Slide
Slide
Slide

بی جے پی کی شکست کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا پڑے گا

بی جے پی کی شکست کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا پڑے گا

✍️ عبدالغفارصدیقی

_________________

کانگریس ہریانہ میں ایک بار پھر ہار گئی۔دوسرے الفاظ میں بی جے پی تیسری بار جیت گئی۔حالانکہ ہریانہ انتخابات کے اعلان سے قبل اور دوران انتخابات نیز مابعد الیکشن کے ایگزٹ پول کہہ رہے تھے کہ کانگریس واضح اکثریت سے فاتح ہوگی۔لیکن سارے ایگزٹ پول دھرے رہ گئے اور نتائج الٹ گئے۔نتیجوں کے بعد جائزوں کا دور جاری ہے۔کانگریس کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی کا الزام دہرایا گیا ہے اور بیلیٹ پیپر سے الیکشن کی مانگ کا اعادہ کیاگیا ہے۔ظاہرہے حکمراں جماعتیں کچھ نہ کچھ دھاندلیاں کرتی ہی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاندلی نہ ہونے دے اور ہر بوتھ پر نظر رکھے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ فتح و شکست میں دھونس دھاندلی کافیصد بہت زیادہ نہیں ہوتا۔ہارنے والوں کو دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں میں جھانکنا چاہئے اوراپنی ہار کے حقیقی اسباب کا پتا لگانا چاہئے۔

کانگریس کی شکست میں عام آدمی پارٹی نے سب سے بڑا کردار انجام دیا ہے۔میں یہ بات بارہا کہہ چکا ہوں کہ عام آدمی پارٹی اس لیے وجود میں لائی گئی تاکہ ان ریاستوں میں کانگریس کا صفایا کرسکے،جہاں بی جے پی اس کو شکست دینے میں ناکام رہتی ہے۔یہ پارٹی سنگھ کی حمایت یافتہ پارٹی ہے۔بھلے ہی اس کے مکھیا سنگھ سے سوالات کررہے ہیں۔اروند کیجریوال کی الیکشن سے پہلے جیل سے رہائی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ ہریانہ میں انتخابی مہم کی رہنمائی کریں اور بی جے پی مخالف ووٹوں کو کانگریس کی جھولی میں نہ جانے دیں۔اس پارٹی نے پیدائش سے اب تک صرف کانگریس کی قبر کھودی ہے۔جس سے بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوا ہے۔مودی جی کو للکارنا اور جیل جانا وغیرہ سب نورا کشتی ہیں۔ہریانہ الیکشن میں عام آدمی کو 1.79فیصد ووٹ ملا ہے۔اس کا کوئی امید وار دوسرے نمبر پربھی نہیں رہا۔کانگریس کو بی جے پی سے صرف اعشایہ 85فیصد ووٹ کم ملا ہے۔یعنی ایک فیصد سے بھی کم۔اگر عام آدمی پارٹی کو ملنے والا ووٹ کانگریس کو مل جاتا تو نتائج ایگزٹ پول کے مطابق ہی ہوتے۔اگر یہ دونوں جماعتیں مل کر الیکشن لڑتیں تو بی جے پی کو دس سیٹوں سے بھی کم سیٹیں حاصل ہوتیں۔بدقسمتی سے یہ گٹھ بندھن نہیں ہوا۔سنا ہے کہ کیجریوال صاحب اپنی اوقات سے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ کررہے تھے اور کانگریس سب کو اوقات میں رکھنا چاہتی ہے۔کانگریس کے اندر صبر اور دور اندیشی کا فقدان نظر آتا ہے۔وہ ہریانہ میں راہل کی مقبولیت اور ان کے جلسوں میں آنے بھیڑ سے یہ اندازہ لگارہی تھی کہ راہل کا جادو سر چڑھ کر بولے گا۔اسی غرور میں اس نے انڈیا گٹھ بندھن میں شامل جماعتوں سے کوئی اتحاد نہیں کیا۔

میری رائے میں کانگریس کو اکیلے دم پر الیکشن لڑنے کے لیے ابھی کم سے کم آیندہ پچاس سال انتظار کرنا چاہئے۔وہ اکیلے دم پر بی جے پی کو شکست نہیں دے سکتی۔ہم پارلیمانی الیکشن میں دیکھ چکے ہیں کہ انڈیا اتحاد کے باوجود بی جے پی حکومت سازی میں کامیاب رہی۔اس نے اپنے مخالفوں سے بھی ہاتھ ملایا اور ابن الوقتوں سے بھی۔جب کوئی بڑا گول سامنے ہوتا ہے اور کسی عظیم مقصد کا حصول پیش نظر ہوتا ہے تو دانشمندایسا ہی کرتے ہیں۔باوجود اس کے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں شدید قسم کی مخالفت ہے مگر اسے اتحاد کرنا چاہے تھا۔دوچار سیٹیں زیادہ دینے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا بلکہ بڑا فائدہ ہوتا۔آخر کانگریس محض 37سیٹیں جیت پائی باقی 53سیٹیں ہار گئی۔اگر وہ اپنی اپوزیشن جماعتوں میں پچیس تیس سیٹیں تقسیم کردیتی تب بھی اس کے پاس واضح اکثریت حاصل کرنے کے مواقع میسر رہتے۔

انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان آپسی انتشار کا ہوتا ہے۔پارٹی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔اپنوں کی ناراضگی غیروں کی نارضگی سے زیادہ نقصان دہ ہے۔راجستھان،مدھیہ پردیش اور اب ہریانہ کی ہار کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پارٹی اپنے اندرونی انتشار پر قابو نہ پاسکی۔کماری شیلجہ کی ناراضگی اس کو مہنگی پڑی۔وقت رہتے ہی اس کا سد باب کرنا چاہئے تھا۔لیڈر یا ورکر چھوٹا ہو یا بڑا سب کی اپنی اہمیت ہے۔

