مدارس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ تاریخی اور خوش آئند: مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
__________________
پٹنہ/سیل رواں:
سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ۲۲؍مارچ ۲۰۲۴ء کے اس فیصلہ کو مسترد کردیا، جس میں اترپردیش مدرسہ ایکٹ ۲۰۰۴ کو غیر آئینی اور سیکولرزم کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت اب مدارس چلتے رہیں گے اور اس میں بچے پڑھتے رہیں گے۔ مدارس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تاریخی اور خوش آئند ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے پریس ریلیز میں کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مدارس میں جو طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ عموماً غریب اور مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں جو فیس دے کر اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتےہیں۔ مدارس میں مفت تعلیم اور مفت قیام وطعام کا انتظام کیا جاتا ہے، اس لئے ایسے طلبہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ، مدارس کا ملک کی تحریک آزادی میں اہم رول رہا ہے، یہاں قومی یکجہتی اور اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے، مدارس کا بالخصوص مسلم سماج میں شرح خواندگی بڑھانے میں اہم رول ہے، یہ مدارس اچھا اور مثالی شہری پیدا کرتے ہیں جو ہر وقت ملک وملت کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یوپی بورڈ سےملحق مدارس کے سلسلہ میں ہے، پھر بھی یہ فیصلہ جملہ مدارس پر محیط ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حق تعلیم ایکٹ کا نفاذ مدارس پر نہیں ہوگا، چونکہ مدارس اس سے مستثنیٰ ہیں، یہ ادارہ ملک کے آئین کے آرٹیکل A 21کے مطابق ہیں، اقلیتوں کو اپنے اداروں کے قیام اور انتظام کا حق حاصل ہے۔سپریم کورٹ نے آرٹیکل A 21اور رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کو مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق سے جوڑتے ہوئے کہا کہ مدارس اپنے مذہبی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے سیکولر تعلیم دے سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک کے دیگر صوبوں کے لئے بھی راحت کا سامان فراہم کرائے گا، بالخصوص مدرسہ بورڈ اور ملحقہ مدارس کے لئے یہ فیصلہ نہایت ہی اہم ہے، ریاستی حکومت کے اختیارات کے پیش نظر سپریم کورٹ کے فیصلہ میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کو اس کا اختیار ہوگا کہ وہ مدارس کو ریگولیٹ کرے تاکہ وہاں تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جاسکے، اس لئے اہل مدارس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مدارس میں معیاری تعلیم کو یقینی بنانے پر توجہ دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے صوبہ بہار میں بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ہے جو ۱۹۲۲ء میں قائم ہوا اور ایکٹ ۱۹۸۱ کے ذریعہ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ قرار دیا گیا۔ بہار مدرسہ بورڈ کا ایکٹ بنگال کے علاوہ ملک کے تمام صوبوں کے لئے رہنما ہے، چونکہ اس کا ایکٹ ۱۹۸۱میں بنا اور بہت مقبول ہوا، یہ ایکٹ بھی مدارس کو اقلیتی ادارے تسلیم کرتا ہے۔ البتہ محکمۂ تعلیم نے بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ ۱۹۸۱ء کو نئے نوٹیفکیشن کے ذریعہ مدارس کے اقلیتی کردار اور مدرسہ بورڈ کی خودمختاری کو محدود کردیا ہے، جس کی وجہ سے مدارس ملحقہ اور بہار مدرسہ بورڈ دونوں مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس لئے حکومت بہار سے اپیل ہے کہ نئے نوٹیفکیشن کو واپس لے یا اس میں ترمیم کرکے بہار مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۸۱ء کی پابندی کی جائے۔ اس موقع پر جمعیت علماء ہند اور یوپی مدرسہ ٹیچرس ایسوسی ایشن کا عمل بھی قابل ستائش ہے کہ ان دونوں تنظیموں نے مدارس کے سلسلہ میں بروقت سپریم کورٹ سے رجوع کیا ، جس کے نتیجہ میں یہ تاریخی فیصلہ آیا۔