مہاراشٹر اسمبلی انتخابات: یہ وقت سجدے کا نہیں قیام کا ہے
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات: یہ وقت سجدے کا نہیں قیام کا ہے!!
از: جاوید اختر بھارتی
( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
_____________________
نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر ،، عالمی شہرت یافتہ مسلم رہنما مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نےحال ہی میں پریس کانفرنس کے دوران اپنے بیان میں کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مہاراشٹر کے 2024 اسمبلی انتخابات غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ جس کا اثر صرف صوبے کے مستقبل پر نہیں بلکہ ملک کے مستقبل پر پڑنے والا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ویسے تو ہر الیکشن ملک میں جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہوتا ہے۔
مولانا سجاد نعمانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے اور ہماری پوری ٹیم نے پچھلے ایک ماہ میں مہاراشٹر کے ممتاز رہنماؤں، دانشوران اور سماج کے الگ الگ طبقے، مختلف سماجی اکائیوں سے تعلق رکھنے والوں سے ملاقات کر اسمبلی انتخابات پر تبادلہ خیال کیا۔ اُن سب سے مشورہ کرنے اور اپنی ٹیم کو مہاراشٹر کی مختلف اسمبلی حلقوں میں بھیج کر اور بہت گہرے غور و خوض کے بعد ملک کی سالمیت، اتحاد اور خاص طور پر ہمارے آئین کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک رائے قائم کی ہے۔
مولانا نعمانی نے بتایا کہ ایک ایک سیٹ کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد اور بہت تفصیلی ریسرچ، زمینی سروے کرنے کے بعد، ہم اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ مہا وکاس اگھاڑی کی 269 سیٹوں پر تائید کی جائے۔ اس کے علاوہ چند سیٹوں پر دوسری پارٹی کے امیدواروں کے تائید کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 169 مراٹھا اور او بی سی امیدوار کے نمائندوں کی تائید ہم کر رہے ہیں۔ لنگایت، جین اور دوسرے طبقات جن کی تعداد 40 ہے۔ 53 ایس سی، ایس ٹی سماج کے امیدوار کی تائید کا فیصلہ کیا گیا ہے اور 23 مسلم امیدواروں کے سپورٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مولانا سجاد نعمانی نے کہا کہ ہم ان سبھی امیدواروں کی کامیابی کی دل سے تمنا کرتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ بھائی اور بہن ملک کی ہر پہلو سے ترقی اور سالمیت، آئین کے تحفظ کے لئے بھرپور طریقے سے کام کریں گے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اس الیکشن کے نتائج کے ذریعے جمہوریت اور ملک کا دستور مزید مضبوط ہوگا اور اُن کی مخالفت کرنے والی طاقتیں کمزور ہوں گی۔ مہاراشٹر کے ایک ایک ووٹرز سے اپیل کرتے ہیں کہ سو فیصد حقِ رائے دہی کا استعمال کریں۔ ہمارے صوبے اور ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کریں۔
یہ تھا اور ہے مولانا سجاد نعمانی کا نظریہ اور فیصلہ ،، اب مولانا نعمانی کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ آگے ابھی کب تک یہ اندھیرے میں حمایت کا سلسلہ جاری رہے گا ؟ ابھی کچھ دنوں پہلے تو آپ اسدالدین اویسی صاحب کی تعریف کررہے تھے اور مسلمانوں کا لیڈر بتارہے تھے اور جب وقت آیا لیڈر تسلیم کرنے کا تو پھر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا دم بھرنے لگے ،، یہ تو ایک رٹا رٹایا ہوا جملہ ہے جو ہر صوبائی و پارلیمانی انتخابات میں کہا جاتا ہے کہ موجودہ الیکشن بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اس سے ملک کے اندر نمایاں اثر دیکھنے کو ملے گا جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ 1989 کے بعد سے ہی ملک میں نمایاں اثر دیکھنے کو مل رہا ہے تمام چھوٹے چھوٹے سماج سیاسی طور پر بیدار ہوگئے حکومت ، ملازمت میں حصہ دار بن گئے اور مسلمان آج بھی نیند کی گولی کھاکر سورہا ہے اور آنکھ کھلتی ہے تو شائد سب سے پہلے قسم کھاتا ہے کہ سیاسی شعور سے دوری اختیار کئے رہنا ہے اور سیاسی طور پر بیدار نہیں ہونا ہے ،، تمام دانشوروں سے مولانا نے تبادلہ خیال کیا اگر کسی نے بھی مسلمانوں کو سیاسی طور پر بیدار ہونے کا اور اپنی سیاسی شناخت قائم کرنے کا مشورہ نہیں دیا تو پھر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ کھل کر بی جے پی کی حمایت کی جائے اور اسی کو ووٹ دیا جائے ،، جتنی پرزور اپیل سیکولر پارٹیوں کے لئے کی گئی ہے کیا سو فیصد یقین ہے کہ انہیں سیکولر پارٹیوں کی مہاراشٹر میں حکومت بن جائے گی ؟ اور نہیں بنی تو اس اپیل کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑے گا اس پر غور کیا گیا ؟ جن بھائی بہن کا ذکر کیا جارہاہے ان کی پارٹی کانگریس ہے 2014 سے 2024 تک پارلیمنٹ میں کتنی ایسی بلیں پیش ہوئیں اور پاس ہوئیں مگر وہ بلیں راجیہ سبھا میں کیسے پاس ہوئیں کیا کانگریس سے یہ پوچھا گیا؟ نعمانی صاحب ملک کا مسلمان آپ کا گریبان پکڑ کر کہیں سوال نہ کر بیٹھے کہ آپ کے جبہ و دستار کا ہر تار تصدیق و تحقیق سے جڑا ہوا ہے تو آپ نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے آخر کون سا معاہدہ کیا ہے کہ آپ بھی مسلم سیاسی قیادت دفنانے والی فہرست میں اپنا نام درج کرا بیٹھے ،، آخر کس بنیاد پر آپ بی جے پی کو چھوڑ کر اپنی حمایت یافتہ پارٹیوں کو سیکولر مان رہے ہیں ؟ بی جے پی میں اور باقی پارٹیوں میں کتنا فرق ہے ملک کا مسلم ووٹر آپ سے جاننا چاہتاہے ،، آپ تو یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ آخرت میں ایک ایک لمحے کا اور ایک ایک ادا کا جواب دینا ہوگا تو آخرت میں اس کا جواب نہیں دینا ہوگا کہ جب ملک کے آئین نے ووٹ دینے اور مانگنے کا حق دیا تھا ، خود سیاسی پہچان بنانے کا حق دیا تھا تو پھر آپ نے قوم مسلم کو سیاسی طور پر پہچان بنانے کا امیر سیاست بنانے کا مشورہ کیوں نہیں دیا؟ موقع آنے پر تو یہی بتایا جاتا ہے کہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ تین آدمی ساتھ ہوں تو ایک آدمی کو امیر بنالو اور یہاں بیس پچیس کروڑ مسلمان کسی کو اپنا لیڈر نہ بنائیں بس فٹبال بنے رہیں ، کانگریس ، سماجوادی پارٹی ، بی ایس پی، مہاوکاس اگھاڑی، آرجے ڈی و دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کی بھیڑ کا حصہ بنتے رہیں ، دری بچھاتے رہیں اور ان پارٹیوں کا بھوکے پیاسے رہ کر نعرہ لگاتے رہیں کیونکہ یہ سیکولر ہیں ان کو ووٹ نہیں دوگے تو بی جے پی پھر آجائے گی یہ بھی سچائی ہے کہ جب سے بی جے پی کو ہرانے کے لئے ووٹ دیا جانے لگا بی جے پی تبھی سے مضبوط ہونا شروع ہوگئی اور مسلمان سیاسی طور پر اچھوت ہوگیا اور آج مسلمان جس پارٹی کو ووٹ دیتا ہے تو وہ پارٹی بھی احسان ماننے کے لئے تیار نہیں اور آج تو حالت یہ ہے کہ کوئی پارٹی مسلمانوں کا ووٹ مانگتی بھی نہیں ہے بلکہ مسلمان خود منہ کے بل گرے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں پارٹی کو ووٹ دیں گے اور کچھ علماء جنہیں اپنے مقام و مرتبے کا احساس نہیں ، ذمہ داری کا احساس نہیں ، فرائض کا احساس نہیں وہ ہاتھ باندھے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لیڈروں کے دروازوں پر پہنچ جاتے ہیں اور زبردستی انہیں سیکولر ہونے کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں-