کانگریس کے لیے یہ اطمینان کی بات رہی کہ اس بار مجلس اتحاد المسلمین میدان میں نہیں تھی۔اگر کہیں اویسی صاحب مسلم اکثریتی سیٹوں پر پہنچ جاتے تو ان سیٹوں پر بھی نتیجے بدل سکتے تھے۔کانگریس کو اویسی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔اگر کہیں بھائی جان ہوتے تو کانگریس کی ہار کا سارا الزام ان کے سر چلا جاتا۔

کانگریس پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہوجانے سے یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ اب اس کے لیے راستا ہموار ہے۔جب کہ ایسا نہیں ہے۔پارلیمانی الیکشن میں اگر انڈیا اتحاد نہ ہوتا تو بی جے پی کو چارسو پار جانے سے کون روک سکتا تھا۔کانگریس اپنی جن کمزوریوں کی بنا پر ملکی اقتدار سے بے دخل ہوئی ہے وہ کمزوریاں اب بھی بڑی حد تک باقی ہیں۔داخلی جمہوریت کے بجائے خاندانی وراثت کا جلوہ اب بھی برقرار ہے اگرچہ کرسی صدارت پر کھڑگے جی ہی براجمان ہیں۔اسی طرح مسلمانوں کے تعلق سے اس کی پالیسی میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ہماچل میں مسجد تنازع میں کانگریس حکومت کا کردار اینٹی مسلم رہا۔گجرات میں مساجد،مزارات اور خانقاہوں کی مسماری پر لب کشائی کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔پارٹی شاید 1980کے نرم ہندتو کی راہ پر گامزن ہے۔جب کہ اسے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا چاہئے، چاہے وہ کسی بھی دھرم کے ہوں۔صرف اس لیے خاموش رہنا کہ بی جے پی اس کو مسلم پرست اور مسلم لیگ کہے گی انصاف کو نظر انداز کردینا ناانصافی ہے۔

کانگریس نے تقریباً پچاس سال بلا شرکت غیرملک پر حکومت کی۔کوئی اپوزیشن اس کے سامنے نہیں تھی۔ہر ریاست میں اس کی حکومت تھی۔اس کو بھارتی عوام خاص طور پر مسلمانوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔لیکن اس نے اپنے بہی خواہوں کے ساتھ کیا کیا؟لوگ کہتے ہیں کہ کالج،یونیورسٹیاں اسی کے زمانے میں قائم ہوئیں،ہوائی اڈے بنے،ملک کو ایٹمی طاقت حاصل ہوئی،یہ سب اس لیے ہوا کہ آپ پچاس سال حکمراں رہے۔لیکن ملک میں بدعنوانی کے واقعات میں اضافہ، طبقاتی منافرت میں شدت،مسلمانوں کی پسماندگی، پرائمری تعلیمی نظام کی بربادی،کس کے دور میں ہوئی؟کس کے دور حکومت میں علی گرھ مسلم یونیورسٹی کے لیے لاینحل مسائل کھڑے کیے گئے؟کس کے زمانے میں مسلم ریاستوں پر فوج کشی کی گئی اور ان کے ساتھ فریب کیا گیا؟جس بابری مسجد کے سہارے بی جے پی آج حکمرانی کررہی ہے اس کا موقع کس نے دیا؟کس کے زمانے میں مورتیاں رکھی گئیں؟تالا کس نے لگوایا؟کس نے اس میں پوجا کی اجازت دی اور کس نے مندر کا شلا نیاس کرایا؟اترپردیش سے اردو میڈیم اسکول کس کے دور حکومت میں ناپید ہوگئے؟سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی بدترین صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟مسلم کش فسادات کس کے زمانے میں ہوئے، میرٹھ، ملیانہ،ہاشم پورہ، مرادآباد، نیلی،بھاگلپور اور ممبئی کس کے زمانے میں مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہوئے؟کس نے اپنے دفاع کے لیے گولڈن ٹیمپل کی حرمت کو پامال کیا اور کس نے دہلی میں سکھوں کا قتل عام کیا؟وغیرہ وغیرہان واقعات کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ کانگریس اپنے غلط اقدامات کا جائزہ بھی لے اور اس کا کفارہ بھی ادا کرے۔ موجودہ حکومت کی کارروائیوں کو سند جواز عطا کرنے کے لیے قطعاًنہیں ہے۔

ہریانہ میں بی جے پی کی فتح اس لیے نہیں ہوئی ہے کہ اس کے کارناموں سے عوام خوش ہے۔چالیس فیصد ووٹ کا ملنا خود یہ ثابت کرتا ہے کہ ساٹھ فیصد ووٹرس اس سے ناراض ہے۔ہریانہ میں مسلم آبادی صرف آٹھ سے دس فیصد ہے۔یعنی بی جے پی سے ناراض ووٹرس کی بڑی تعداد غیر مسلم ہے۔لیکن ہمارا انتشار ان ووٹرس کو یکجا کرنے میں مانع رہا ہے۔اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر سامنے آتیں تو بی جے پی کے حامی ووٹرس کی قابل قدر تعداد بھی اپوزیشن کے ساتھ آجاتی۔خیر اب یوپی کے ضمنی اور مہاراشٹر و دہلی کے اسمبلی انتخابات سامنے ہیں۔کانگریس اور اپوزیشن جماعتوں کو حکمت و دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ان انتخابات میں انڈیا گٹھ بندھن کے بینر پر ہی میدان میں آنا چاہئے۔ورنہ نتائج اس سے بھی زیادہ برے ہوں گے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: