مولانا ندیم الواجدیؒ اور بچپن کی کچھ یادیں
🖋محمد غزالی خان
__________________
معروف عالم دین، مصنف اور کالم نگار مولانا ندیم الواجدی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ وہ اپنے لائق بیٹے اور معروف عالم دین مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کے پاس شکاگو گئے ہوئے تھے جہاں چند روز قبل دل کا دورہ پڑنے کے بعد ان کی طبیعت کافی خراب ہو گئی تھی جس کی اطلاع یاسر صاحب نے اپنے فیس بک پیج پر دی تھی۔ غالباً معاملہ اتنا پیچیدہ تھا کہ ڈاکٹر بھی خود کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے اور فیصلہ یاسر صاحب پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ اپنے والد محترم کا آپریشن کروانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ کسی اولاد کے لئے اپنے والدین میں سے کسی کے لئے ایسا فیصلہ کرنا جس میں بات موت اور زندگی کی ہو، کتنا مشکل ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کسی بھی حساس شخص کے لئے مشکل نہیں۔ مفتی صاحب نے تمام ڈاکٹروں اوراپنے گھروالوں سے مشورے کے بعد غالباً آپریشن کا ہی فیصلہ کیا۔ واٹس ایپ میسیج کے جواب میں مفتی صاحب نے بتایا کہ بہت معمولی سی بہتری آئی ہے مگر شاید آپریشن کے بعد مولانا کی طبیعت سنبھل نہیں پائی اور بالآخر وہ خبر آگئی جس کا ڈر تھا۔ انالله واناالیه راجعون۔
خود ایک معروف عالم دین ہونے کے علاوہ، مولانا کا تعلق دیوبند کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے ماموں مولانا شریف صاحب (جو اتفاقاً میرے دادا مرحوم حافظ عبدالجلیل خان کے کلاس فیلو رہ چکے تھے، مولانا شریف صاحب کے فرزند رئیس صاحب میرے بڑے چچا کے غالباً اسکول سے لے کر ایم اے تک کلاس فیلو اور نزدیکی دوست رہے) دارالعلوم میں بحیثیت شیخ الحدیث خدمت انجام دے چکے تھے۔ مجھے یاد نہیں آرہا ہے ان کے خاندان کے ایک اور عالم جلال آباد میں شیخ الحدیث رہ چکے تھے۔
مولانا ندیم الواجدی صاحب میرے چھوٹے چچا ڈاکٹر یوسف خان (ریٹائرڈ پروفیسر شعبہ عربی اے ایم یو) کے اچھے دوستوں میں تھے اور دارالعلوم دیوبند (اور شاید حفظ میں بھی) کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ دونوں نے کئی محرابیں ایک ساتھ سنائیں۔ مولانا سے میری پہلی ملاقات ہمارے گھر پران کے زمانہ طالب علمی کے دوران ہی ہوئی تھی۔ آج چچاجان کو فون پر جب یہ افسوس ناک اطلاع دی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور دیر تک اپنا زمانہ طالب علمی یاد کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ یہ دونوں اور شاید تیسرا نام مولانا مسرور مرحوم بتایا ایک ساتھ تکرار کیا کرتے تھے۔ پھر تینوں دارالعلوم کے نزدیک تہاری کھانے جایا کرتے تھے۔
ستر کی دہائی میں مسلم مجلس کے قائد اور ملت کے بے لوث خادم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم نے نوجوانوں کے لئے یوتھ مسجلس قائم کی تھی۔ دیوبند میں مسلم مجلس اور مسلم مسائل کا جھنڈا دو بھائی بدرقمر کاظمی اور بدر کاظمی اٹھائے رکھتے تھے۔ بدربھائی اور ندیم الواجدی صاحب غالباً ہم عمر تھے۔ ہم اس وقت اسکول میں تھے۔ بدربھائی کے ساتھ یوتھ مجلس میں فعال لوگوں میں ندیم الواجدی صاحب تھے۔ اس وقت یوتھ مجلس نے دیوبند میں مضمون نگاری کا ایک مقابلہ بھی کروایا تھا۔ اس مقابلے کے لئے اپنا مضمون جب میں جمع کروانے گیا تو مولانا مرحوم نے ہی وصول کیا تھا۔ اس وقت عارضی طور پر ان لوگوں نے مولانا عامر عثمانی مرحوم کے شہرہ آفاق رسالے ’تجلی‘ کے دفتر کے سامنے ایک کمرہ لے کر اس میں دفتر بنایا ہوا تھا۔
