مجلس تحقیقاتِ شرعیہ کے فقہی سمینار میں شرکت
مجلس تحقیقاتِ شرعیہ کے فقہی سمینار میں شرکت
محمد رضی الاسلام ندوی
______________
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس تحقیقات شرعیہ کے سمینار (30 نومبر و یکم دسمبر 2024) میں شرکت کرکے خوشی ہوئی – بھائی منور سلطان ندوی کی بار بار یاددہانی تھی کہ میں ضرور شرکت کروں –
مجلس تحقیقات شرعیہ کی تاسیس یوں تو 1963 میں ندوۃالعلماء کے سابق ناظم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کی تحریک سے اور ان کی سربراہی میں ہوئی تھی – مقصد یہ تھا کہ دورِ حاضر کے نئے مسائل میں غور و خوض کر کے شرعی رہ نمائی فراہم کی جائے – اس کے ارکان میں ملک کے ماہرین فقہ و شریعت شامل رہے ہیں ، جن میں مولانا محمد تقی امینی اور مولانا محمد اسحاق ندوی سندیلوی خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں – 1970 تک یہ مجلس سرگرم رہی اور اس کے تحت کئی سمینار ہوئے – انشورنس ، رؤیتِ ہلال اور سرکاری قرضوں سے متعلق اس کے فیصلے اہم ہیں – بعد میں مختلف اسباب سے اس کی سرگرمیاں ماند پڑگئیں – 2020 میں اس مجلس کا دوبارہ احیا کیا گیا اور مولانا عتیق احمد بستوی قاسمی کو اس کا ناظم بنایا گیا – اس وقت سے اس نے باضابطہ کام کرنا شروع کیا – اس کی سرگرمیاں متنوّع ہیں – سمیناروں کا انعقاد ، لیگل لٹریسی پروگرام ، عائلی قوانین (Family Laws) پر ماہرین کے ذریعے ماہانہ خطبات ، فقہی موضوعات پر بحث و تحقیق کی تربیت ، فتاویٰ ندوۃ العلماء کی ترتیب و تدوین اور علمی کتابوں کی اشاعت اس کی اہم سرگرمیاں ہیں – دو سال کے عرصے میں 24 کتابیں شائع کی گئی ہیں – اب ‘تحقیقاتِ شرعیہ’ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ کی اشاعت کا آغاز کیا گیا ہے – سمینار میں اس کے پرنٹ ایشو کا اجرا کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ آئندہ اسے آن لائن جاری رکھا جائے گا –
مجلس کی جانب سے 2022 سے پھر سالانہ سمینار کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے – کورونا کے مسائل ، عوامی مقامات پر نماز ، مساجد میں خواتین کی آمد ، نصابِ زکوٰۃ کا معیار اور ضمِّ نصاب کا مسئلہ کے موضوعات پر سمینار ہوچکے ہیں – امسال تین موضوعات طے کیے گئے تھے : بیع معدوم ، جانوروں کی مصنوعی افزائش اور تیسیر کے بارے میں اصولی مباحث –
افتتاحی اجلاس 30 نومبر 2024 کو پونے دس بجے شروع ہوا – مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنی رپورٹ میں تفصیل سے مجلس کی کارکردگی بیان کی – ڈاکٹر محمد اقبال مسعود ندوی اور مولانا سعید فیضی ندوی ، جو کینیڈا سے تشریف لائے تھے ، انھوں نے اور بعض دیگر حضرات نے تاثرات پیش کیے – مولانا محمد زکریا سنبھلی استاذ حدیث ندوۃ العلماء نے بھی خطاب کیا – صدارتی خطاب مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی کا تھا – ان حضرات نے موضوعات ، خاص طور پر موجودہ دور میں تیسیر کی ضرورت و اہمیت پر بڑی مفید اور مؤثر گفتگو کی – مجلس ، اساتذۂ ندوہ اور دیگر مؤلفین کی چند کتابوں کا اجرا عمل میں آیا ، جن میں گزشتہ برس کے سمینار میں پیش کیے گئے مقالات کے مجموعے بھی تھے – یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان کتابوں میں مقالات کے ساتھ سمینار میں ہونے والے مباحثات کو بھی ضبط تحریر میں لاکر شامل کیا گیا ہے –
سمینار کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سے مقالات منگوالیے جاتے ہیں اور ان کا خلاصہ تیار کروالیا جاتا ہے – پھر الگ الگ موضوعات پر ایک صاحب عرضِ مسئلہ پیش کرتے ہیں ، جس میں موضوع کے تمام پہلوؤں پر مقالہ نگاروں کی آرا دلائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں – اس کے بعد مناقشہ ہوتا ہے – حاضرین کو آزادی کے ساتھ بحث و مباحثہ کا موقع دیا جاتا ہے ، پھر ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے ، جو مقالات اور مباحثات کی روشنی میں تجاویز مرتب کرتی ہے – سمینار کے آخری اجلاس میں وہ تجاویز پیش کی جاتی ہیں اور شرکا کی موافقت کے بعد انہیں فیصلوں کی شکل میں عام کردیا جاتا ہے –
تینوں موضوعات پر جزئی اختلافات کے ساتھ زیادہ تر نکات میں مقالہ نگاروں کا اتفاق نظر آیا ہے – بیع معدوم یعنی جس چیز کا وجود نہ ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے ، اگر اس کے اوصاف متعین ہوں اور شرائط طے کرلی ہوں ، جس کی وجہ سے فریقین کے درمیان نزاع کا امکان ختم ہوگیا ہو – جانوروں کی مصنوعی افزائش جائز ہے ، اگر وہ طریقے نہ اختیار کیے گئے ہوں جن سے انسانی صحت کو ضرر پہنچے یا جانور شدید تکلیف میں مبتلا ہوں – تیسیر کو اسلامی شریعت میں بہت اہمیت دی گئی ہے – اس بنا پر شرکا کی رائے تھی کہ آج کل مسائل بہت پیچیدہ ہوگئے ہیں ، اس بنا پر دین دار مسلمان تنگی کا شکار ہورہے ہیں – اس صورت حال میں اگر ضرورت ہو تو ایک مسلک کے فقہا دوسرے مسلک کے مطابق فتویٰ دے سکتے ہیں – [ ان موضوعات پر سمینار کے فیصلے بعد میں عام کیے جائیں گے – ]
سمیناروں میں شرکت سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے اہل علم سے ملاقات ہوجاتی ہے اور ان سے تبادلۂ خیال کا موقع ملتا ہے – ندوہ میں بہت سے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی، جو یہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں یا انتظامیہ میں شامل ہیں – بہت سے طلبہ گروپ کی شکل میں آتے رہے اور دیر رات تک ان سے گفتگو رہی – جمعیۃ الاصلاح (Students Union) کے ذمے داران آئے اور انھوں نے میرا ایک محاضرہ طے کردیا –