خدارا ہوش کے ناخن لیں کل تک آپ جس سماج کو بے حسی کا طعنہ مارتے تھے وہ سماج بھی بیدار ہوگیا لیکن مسلمانوں کی سیاسی شناخت آج بھی ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں قائم نہیں ہوسکی اس سے بڑی بے حسی و بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے –
گستاخی معاف یہ وقت سجدے کا نہیں بلکہ قیام کا ہے اب وقت آگیا حساب مانگنے کا، امتحان لینے کا،امتحان دینے کا اور اپنا سیاسی محاسبہ کرنے کا اور معلوم کرنے کا کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں کی شناخت کیا ہے یعنی 2024 کا مہاراشٹر کا اسمبلی الیکشن ہورہا ہے جمہوریت کا فائدہ اٹھائیں اور سیاسی طاقت بنیں-
جمہوری ملک میں ووٹ دینابھی بہت بڑا حق ہے اور ووٹ مانگنا بھی بہت بڑا حق ہوتا ہے اس سے اپنے مستقبل کو سنوارا جاسکتا ہے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے اور اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے حکومت میں اپنی حصہ داری درج کرائی جاسکتی ہے، اپنے سماج کے مستقبل کو روشن کیا جاسکتا ہے، اپنے مسائل کو حل کیا اور کرایا جاسکتا ہے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سیاست ماسٹر چابی ہوا کرتی ہے سیاسی شعور اور سیاسی بیداری سے دنیا کا ہر تالا کھولا جاسکتا ہے یہ تو خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کی اہمیت اور فوائد کو سمجھے اور کوئی نہ سمجھے جس نے سمجھا وہ اقتدار کی دہلیز تک پہنچا اور اقتدار کا مزا تک چکھا اور اپنے سماج کو بھی سیاسی طور پر خوب مضبوط کیا اور جس نے سیاست و جمہوریت کے فوائد و اہمیت کو نہیں سمجھا وہ صرف یہی جانتا ہے کہ ووٹ کے معنی بیلیٹ پیپر پر مہر لگا دینا یا امید وار کے چناؤ نشان کے سامنے والی بٹن دبا دینا اور ایسے ہی لوگ رونا روتے پھرتے ہیں کہ ہمارا کوئی رہبر نہیں، ہمارا کوئی لیڈر نہیں کم از کم تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ہم پہلے ووٹر فہرست میں اپنا نام تلاش کرتے ہیں پھر ایک پرچی حاصل کرتے ہیں اس کے بعد قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اس کے بعد ہم دستخط کرتے ہیں تب ہمیں بیلیٹ پیپر ملتا ہے یا بٹن دبانے کے لیے کہا جاتا ہے گویا اب ہم نے جس نشان پر مہر لگائی یا بٹن دبائی تو ہم نے یہ تسلیم کیا کہ آپ ہمارے نمائندہ ہیں، آپ ہمارے مسائل کو حل کرائیں گے ، آپ سے ہمیں صرف امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ آپ ضرور ہماری آواز میں آواز ملائیں گے، آپ ہمارے اور ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے اور قدم سے قدم ملا کر چلیں گے آپ کی نمائندگی کو ہم نے تحریری طور پر منظور کیا ہے،، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس بات کا شعور، احساس اور پہچان تو ہونی چاہیے کہ کون کتنا ہمارا ساتھ دے گا اور کون کتنا ہمارے دکھ سکھ میں شریک ہوگا ایک جمہوری ملک میں اگر77 سال میں اتنا بھی شعور نہ آئے تو یہ بدنصیبی ہی کہی جائے گی اور ایسا شخص، ایسا طبقہ، ایسا سماج یقیناً جذباتی نعروں میں بہہ جائے گا اور جذباتی باتوں کا شکار ہو جائے گا اور ایسے سماج و طبقے کو ہر سیاسی پارٹی اور ہر سیاسی لیڈر بڑی آسانی کے ساتھ سکوں کے طور پر بھنا لے گا –