بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ، جارحانہ فرقہ پرستی

بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ، جارحانہ فرقہ پرستی

✍️مولاناعبدالحمید نعمانی

___________________

جارحانہ فرقہ پرستی، بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، باقی سارے متنازعہ مسائل اس کے برگ و بار اور نتائج و اثرات ہیں، تشدد، فسادات، ہجومی حملے، اقلیتوں خصوصا مسلم اقلیت کو تہذیبی، اقتصادی اور سیاسی و سماجی لحاظ سے دیوار سے لگا کر ذہنی طور سے پوری طرح توڑ دینے کی کوششیں بھی، جارحانہ فرقہ پرستی ہی کی پیدا وار ہیں، اس سلسلے میں ملی رہ نماؤں کی طرف سے ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت، شدت سے محسوس ہوتی ہے، ان کو ہندو مت اور ہندوتو، عام ہندو اور ہندوتو وادیوں کے درمیان، واضح فرق و امتیاز کر کے، فکر و عمل کی سمت میں آگے بڑھنا ہوگا، ہندو مت اور عام ہندوؤں کو دیگر مذاہب اور ان کے پیرو کاروں کے تناظر میں دیکھنے میں میں کوئی ہرج و دقت نہیں ہے، ایک سیکولر جمہوری نظام حکومت میں آئین کی عطا کردہ آزادی کے تحت، ملک کے تمام باشندوں کو اپنے اپنے پسندیدہ عقائد و روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور سب، بغیر کسی تفریق و امتیاز کے برابر کے شہری ہیں، اس معاملے میں اکثریت و اقلیت کے حوالے سے، اعلی و ادنی کا کوئی سوال قطعی بے معنی ہے جیسا کہ گاندھی جی نے مختلف مواقع پر بالکل واضح الفاظ و اسالیب میں کہا ہے، اس کے برعکس، مودی، یوگی، ہیمنت بسوا سرما، گری راج سنگھ، پردیپ کمار, آر ایس ایس، بی جے پی کے کئی سارے لیڈر اور نام نہاد آچاریہ، منڈلیشور، دھرم گرو وغیرہم جس طرح ہندوؤں اور ہندو مت کو بھارت کے اصل باشندے دھرم کے طور پر پیش کر کے دیگر باشندوں اور مذاہب کو تابع، محکوم اور غیر ملکی باور کرانے کی جو کوششیں کرتے نظر آتے ہیں وہ قطعی بے بنیاد، دماغی فساد اور مذموم تفوق پسندی پر مبنی ہیں، ان کا ہندو دھرم، تاریخ اور آئین ہند سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس سلسلے کے پیش کردہ مفروضات کو سختی سے مسترد کرنے کے ساتھ ضروری سوالات بھی آٹھانے کی ضرورت ہے، یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو مت کے برخلاف ہندوتو ایک جارحانہ منفی سیاسی نظریہ ہے اور ہندوتو وادی لازما فرقہ پرست ہوتے ہیں، جب کہ ساورکر نے اپنی کتاب ہندوتو میں بالکل غلط طور سے، بغیر کسی مذہبی اور تاریخی و آئینی دلیل و ثبوت کے ہندو مت کو ہندوتو کا جزو اور ہندوتو وادیوں کو راشٹر وادی قرار دیا ہے،،یہ کتاب، سنگھ بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار اور دوسرے سنگھ سرسنچالک مادھو سدا شیو گرو گولولکر جیسے ہندوتو کے علمبرداروں کے لیے ایک گائیڈ بک کی حیثیت رکھتی ہے، یہی سے ہندو دھرم اور ہندو سماج و روایات کو پٹری سے اتارنے کا آغاز ہوتا ہے لیکن بڑی ہوشیاری سے اسے بھارت کی اصل سنسکرتی باور کرانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کوششیں، موثر مزاحمت نہ ہونے اور تقسیم وطن سے پیدا شدہ مخصوص ماحول و حالات میں بڑی حد تک کامیاب ہیں، تاہم یہ امید افزا بات ہے کہ جارحانہ فرقہ پرستی پر مبنی، مختلف سطحوں پر، جاری کوششوں کی مزاحمت بھی ہوتی رہی ہے، ویسے بھی منفی جارحانہ فرقہ وارانہ کوششوں میں نہ تو پائیداری ہوتی ہے اور نہ ان کے مثبت بہتر نتائج و اثرات برآمد و مرتب ہوتے ہیں، سنگھ سربراہ ڈاکٹر موہن راو بھاگوت، ملک میں منفی جارحانہ فرقہ پرستی کے ابھار کو خوبصورت الفاظ کے انتخاب کے ساتھ جس طرح متضاد و متصادم باتوں سے بھارت کی ترقی و توانائی باور کرانے کی گمراہ کن سعی کرتے رہتے ہیں وہ سنگھ کے مخصوص کردار و مقاصد کا حصہ ہے، اسے فاشزم کا عروج اور تباہ کن وقتی سیاسی کامیابی تو کہا جا سکتا ہے لیکن بھارت کا بھوشیہ اور چرتروان (با کردار ) سماج کی تشکیل و تعمیر کا نام تو کسی بھی لحاظ سے نہیں دیا جا سکتا ہے، حیرت کی بات ہے کہ ان کی اور مسلم راشٹریہ منچ کے سرپرست اندریش کمار وغیرہم کی طرف سے زبردستی جے شری رام کہلوانے کی راکشسی مہم اور بھارت میں رہنے کے لیے ہندو ہونے کی شرط لگانے کی مذموم حرکتوں کی واضح مذمت و تغلیط نہیں کی جاتی ہے، جب کہ ایسے علم و آگہی سے دور و نفور لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ ہندو ہونے کے لیے کیا ضروری ہے اور کیا ضروری نہیں ہے، جب کہ ڈاکٹر بھاگوت کہتے اور مانتے ہیں کہ ہندستان کے تمام باشندے ہندو ہیں، چاہے ان کا مذہب اور طریق عبادات کچھ بھی ہوں، ایسی حالت میں ہندو ہونے کا مطالبہ سراسر جہالت و ضلالت ہے، مختلف مذاہب و روایات کا حامل بھارت کے تمام باشندوں سے ہندو ہونے کا مطالبہ، آئین پر سیدھا سیدھا حملہ ہے، بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا دو قومی نظریہ اور الگ الگ مذہب و ثقافت کی بنیاد پر تقسیم وطن کی تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے، دو قومی نظریے کے داعی و حامی ساورکر و جناح تھے نہ کہ بھارت میں رہنے والے، دو قومی نظریہ کے مخالف، مولانا آزاد رح اور مولانا مدنی رح، اس لحاظ سے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں سے کلی تبادلہ آبادی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہندو تنگ نظری کے نتیجے میں پیدا تحریک پاکستان سے کوئی لینا دینا ہے، اس سلسلے میں، گری راج سنگھ جیسے برٹش سامراج کے ساتھ کھڑے رہنے والے عناصر کی اولادوں کا بار بار، مسلمانوں کے متعلق، پاکستان لے کر بھی بھارت میں رہ جانے کا راگ الاپنا، تاریخ اور اصل صورت حال سے جہالت پر مبنی ہے، اس سلسلے میں موثر جواب دینے اور ہندوتو وادی عناصر کو، کسی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے، اس تعلق سے مسلم قیادت سے بجا طور سے ایک موثر کردار ادا کرنے کی امید کی جاتی ہے، اس کے متعلق، ان دیکھی اور گریز کی پالیسی، مضر اور مسلم اقلیت میں مایوسی و اضطراب بڑھانے والی ہے، یہ افسوس ناک ہے کہ بھارت میں اقلیتوں خصوصا مسلم اقلیت اور کمزوروں کے ساتھ سرکاری اتھارٹیز اور اقتدار عموما کھڑا نظر نہیں آتا ہے، جب بنگلہ دیش تک میں اس کے برعکس معاملہ نظر آتا ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ ملک کی اکثریتی سماج کی ایک بڑی تعداد، کردار کے زبردست بحران میں مبتلا اور اخلاقی دیوالیہ کی شکار ہے، پیری یار نے کہا ہے کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اقلیتوں و کمزوروں کے ساتھ کھڑا ہوا جائے، اس پر ہندو قائدین اور دھرم گروؤں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہندو اکثریتی سماج کا ایک بڑا حصہ، مسجد، مدرسہ، مزار مسلم کو لے کر تنگ نظری، حسد اور جلن میں مبتلا ہے، اسے نماز، اذان، برقع، داڈھی وغیرہ سے بے چینی اور اذیت کیوں ہوتی ہے؟جب کہ مسلمان، مندر، آرتی، کانوڑ یاترا، رتجگے ، بھجن کرتن، پوجا پاٹ سے کوئی دقت و اذیت کا کوئی اظہار نہیں کرتے ہیں، ڈاکٹر بھاگوت کہتے ہیں کہ ہندو ،سب کو گلے لگاتا ہے، لیکن ایسا عمل اور زمین پر نظر نہیں آتا ہے، ان کے سمیت دیگر ہندوتو وادی لیڈر دلیل و ثبوت سے عاری یک طرفہ باتیں کرتے نظر آتے ہیں، سنگھ نے یوگی کے نعرے” بٹو گے تو کٹو گے کو اپنا کر پست تر فکر و عمل کا ثبوت دیا ہے، بھارت کے سوا دنیا کے کسی ملک کی اکثریت، اس طرح خوف کی سیاست نہیں کرتی ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ آر ایس ایس کے پاس، سماج کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی توانا فکر و عمل کا نمونہ نہیں ہے، ملک ،ایک طرح کے فاشزم کی زد میں آ جانے کے باوجود، بدلتے مضبوط بھارت اور ہندوتو، ہندو سنسکرتی کے عروج کی صدی ہونے کی باتوں کا کوئی زیادہ معنی نہیں ہے، ملک میں جارحانہ فرقہ پرستی اور توڑ پھوڑ کی سیاست کا بول بالا ہے، اسے ختم کیے بغیر بھارت کے روشن مستقبل اور بہتر حال کی بات، بامعنی نہیں ہو سکتی ہے، بھارت کے وشو گرو بننے کی راہ میں، ہندوتو پر مبنی، جارحانہ فرقہ پرستی اور تنگ نظری سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس تناظر میں یہ سوال قابل توجہ ہے کہ ہندو اکثریت کے ملک، بھارت میں اس کے اقتدار اور طاقت میں ہونے کی حالت میں فرقہ وارانہ صورت حال نا گفتہ بہ کیوں بنی رہتی ہے؟۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