سیمانچل کے مدارس: دردو کرب کے آنسو

سیمانچل کے مدارس: دردو کرب کے آنسو

جلتا سورج ٹھنڈ چھاؤں کی ناکام کوشش میں میرے ارد گرد گھوم رہا تھا،کچھ دیر کے لیے اپنی رفاقت سے ہمیں دور کرنے کی اپنی پرانی روش پر اٹل تھا، اس سے جدا ہونے سے قبل گھر کی روشنیوں میں اپنے آپ کو قید کی فکر لیے پٹرول کے سہارے میرا ساکن جسم کافی تیز حرکت کی رفتار پر پا بہ رکاب تھا،آنکھیں بھی شمال وجنوب سمیت مغرب جانب بھی آنکھ مچولی کررہی تھیں کہ یکایک ایک نورانی بھیڑ پر نظر اٹک گئ،سات آٹھ سالہ بچوں کی ایک لمبی ٹیم ہے،مذہبی حلیہ اور مخصوص ڈریس زیب تن ہے،کسی کا کرتا سفید تو کسی کا پائجامہ رنگین ہے،کسی کی ٹوپی سرسے بڑی تو کسی کا ازار فرش کو سلامی دے رہا ہے،کسی کی ناک سے ندیاں بہہ رہی ہیں تو کسی کی آنکھیں شکوہ کناں ہیں،کوئ ہوائ چپل سے گرد اڑا رہا ہے تو کسی نے تسمہ سے پیروں کو جکڑ رکھا ہے،کسی کے سامنے پھٹا پرانا بیگ پڑا ہے تو کسی کے ہاتھوں اٹیچی قید ہیں،کسی کے سر پر ماں کی دست شفقت ہے تو کوئ گوشۂ پدری میں سرگوشی کررہا ہے،اُجلےاورمیلے کا حسین امتزاج،پندو نصائح کا بہترین مجمعہ،حوصلہ،ہمت اور کچھ کرنے کی گفتگو بھی عام دکھ رہی تھی،مایوس دل پر چہرہ ضرور خوش نظر آرہاتھا، مگر لخت جگر کی جدائیگی پر جگر اندر ہی اندر گھلُ بھی رہا تھا،مجھے اس نظارے پراپنے آپ کو بریک لینا پڑا،اتنی بھیڑ اس چوراہے پر خلاف توقع آج کیوں ہے؟جواب ملا "ہمر بیٹا پچھم پڑھے لی جیئ چِھی”

آدمی کم پڑھا لکھا ہی نہیں بل کہ انگوٹھا چھاپ تھا،اپنی جہالت پر ماتم کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود لنگی تانے معصوم کے دونوں ٹانگوں کو پائجامے میں ڈال کر بڑے دُلار سے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا،کبھی ماتھے کو چومتا، کبھی سینے سے چپکاتا، کبھی پیشانی کو بوسہ لیتا،کبھی گود میں اٹھاتا،مجھے ان کے اس قدر پیار سے محسوس ہوا کہیں اِن کا اکلوتا چشم وچراغ تو نہیں،میرا خیال سہی نکلا اور بندہ بِن پوچھے بول بیٹھا”کِی بُولبو مُولبی ساب ِیِہا ٹ بیٹا چھا” جذبات پر کنٹرول کا جیتا جاگتا نمونہ دیکھ کر مجھے اپنی منزل کی طرف بڑھنا پڑا،سورج اپنا کام کر چکاتھا،رفاقت ان کی چِھن چکی تھی ادھر اس دل سوز منظر سے میرا قلب چھلنی چھلنی ہورہا تھا،پنچایت ہی نہیں گاؤں گاؤں مدرسہ آباد ہے،محلہ ہی نہیں گھر گھر مکتب کا نظام ہے،بلاک ہی نہیں ضلع ضلع میں بڑے بڑے ادارے، صاحب استعداد اساتذہ اور لائق فائق منتظم و مہتمم موجود ہیں، ان کے باوجود کم سِنوں کی اتنی بڑی جماعت "حروف ابجد” کی شناخت کے لیے سینکڑوں میل کے لئے رخت سفر باندھے کھڑی ہے،ایک رہبر ہیں، سفید لباس پر کالی صدری سے اپنی خوب صورتی میں اچھا خاصہ اضافہ فرمارہے ہیں، آخر علم کاکون ساکیپسُل یا ٹیبلیٹ ہے جو ان بچوں کو وہاں گھول کر پلایا جاۓ گا، جو امام غزالی اور ابن تیمیہ کو مات دے گا؟آخر کون سی وہ اکسیر ہے جس سے تربیت وپرداخت میں وہ کشش پیدا ہوگی جو یہاں نہیں ہوسکتی ہے،دور کا ڈھول یا دور کا رِشتہ آخر اتنا سہانا کیوں کر ہورہا ہے؟میں خود سائل اور مجیب بن کر یہ معمہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا مگر کوئ ٹھوس وجہ اور معقول سبب نظر نہیں آیا،غربت ،افلاس،معاشی تنگی،وسائل کی کمی اور اسباب کے بہتات سے ہمارا علاقہ ضرور عاری ہے مگر علم اور صاحب علم سے خالی نہیں ہے،کرایے اور مسجدوں کے حجروں میں چلنے والے اداروں سے ہمارےگھاس اور چھپر کے مدارس بہتر ہیں، ذلت کے قورمہ اور بریانی سے ہمارے مطبخ کا پکوان لاکہا درجہ بہتر ہے اور انھیں اداروں پر ہمیں فخر بھی زیادہ ہے،سائیکل پر جھولا، جھولے میں مدرسے کی رسید،کندھے پر بورا اور بورا میں خلوص سے بھرا خزانہ ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے صاحب جبہ ودستار کے در پر مانگنے کی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی صعوبت اور بے جا نخرےسے،ہمارے کچھ دوست ہیں جنھیں مکتب سے مطلب ہے اور نہ ہی مدرسہ سے، لیکن مشورہ ضرور دیتے ہیں،الزام ضرور دھرتے ہیں،الول جلول ضرور بکتے ہیں، خود تو کرتے نہیں لیکن کرنے والوں کو انگلی ضرور کرتے ہیں،یہاں تو تعطیل بہت ہوتی ہے،یہاں کے مہتمم تو بہت لاخیرے ہوتے ہیں،یہاں تو قول وعمل میں کافی تضاد ہے،یہاں تو کھانا اچھا نہیں دیا جاتاہے،یہاں تو اساتذہ دل جمعی سے نہیں پڑھاتے ہیں،یہاں تو بچوں سے کام کرایا جاتا ہے،یہاں تو بچوں سے چندہ کرایاجاتاہے جیسے دسیوں الزامات اور اتہامات کے بازار سجاۓاور لگاۓ جاتے ہیں،میرے دوست آپ کے سارے شکوے گلے سرخم تسلیم ہیں، مگر آپ بھی تو آئیے اور اس بگڑے میکدے کی تصویر کو اچھی شکل دیجئے،آج بھی ہم اور ہماری ٹیم گاؤں گاؤں قریہ قریہ نو نہالوں کی باز یابی کے لیے پھر رہے ہیں،ہاتھوں میں اشتہار لیے سرپرستوں سے بچے وصول رہے ہیں،آپ بچے دیں ہم بہتر تعلیم اور اچھی تربیت دین گے کا وعدہ لئے گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں اور آپ بڑی آسانی سے ہمیں کاہل،کام چور،سخت اور سست جیسے القابات سے نواز رہے ہیں کیا یہی انعام اور اکرام ہے آپ کا،کیایہی انصاف ہے آپ کا؟

