی گوارا کرلیں؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، سماج کا کوئی بچہ ایسا نہ ہو جو تعلیم سے محروم رہے۔
عام طور پرغریبوں کی مدد اور تعاون کا مطلب صرف یہ سمجھاجاتا ہے کہ وقتی طور پر کچھ پیسے دے دیئے جائیں، کچھ کھانے پینے کی چیز مہیا کردی جائے ،اور عید کا موقع ہو تو کپڑے بنوا دیئے جائیں، بہت سوں کے نزدیک یہی بڑی خدمت ہے؛ حالاں کہ خدمت کا زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اس کےلئے روزگار اور معاشی سطح کو مستقل طور پر اونچا اُٹھانے کی تدبیر ہو ، جیسے کوئی دکان لگا کر دے دی جائے، کہیں ملازمت دلادی جائے، اس کی فضیلت زیادہ ہے اور رسول اللہ ﷺ سے ایسی تدابیر کا اختیار کرنا ثابت ہے۔
ایسی ہی تدابیر میں ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اگر خود اپنے بچے کو پڑھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو اس کے بچوں کو تعلیم دلانے کی ذمہ داری اٹھائی جائے، یہ صدقۂ جاریہ ہوگا اور اس بچہ کے ذریعہ خود اس کی، اس کے والدین کی اور خاندان و سماج کی جو کچھ خدمت ہوگی، یہ اس کے اجر میں شریک ہوگا،اس وقت یہ انسانی خدمت کا سب سے اہم اور مفید طریقہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دو بچے ہوں تو اس کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ گویا اس کے تین بچے ہیں، اور وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنی قوم کے ایک اور بچہ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری قبول کرلے، یقیناً یہ بہت بڑی خدمت ہوگی اور اس طرح سماج کی بہت سی مشکلات حل کرنے مہں مدد ملےگی، یاد رکھیں کہ جب تک پورا سماج نہ پڑھے گا اور پوری قوم ترقی نہ کرے گی ، تب تک ہماری ذاتی ترقی یقیناً اَدھوری اور ناتمام ہوگی ۔
عام طور پردیکھا جاتا ہے کہ مسلمان بچوں کی ایک اچھی خاصی تعداد پرائمری کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیتی ہے، بہت سے طلبہ ہائی اسکول کی سطح پر تعلیم ترک کردیتے ہیں،اور نہایت کم تعداد انٹر تک پہونچ پاتی ہے،حالانکہ اب تو وہ کچھ پڑھنے کے لائق ہوا ہے، بارھویں کے بعد ہی اصل تعلیم شروع ہوتی ہے، اعلیٰ فنی تعلیم میں تو ہمارے بہت ہی کم بچے پہونچ پاتے ہیں ، یہ نہایت افسوسناک اور بڑی فکر کی بات ہے،ترکِ تعلیم کی وجہ کبھی معاشی ہوتی ہے، کبھی طالب علم کی پست ہمتی ، یا بہت سے گھرانوں میں والدین میں آگہی کی قلت اور سرپرستوں کی ناواقفیت بھی آڑے آتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان رہنما اوراہل دانش نئے تعلیمی سال کے آغاز پر گاؤں گاؤں اور شہر کے محلوں میں چند پڑھے لکھے رضاکاروں کی ایک کمیٹی بنائیں، جو سلسلۂ تعلیم منقطع کرنے والے بچوں اور ان کے سرپرستوں کے حالات کا جائزہ لے، اگر طالب علم پست ہمتی کا شکار ہو رہا ہے تو کمیٹی سمجھانے بجھانے کےلئے(counselling) کاؤنسلنگ کا نظم کرے، اور students کی ہمت افزائی (motivation) پر خصوصی توجہ مرکوز کرے ، اگر سرپرستوں کی غفلت اور بے اعتنائی ہو تو ان کا شعور بیدار کرے، جو مواقع گورنمنٹ کی طرف سے حاصل ہیں ، ان کو اس سے استفادہ کی راہیں بتائے، اور جو بچے معاشی پسماندگی کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہورہے ہوں، ان کے تعلیمی وسائل میں مدد کرے، خصوصا اہل خیر کو اس جانب متوجہ کرے کہ کسی کو کتابوں کی ضرورت ہو تو کتاب دلادیں ، کسی کو اسکول کی فیس کا مسئلہ درپیش ہو تو اس میں تعاون کردیں، اس طرح ایک مختصر مگر مخلصانہ کوشش اور فکرمندی کے ذریعہ بہت سے طلبہ کا سلسلۂ تعلیم جاری رکھاجاسکتا ہے۔
قوم سے حقیقی محبت یہی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو تعلیم میں آگے بڑھائیں اور جس شرمناک تعلیمی پسماندگی سے ہم دوچار ہیں، اس تعلیمی بحران سے باہر نکالنے کی کوشش تیز کریں ، مسلم جماعتیں ایک لائحۂ عمل مرتب کریں،اور ہر علاقہ میں زون(zone) تشکیل دیں، پھر ایک محدود مدت کا پروگرام بنائیں کہ ہم اس مدت میں ناخواندگی کو اس زون سے مکمل طور پر ختم کردیں گے، اور ہمارے سماج کا کوئی لڑکا یا لڑکی ایسا نہ ہوگا جو تعلیم سے محروم ہو۔
"لعل اللہ یحدث بعد ذالك أمرا ".
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات