محبت
محبت
✍️کامران غنی صبا
صدر شعبئہ اردو نتیشور کالج، مظفرپور
___________________
محبت اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے. اللہ جب کسی بندے پر مہربان ہوتا ہے اس کے وجود کو محبت سے مزین کر دیتا ہے. جس ذات اقدس پر وہ سب سے زیادہ مہربان ہوا اسے رحمت اللعالمین بنا دیا اور اس ذات سے محبت کو "فرض علی المسلمین” کر دیا. محبت ایمان کی طرح ایک ایسی دولت ہے جس کی قیمت کا اندازہ ہر کسی کو نہیں ہو سکتا. ایمان کی ضد کفر ہے لیکن ایمان اور کفر کے درمیان ایک علاقہ "منافقت” کا بھی ہے. محبت کی ضد نفرت ہے اور محبت اور نفرت کے درمیان ایک علاقہ "ریاکاری” کا ہے. منافقت اور ریاکاری عذاب الہی کی تمہید ہے.
محبت ایک الہامی جذبہ ہے. اس جذبے کو "یقینِ محکم” اور "عمل ِ پیہم” کا لمس عطا ہو جائے تو نتیجہ "فاتح عالم” آتا ہے.
محبت کا معروضی مطالعہ ممکن نہیں ہے. ہم زندگی بھر "وقنا عذاب النار” کا ورد کرتے ہیں. آگ سے پناہ مانگتے ہیں لیکن جب محبت کو امتحان سے گزارا جاتا ہے تو معروضیت یعنی عقل محو تماشا رہ جاتی ہے اور محبت کے لیے” بَرْدًا وَّ سَلٰمًا” کا ایسا فیصلہ نازل ہوتا ہے جسے معروضیت کی کسی تجربہ گاہ میں سمجھایا نہیں جا سکتا.
جس طرح ایمان کے لباس میں منافقت ہر دور میں موجود رہی ہے اسی طرح محبت کے لباس میں ریاکاری نے بڑے بڑے کرشمے دکھائے ہیں. محبت کے علم برداروں نے نفرت کی ایسی ایسی تاریخیں رقم کی ہیں کہ تاریخ انسانیت کا ورق لہو لہو ہے. محبت کا سب سے زیادہ غلط استعمال مذہب کے نام پر ہوا ہے. مذہب سے محبت کرنے والوں نے صرف مذہب سے محبت کی ہے. مذہب والوں سے نہیں. بلکہ اپنے مذہب کے خدا سے بھی نہیں. مذہب والا صرف مذہب کو سربلند دیکھنا چاہتا ہے. وہ جس مذہب کو مانتا ہے اسی مذہب کو ماننے والے بے شمار لوگ ننگے بھوکے مر جائیں اسے کوئی فرق نہیں پڑھتا. وہ اپنے آس پاس کے "مذہبی بھائیوں” کے معاشی مسائل سے چشم پوشی کرتا ہے اور اپنا زیادہ سےزیادہ وقت "مذہبی پاٹھ” میں گزارتا ہے. مذہب والا اپنے خالق کو بھی نہیں مانتا. بس دعویٰ کرتا ہے. اگر مانتا تو اس کی مخلوق سے محبت کرتا. ممکن ہے وہ صرف خالق کو مانتا ہو مخلوق کو نہیں. ابلیس نے بھی صرف مخلوق کو ماننے سے انکار کیا تھا، وہ خالق کا انکاری نہیں تھا.
نفرت کے شعلے مذہبی خیمے میں ہر زمانے میں بھڑکتے رہے ہیں. مذہب والوں نے جنت جہنم کے جملہ حقوق اپنے پاس محفوظ کر لیے ہیں. ایک مذہب میں کئی کئی شاخیں ہیں، ہر شاخ والا یہ چاہتا ہے جنت جہنم کا "کاپی رائیٹ” اس کے پاس ہو. یہ کاپی رائٹ شاید محبت سے نہیں مانگا جا سکتا، اسے چھیننا پڑتا ہے اور شدید ترین قسم کی نفرت کے بغیر اسے چھینا نہیں جا سکتا.
تکبر، انا، تعصب، احساس برتری، خود نمائی، خود پسندی، ریاکاری، چیخ و پکار وغیرہ نفرت کے خطرناک اسلحے ہیں. نفرت کا سب سے خطرناک اسلحہ "دلیل” ہے. "دلائل” جتنے مضبوط ہوں گے نفرت اسی قدر فروغ پائے گی. دلائل کمزور ہونے پر نفرت چیخنے لگتی ہے. "دلیل” تو محبت کے پاس بھی ہوتی ہے لیکن اسے چیخنا نہیں آتا. یہی وجہ ہے کہ بے شمار دلائل رکھنے کے باوجود کئی بار محبت ہار جاتی ہے. محبت کی شکست میں بھی فتح کی لذت ہوتی ہے اور نفرت فتحیاب ہو کر بھی اپنے اندرون میں شکست کا ماتم منا رہی ہوتی ہے.
اطاعت کے بغیر محبت ایک فریب ہے. محبت میں محبوب کے صرف اقوال کی اطاعت نہیں ہوتی. اشارات کی بھی اطاعت ہوتی ہے. محبت کا سب سے خطرناک بہروپ یہ ہے کہ مجلس میں محبوب کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والا تنہائی میں محبوب کے دشمنوں جیسے افعال انجام دے.
محبت کو سمجھنا، خدا کو سمجھنے جیسا ہے. اگر مطالعہ سے سمجھا جائے تو بہت آسان اور مشاہدہ سے سمجھا جائے تو بہت ہی مشکل. مطالعہ اہل علم کا شیوہ ہے اور مشاہدہ اہلِ دل کا. اہلِ علم معروضیت کی راہ پر چلتے ہیں، اہلِ دل محبوبیت کی راہ پر. واصف علی واصف صاحب نے کیا ہی دل کو چھوتی ہوئی بات کہی ہے کہ زمین کے سفر میں اگر کوئی شئے آسمانی ہے تو وہ محبت ہے.
محبت کی معراج یہ ہے کہ خدا اگر ہمیں جنت کا فیصلہ صادر کرنے کا اختیار دے دے تو اس کی جنت میں سب سے پہلے ہم اپنے دشمن کو داخل کر دیں لیکن ابھی تو ہمیں اپنے دوستوں کو ہی جہنم بھیجنے سے فرصت نہیں ہے.