۱۹۷۲ میں ہی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پرحکومتی حملے کے خلاف تحریک چلائی تھی اور ایک خاص دن احتجاج کا رکھا تھا۔ مگر جب حکومت نے پورے اترپردیش میں دفعہ ۱۴۴ نافذ کرکے جلسے اور جلوسوں پر پابندی لگادی تو ڈاکٹرصاحب ہی کی کال پر مسلمانوں نے اس دن بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھی تھیں اور گھروں پر کالے جھنڈے لگائے تھے۔ ہم بھی بدر بھائی، مولانا ندیم الواجدی صاحب، میرے والد کے چچازاد بھائی مسعود انورخان اور دیگر کو دیکھ کر کالے جھنڈے اور کالی پٹیاں تقسیم کرنے میں شامل ہوگئے تھے۔ خبروں کے معاملے میں وہ آج جیسا دور نہیں تھا کہ ہر ایک کو معلوم ہو کہ کیا ہورہا ہے۔ انپڑھ اورغریب مسلمانوں کو پٹیان باندھنے اور گھر پر کالا جھنڈا لگانے کی ترغیب دینے کے لئے ہم یہ بتاتے تھے کہ علیگڑھ میں مسلمانوں کا بہت بڑا اسکول ہے جسے حکومت ہتھیانا چاہ رہی ہے۔ اس کے خلاف احتجاج کے طور پر یہ کالے جھنڈے گھروں پر لگانے ہیں۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس سے زیادہ ہمیں خود بھی پتہ نہیں تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یونیورسٹی اور اسکول کے فرق کو کچھ تھوڑا بہت سمجھتے تھے۔
انہی دنوں میرے والد اور چچا مرحوم کے دوست مولانا عبداللہ جاوید صاحب نے دیوبند سے ایک پندرہ روزہ اخبار’مرکزجدید‘ نکالنا شروع کیا تھا۔ مولانا کا سب سے پہلا مضمون میں نے ’مرکز‘ میں ہی پڑھا تھا جوعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر تھا۔ بلکہ جس بات کے لئے ہم احتجاج میں شامل ہوئے تھے وہ پہلی مرتبہ سمجھی ہی مولانا کے مضمون سے تھی اور اس مضمون کے بعد میں ’مرکز‘ کے آنے کا شدت سے انتظارکرتا تھا۔
ان دنوں دیوبند میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے خلاف بہت سخت ماحول تھا۔ جب کسی کی کردار کشی کرنی ہوتی تو جمیعتی حلقہ مشہورکردیتا کہ فلاں مودودیہ ہوگیا۔ جمیعتی ٹولے نے یہی افواہ مولانا کے بارے میں بھی پھیلائی۔ مجھے اب بھی یاد ہے جب ان کے ایک کلاس فیلو (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) نے میرے چچا سے میری موجودگی میں پوچھا: ’ارے یار یوسف سنا ہے ندیم الواجدی مودودیہ ہوگیا۔‘ ہمارے گھر کے ماحول کے برعکس پتہ نہیں ان دنوں ہمارے چچاجان پر جمعیتی اثر کیوں تھا۔ انہوں نے اپنے دوست کا دفاع کرتے ہوئے فوراً جواب دیا: ’بکواس بات ہے۔
اخبارپڑھنے کی عادت والد صاحب کی وجہ سے اسکول کے دنوں سے ہی پڑ گئی تھی۔ اردو اخبارات میں مولانا کے مضامین پڑھتا رہتا تھا مگر سن ۸۳ میں لندن آنے کے بعد ہندوستان کے اردو اخبارات سے تعلق ختم سا ہوگیا تھا جو انٹرنیٹ آنے کے بعد پھر بحال ہوگیا اور اس طرح مولانا کے مضامین پھر پڑھنے کو ملنے لگے جن میں سے کئی کا ترجمہ انگریزی میں کر کے شائع بھی کیا۔
یہ میری بد قسمتی رہی کہ ہر مرتبہ جب بھی دیوبند گیا یہ سوچ کرگیا کہ اس مرتبہ مولانا سے ملاقات ضرور کروں گا مگر سچ بات یہ ہے کہ دیوبند میں جاتا ہی ہوں صرف والد محترم کے لئے اور وہاں پہنچنے کے بعد پھر گھر سے کہیں اور جانے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ میں اس سال فروری میں جب دیوبند گیا ہوا تھا تو، باجود اس کے کہ تقریراور اسٹیج سے میرا دور دور کا واسطہ نہیں، عزیز دوست ڈاکٹر عبید اقبال عاصم صاحب نے شاہد زبیری صاحب کے کئے ہوئے انٹرویوؤں پر مبنی اپنی مرتب کردہ کتاب ’باتیں ملاقاتیں‘ کے اجرا میں مجھے بھی کھینچ لیا۔ ہال میں پہنچ کرمعلوم ہوا کہ مقررین میں ندیم الواجدی صاحب، ڈاکٹر راحت ابرار صاحب، پروفیسر شافع قدوائی صاحب اور بدر کاظمی بھائی سمیت بڑی بڑی شخصیات اسٹیج پر موجود ہیں۔ مولانا سے وہ میری آخری ملاقات تھی اور ان کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنا بڑے اعزاز کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی خدمات قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور مفتی یاسر صاحب، ان کی والدہ محترمہ اور تمام اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ ثمہ آمین