حفاظ پلس + ڈاکٹر ۔ حفاظ + انجنیئر مہم کے تناظر میں

ہمارے یہاں ہی نہیں پورے ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں مولویوں کا ایک طبقہ ہے جسے دین کے تعلق سے غیر مولویوں کی کوئی بھی پہل برداشت نہیں۔‌دعوت دین کے کام کرنے والوں کی اصلاح اور ان کے دائرہ کار کو بالموعظة الحسنة یعنی اچھے ناصحانہ انداز میں سمجھانے کی بجائے ایسا لہجہ اور اسلوب تحریر اختیار کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے دین کا کاپی رائٹ صرف ایسے مولویوں کے پاس ہے۔ دینی تعلیم ان کی مونوپولی ہے اس میں کوئی دوسرا ہاتھ نہ ڈالے۔

 ( اس ضمن میں تین روز قبل مفتی تقی عثمانی مدظلہ العالی کے انداز گفتگو پر تحریر پوسٹ کر چکا ہوں جسے پڑھا جا سکتا ہے)

پچھلے چند سالوں سے ملت اسلامیہ ہند کے لئے دردمند افراد مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ختم یا کم کرنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ بعض اہل خیر ملت کے درد مندوں نے مزدوروں کے بچوں کے لئے ون ٹیچر ” اسکول” جو مزدوروں کے مزدوری کرنے والے بچوں یا جب تک والدین کام سے لوٹ نہیں آتے اس وقت تک گھر کی دیکھ بھال کرنے والے بچوں کے لئے غیر منظم اسکول یعنی بچوں کی سہولیات کے مطابق وقت کا تقرر جو عموماً شام کا ہوتا ہے کسی گھر کے باہری حصہ میں دینی و عصری تعلیم کا نظم کی پہل کی ہے۔ وہ ایک ٹیچر عموماً پانچ سے سات ہزار کی تنخواہ پر بچوں کو پانچویں کلاس تک ہر سبجیکٹ پڑھاتا ہے اور اس کے بعد ان بچوں اور ان کے والدین کے دلوں میں تعلیم کی اہمیت اور شوق پیدا ہوتا ہے اور اس طرح وہ ریگولر اسکول میں داخلہ لیتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک پہل حفاظ پلس کی ہے۔ جسے جنوبی ہند کے بعض دردمند حضرات نے کی ہے اور اس کی شاخیں اب شمالی ہند کے دور دراز علاقوں تک میں کھلنی شروع ہوئی ہیں ۔ اس پہل کی ستائش ہونی چاہیے لیکن بعض لوگوں نے خواہ مخواہ اس پر منفی تبصرے کئے ہیں کہ اتنی محنت سے ہم انہیں حافظ بناتے ہیں اور یہ حفاظ پلس والے انہیں قرآن سے دور کر رہے ہیں!

 پہلی بات یہ کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ میرے شہر میں کم ازکم دس ایسے حافظ قرآن تھے جو کامیاب تاجر تھے۔ تجارت میں مشغول ہونے کے باوجود ہر سال رمضان المبارک میں تراویح قرآن کے تیسوں پارے سناتے تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ حفاظ کرام عموماً قرآن مجید کا دور کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ بھول نہ جائیں اور اس کا امتحان رمضان میں قرآن سنا کر دیتے ہیں ۔ حفاظ کرام کا سنایا ہوا یہ جملہ مجھے ہر رمضان میں یا آتا ہے کہ ” اگر ایک سال تراویح میں قرآن نہیں سنایا تو ہاف اور دوسرے سال بھی نہیں سنایا تو صاف یعنی مکمل بھول جاتے ہیں ۔

دوسری بات یہ کہ حافظ اور عالم کو مولویوں کا یہ طبقہ ہمیشہ مالی بحران میں کیوں دیکھنا چاہتا ہے کیوں ان پر چندہ خور کا الزام لگوانا چاہتا ہے۔ اگر انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو انہیں اعتراض کیوں ہے ! میرے خیال میں مولویوں کا یہ وہ طبقہ ہے جس نے قیام دارالعلوم کے وقت بانی دارالعلوم دیوبند کا لکھا اصول ہشتگانہ نہیں پڑھا جس میں بانی محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ نے مدرسہ سے فراغت کے بعد اپنے طلباء کو اسکول و کالج میں امتیاز حاصل کرنے کو کہا تھا ۔ مولویوں کا یہ وہ طبقہ ہے جس نے علماء و روزگار کی بابت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی تقریر و تحریر نہیں پڑھی اور سنی ہے۔

تعلیمی بیداری کے معاملے میں جنوبی ہند کی بنسبت شمالی ہند بہت پچھڑا ہوا ہے۔ضروری نہیں ہر کام کے لئے ہم حکومت اور ملی تنظیموں کے سہارے بیٹھے رہیں (گرچہ یہ ان کا دائرہ کار اور فریضہ منصبی ہے) ۔

ملت اسلامیہ ہند کی خوشحالی کے لیے دردمند حضرات ہر علاقہ/کالونی، شہر اور قصبہ میں تعلیمی بیداری کے لئے ایسی کوئی پہل کر سکتے ہیں جس سے تعلیم سے محروم بچوں کو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے۔

 تعلیم ہی کنجی ہے روزگار کی ۔ ایک صالح اور خوش حال معاشرہ کے لئے مکینوں کی تعلیمی اور معاشی دونوں حالت کا بہتر ہونا لازمی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہم سرکاری نوکریوں پبلک سیکٹر میں جگہ نہیں ملنے کے لیے حکومت پر تنقید کر کے خاموش بیٹھ جاتے تھے ۔ آج کے دور میں پرائیوٹ سیکٹر میں ملازمت کے لئے بے شمار مواقع ہیں ۔ جہاں کم از کم بارہویں پاس اور کمپیوٹر اپلیکیشن میں ڈپلومہ کورس کئے ہوئے سے لے کر آئی ٹی پروفیشنل تک کے لئے روزگار کے بے شمار مواقع ہیں۔

"پہلے انڈا یا پہلے مرغی "کب تک ہم اس معمہ کو حل کرنے میں اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے کہ’ گھر والوں کی مالی حالت اچھی نہیں ہے اس لئے بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دلا سکے ‘ تو بحث میں حصہ لینے والوں کا دوسرا گروہ کہے گا کہ تعلیم نہیں ہونے کی وجہ سے گھر کی مالی حالت خراب ہے!

اس بحث میں الجھنے اور حکومت وقت یا ملی تنظیموں پر اعتراض کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم سب اپنے اپنے حصے کے چراغ جلاتے جائیں۔

Better light a candle than curse the darkness

Exit mobile version