دين كے نام پر انتہا پسندى
✍️ ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ
________________
ہمارے ايكـ دوست ہيں مولانا عرفان الحق مظاہرى مدظله، ادب وشاعرى كا معيارى ذوق ركهتے ہيں، طبقۂ علماء ميں اس پايه كے با ذوق اشخاص بہت كم ہيں، انہوں نے كل "اسلامى لباس” كے عنوان سے شائع شده ميرى ايكـ تحرير پر تبصره كرتے ہوئے لكها:
"ہم جس تھانوی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں پانچ گوشیہ گولی ٹوپی نمبر ایک پر ہے، اگر کسی نے چوگوشیہ ٹوپی لگائی یا مارکیٹ میں گول ٹوپیاں جو بکتی ہیں گجرات، دلی سے سعودی عرب تک مختلف ناموں سے اس ٹوپی کو لگا کر ہم مسلک تھانویت کے اندر داخل نہیں ہوسکتے یا قابلِ قبول نہیں ہوسکتے، اور اگر کہیں لمبی دوپلیہ ٹوپی (جیسی ہمارے شیخ حضرت مولانا محمّد یونس صاحب جونپوری رحمہ اللہ لگاتے تھے یا حضرت مولانا علی میاں لگاتے تھے) لگالی تو معیار اسلامی مزید فروتر ہوجائےگا، جسے دیکھ کر ناگواری کا اثر چہرے یا الفاظ سے کبھی نہ کبھی ظاہر ہوہی جائے گا … اس کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہوگا کہ مشکل سے پانچ فیصد مسلمان ہی اسلامی لباس پہن رہے ہیں، باقی اپنے مزعومہ مسلک کے سوا پوری دنیا کے مسلمان غیر اسلامی لباس پہن رہے ہیں، اور جس کا لباس ہی غیر اسلامی ہوگا وہ دیندار کہلانے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے؟
اب ٹوپی سے آگے بڑھئے کرتا پر آئیے تو اس کی بھی مخصوص ہیئت ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کلی دار ہو، بغیر کلی والا بنگلا کرتا اس حلقے میں کسی طرح قابلِ قبول نہیں جو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے نام کی روٹی کھاتا ہے … یہی اسلامی لباس ہے، اس کے علاوہ سب غیر اسلامی لباس ہیں … بھلا یہ کہنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ آگے چلئے کرتے میں اگر پٹھانی سوٹ ہے جس میں نیچے دامن گولائی لئے ہوتا ہے اور آستین قمیض جیسی ہوتی ہے بٹن لگی ہوئی وہ بھی اسلامی لباس میں داخل نہیں، کیونکہ ہندوستان کے مخصوص حلقے میں اسے نہیں پہنا جاتا، اگر پٹھانی سوٹ نہیں ہے کرتے کی ہی ہیئت ہے صرف آستین میں اپنی کسی مصلحت سے بٹن لگالیا ہے تو اس حلقے میں وہ بھی ناپسندیدہ ہے۔
کرتے کے بعد پاجامے پر آئیے تو یہاں بھی آپ اپنی مرضی اور آسانی والا پاجاما پہن کر اسے اسلامی پاجاما نہیں کہہ سکتے، مہری بہت چوڑی نہ ہو اور مہری سے اوپر گٹھنے پر بھی زیادہ چوڑائی نہ ہو، ورنہ وہ سلمان خاں کا پاجاما ہوجائے گا جس کے پاجامے کی نقل کفر سے کم نہیں، بھلے گرمیوں میں اس چست پاجامے کی وجہ سے آپ کو اٹھنے بیٹھنے میں سخت دقتوں کا سامنا ہو اور پسینے کی وجہ سے اس پاجامے کو پہن کر نماز پڑھنا مشکل ہورہا ہو، لیکن آپ اس کی ہیئت نہیں تبدیل کرسکتے، اسی پر بس نہیں مہری میں سلائی اوپر ایک ہوگی نیچے دو ہوگی، اس کے خلاف اوپر دوسلائی کروالیا تو یہ بھی امرمنکر ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم کہاں تک اسلامی لباس کی تفصیل عرض کریں، اہل ندوہ جو چوڑا پاجاما پہنتے ہیں جسے ہمارے عرف میں تمبا کہا جاتا ہے اور جسے ہم نے مولانا علی میاں کو بھی پہنتے دیکھا ہے نیچے سے اوپر تک چوڑائی میں برابر، اس پاجامے پر تو طرح طرح کے فتوے ہیں جس کا ذکر غیر ضروری ہے”۔
ہمارے ايكـ اور دوست ہيں وه امام فتوى وامين "طرز كہن” ہيں، مگر ہم انہيں پير ومرشد كہتے ہيں، انہوں نے مندرجه بالا پوسٹ كے جواب ميں لكها: "کس نے اپنی پسند دوسروں پر تھوپی؟” درحقيقت پير ومرشد مقلد ہيں شتر مرغ كے، جس طرح شتر مرغ ريت ميں سر چهپا كر سمجهتا ہے كه پريشانى ٹل گئى، اسى طرح پير ومرشد مسائل سے آنكهيں بند كرنے كو ان كا حل تصور كرتے ہيں، جس چيز كى وه نفى كرديں وه معدوم ہے، بلكه وه شتر مرغ سے بهى دو قدم آگے ہيں، ان كا نظريه ہے كه عيب كو ہنر كا نام دے ديا جائے تو وه عيب نہيں رہتا، اسى قول سديد پر عمل كرتے ہوئے وه ہندوستان كے مدارس كے لباس كو اتقياء وصلحاء كا لباس كہتے ہيں، ان سے عرض كيا گيا كه نبى كريم صلى الله عليه وسلم تو رأس الاتقياء والصالحين تهے، پهر بهى ان كے لباس اور ابو جہل وابو لہب كے لباس ميں كوئى فرق نہيں تها، كہنے لگے: كہاں آپ جيسا پيغمبروں كا سردار اور كہاں ہم جيسے سراپا گنہگار؟ عرض كيا گيا كه صحابۂ كرام رضي الله عنہم كو آپ معيار حق كہتے ہيں، ان كے نزديكـ بهى اتقياء وغير اتقياء كے لباس ميں كوئى فرق نہيں تها، فرمانے لگے: صحابۂ كرام عقيدتًا معيار حق ہيں، عملاً نہيں، گزارش كى گئى كه پهر عملاً كون معيار حق ہے؟ فرمايا: ہندوستان كے مشائخ، پير ومرشد مشائخ ميں بهى درجه بندى كے قائل ہيں، چنانچه ان كے نزديكـ سب سے زياده اسلامى لباس وه ہے جو حكيم الامت مولانا اشرف على تهانوى رحمة الله عليه كے سٹائيل پر ہو، اگر كوئى شخص تهانه بهون كى خانقاه كے متصل واقع درزى كى دكان سے، كرتا، پائيجامه اور ٹوپى سلوائے، اور اس پر ايكـ رومال ڈال لے تو وه انسان سب سے زياده متقى اور صالح ہے۔
شايد ذہنوں ميں سوال اٹهے كه دين كے نام پر يه انتہا پسندى كہاں سے آئى؟
دين اصلاً معانى وحقائق كا نام ہے، اشكال ومظاہر كى حيثيت رسوم كى ہے، دين كے ابتدائى عہود ميں معانى وحقائق پر زور ہوتا ہے، اور دين كے ماننے والے ايكـ امت كى حيثيت سے متحد ہوتے ہيں، اور معانى وحقائق كے حصول ميں ايكـ دوسرے سے مسابقت كرتے ہيں، صحابۂ كرام رضي الله عنہم كى زندگيوں پر غور كريں، وه ايكـ قوم تهى جس كا ايمان پہاڑوں كى طرح غير متزلزل تها، توكل على رب العالمين اس كے ايمان كى انتہا تهى، اس كا دل خدا كى محبت اور اس كے خوف سے پر تها، اس كے اعمال كا محركـ تقوى تها، تسليم ورضا اس كے اسلام كى آخرى منزل تهى۔
پهر ايكـ قوم آئى جس نے آہسته آہسته اشكال ومظاہر كو دين بنا ديا، اس كے نزديكـ سارى اہميت كرتا، پائجامه ٹوپى اور رومال كى ہوگئى، ہم يه تصور نہيں كرسكتے كه ہندوستان كے كسى مدرسه كا شيخ الحديث يا عام مدرس پينٹ شرٹ پہنے، البته يه معمولى بات ہے كه وہى شيخ الحديث اور مدرس اسباق كا ناغه كرے، وقت كى پابندى نه كرے، مطالعه نه كرے، اور طلبه كا وقت ضائع كرے، جبكه پينٹ شرٹ پہننا كوئى گناه نہيں، اور امانت ميں خيانت كرنا گناه كبيره ہے، كوئى مدرس سگريٹ پيتا ہوا نظر نہيں آئے گا، ليكن ايسے بہت سے مدرس اور شيخ الحديث مل جائيں گے جو پان كهاتے ہيں، بلكه "گل” وغيره كا استعمال كرتے ہيں:
بر چہرۂ حقيقت اگر ماند پردۂ
جرم نگاه ديدۂ صورت پرست ما ست
افسوس كه رسوم كو دين كا نام ديديا گيا ہے، يه وه انتہا پسندى ہے جس ميں ہمارا ايكـ بڑا طبقه مبتلا ہے، دين كے حقائق مثلاً تقوى، امانت، صدق، خشوع، قنوت، محبت الہى، اخلاص اور خوف ميں كبهى انتہا پسندى نہيں ہوتى، انتہا پسندى جب بهى ہوتى ہے مظاہر اور اشكال ورسوم ميں ہوتى ہے۔
آخر ميں يه عرض كردوں كه مجهے كسى قسم كے لباس سے كوئى ناگوارى نہيں، ميں خود زياده تر كرتا پائيجامه ہى پہنتا ہوں، البته شكايت ان لوگوں سے ہے جو صرف اپنے لباس كو اسلامى يا زياده اسلامى سمجهتے ہيں، لباس ظاہر كى بنا پر خود كو بہتر تصور كرتے ہيں، دوسرے مسلمانوں كو حقارت كى نگاه سے ديكهتے ہيں، اور رسوم وعادات پر حقائق ومعانى كى بهينٹ چڑهاتے ہيں:
تا تو بيدار شوى ناله كشيدم ورنه
عشق كاريست كه بے آه وفغاں نيز كںد
كاش يه اظہر من الشمس سچائى ہم پر واضح ہو جائے كه كوئى پوشاكـ دوسرى پوشاكـ سے بہتر نہيں، كاش يه حقيقت ہمارى سمجهـ ميں آجائے كه فضيلت كا معيار صرف تقوى ہے، رسوم ومظاہر نہيں: "إن أكرمكم عند الله أتقاكم”۔
الله تعالى ہمين عقل ودين كى نعمت سے نوازے۔