مختلف صوبوں کا تلخ تجربہ ہماری بھی ٹیم کو حاصل ہے،بچے اوربچیوں کی عظیم اداروں میں ہم نے بھی دشت سیاحی کی ہے،قریب سے اپنے اور پرائے مقامات کا دیدار ہم نے بھی کیا ہے، جو صالحیت،صلاحیت اور نظم ونسق اپنی مٹی میں ملا ہے وہ دوسری جگہ نہیں ہے، البتہ ظاہری چمک دمک، تصنع، بناوٹ،رنگ وروپ اور لگزریس میں ہم پیچھے ضرور ہیں،فصلی موسموں کی لمبی تعطیل اور تعلیمی خسارے پر ہم فکر مند بھی ہیں لیکن طبعیت اور تربیت میں انکساری اور عاجزی کے لیے طلباء سے گاہے بہ گاہے مشق بھی ضروری سمجھتے ہیں،اپنی مٹی کا آٹھ سالہ میرا تجربہ مجھے ہی نہیں ہم جیسے کئیوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے،ماں کی گود سے آزادی ملتے ہی ہمیں سونپ دیا جاتا ہے،ازار باندھنے سے ناک جھاڑنے تک کا کام ہم سے لیا جاتا ہے،ہاتھ دھونے سے وضو کرنے کا علم ہم سے لیا جاتا ہے،رسم بسم اللہ کی ابتداء ہم سے ہوتی ہے،جیم کے پیٹ میں ایک نقطہ اور دال خالی کا مشق ہم سے کرایا جاتا ہے،مفردات سے مرکبات،سہ حرفی سے پنج حرفی کی پہچان ہم دیتے ہیں،گنتی،پہاڑہ اور کلمہ کو یاد کرائیں ہم؛  اور پھرآئندہ سال فُر……….. یہ ہے بے وفائی اس باوفا ماٹی کی

ہزاروں اجلاس ہوۓ،کم سنوں کو علاقائی اداروں میں تعلیم وتربیت کا پاٹھ پڑھایا گیا،ملک کے حالات،راستے میں گھٹے واقعات اور مختلف پیش آنے والے معاملات سے آگاہ کیا گیا،پمفلٹ اور اشتہار سے گارجین کو ہدایت کی گئی،مگر واہ رے بے حِسی واہ نہ ہم ماننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی سننے کے لیے،اگر کچھ عقل وشعور والے ماں بھی جائیں تو ہمارے بیچ کے کمیشن خور سر سبز باغ دکھاکر انھیں بے وقوف بناجاتے ہیں،ایک بچے پر پانچ ہزار کا بزنس پھر تیس پینتیس بچوں پر بیس پچیس کے ٹکٹس کا دھندہ بھی زوروں پر رہتا ہے،نتیجہ شعبان میں آۓ دن دیکھنے کو ملتا ہے سال بھر میں نورانی قاعدے کی چند تختیاں وہ بھی کافی کمزور،املا،نقل،ہندی، انگلش اور حساب کا کیا کہنا؟

میرے دوست اپنے جگر کے ٹکڑوں کوباہر بھیجیے۔  لیکن شعور کی دہلیز پہونچنے سے قبل نہیں،علاقائی اداروں میں زندگی کے شروعاتی دور گزارنے سے علاقائی تہذیب و تمدن میں جہاں بُہتری آۓ گی وہیں اپنوں سے عقیدت ومحبت  بھی بڑھے گی۔

Exit mobile version