بھگوا سیاست کے آلۂ کار: وشنو نرائن جین اور ہری شنکر جین
محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
________________
برصغیر میں فرقہ وارانہ منافرت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے بعض ایسے کردار سرگرم ہیں جو مذہبی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی مفادات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان میں جین دھرم سے تعلق رکھنے والے وشنو نرائن جین اور اس کے بیٹے ہری شنکر جین پیش پیش ہیں۔ یہ دونوں افراد مسلم مساجد اور تعمیرات کے خلاف سرگرم رہ کر اپنی شناخت ایک انتہا پسند مزاج کے طور پر کروا چکے ہیں۔
گیان واپی مسجد: وشنو نرائن جین کا ناپاک منصوبہ:
وشنو نرائن جین گیان واپی مسجد کے مقدمے میں شامل ہوکر اپنی انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس نے مسجد کے اندر شیولنگ تلاش کرنے کی آڑ میں وہاں پوجا شروع کرادی، جو کہ مسجد کی حرمت اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کھلی کوشش ہے۔ یہ عمل آئینِ ہند پر سوالیہ نشان ہے۔
شاہی جامع مسجد، سنبھل: ہری شنکر جین کا نیا محاذ:
ہری شنکر جین نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو "ہری ہر مندر” قرار دینے کی عرضی دائر کی۔ عدالت نے مسلم فریق کو سنے بغیر سروے کی اجازت دے دی، جو آئینی اور قانونی تقاضوں کے خلاف ہے۔ پہلے دن مسلمانوں نے تعاون کرتے ہوئے سروے مکمل ہونے دیا، اور سروے کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کا عندیہ دیا۔ لیکن ہری شنکر جین اور اس کے ساتھیوں نے دوبارہ ایک مزید سروے کے لئے مسجد پر چڑھائی کرتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے بلند کیے، جس سے حالات کشیدہ ہوگئے۔
پولیس کی یک طرفہ کارروائی:
سنبھل میں معاملہ مزید بگڑ گیا جب مسلمانوں کی جانب سے مزاحمت دیکھ کر پولیس نے فائرنگ کر دی، جس میں پانچ بے گناہ مسلمان نوجوان شہید ہو گئے۔ اگر پولیس غیر جانبداری سے شرپسندوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکتی، تو یہ سانحہ پیش نہ آتا۔ ڈی ایم سنبھل کا بیان کہ دوسرے دن کے سروے کی اجازت ان کے علم میں نہیں تھی، اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ یہ سب مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی منظم سازش تھی۔
جین دھرم کی تاریخ اور حالیہ کردار:
یہ جین کمیونٹی وہی ہے جسے سناتن دھرم کے بڑے عالم شنکراچاریہ نے ماضی میں بری طرح شکست دی تھی۔ ان کے کئی مندر منہدم کیے گئے، اور ان کی مورتیاں دفن کر دی گئیں۔ بعد ازاں، فیروز شاہ تغلق نے اپنی فیاضی اور فراخ دلی سے اس کمیونٹی کو نوازا، لیکن آج یہی جین کمیونٹی انتہا پسندوں کی سازشوں میں ملوث ہو کر مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں شریک ہے۔
مسلمانوں کی غفلت:
یہ سچ ہے کہ جب مسلمانوں کو بر صغیر میں حکومت ملی تو انہوں نے عیاشی، آپسی اختلافات، اور قبائلی عصبیت کے سبب اسلام کی اصل روح کو فراموش کردیا۔ صوفیائے کرام کی تبلیغی کوششوں کے باوجود حکمران طبقہ حرم کلچر اور طاقت کی سیاست میں مگن رہا۔
آج کا سبق:
مسلمانوں کو آج کے حالات سے سبق لینا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ صورت حال کو ان کے اعمال کا نتیجہ بنایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فرقہ واریت، تفرقہ بازی، اور غیر ضروری مناظرے جاری ہیں۔ اگر مسلمان واقعی اپنی کھوئی ہوئی عزت اور طاقت واپس چاہتے ہیں تو انہیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، اور صوفیائے کرام کے طرز عمل کو اپنانا ہوگا۔
نتیجہ:
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے ماضی سے سبق سیکھیں اور موجودہ چیلنجز کا سامنا متحد ہو کر کریں۔ وشنو نرائن جین اور ہری شنکر جین جیسے عناصر کو روکنے کے لیے قانونی، سماجی، اور مذہبی بنیادوں پر منظم جدوجہد کی جائے۔ صرف اسی صورت میں امت مسلمہ اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کر سکتی ہے۔
بہ شکریہ Naushad Alam Chishti صاحب. اس مضمون کا فکری مواد انہی کی ایک بیش قیمت تحریر سے ماخوذ ہے۔