سردی کا موسم اور ہماری ذمہ داریاں
سردی کا موسم اور ہماری ذمہ داریاں
مفتی ناصرالدین مظاہری
________________
موسم سرما کی آمد آمد ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرم موسم پسند تھا اور پسند کی وجہ غریبوں کی موافقت تھی یعنی غریبوں کو چونکہ سردیوں میں ضرورت کی بقدر کپڑے میسر نہیں ہوتے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پسند ہی غریبوں کے موافق بنالی تھی ۔
سردی ہو یا گرمی یا برسات یہ کہیں تو بہت زیادہ ہوتی ہے اور کہیں معتدل اور بعض جگہوں پر بہت کم ، چنانچہ خود بھارت میں بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں تقریباً پورے سال ہی بارش ہوتی رہتی ہے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں بارش بہت کم ہوتی ہے لیکن دہلی ،مدھیہ پردیس، اترپردیس ، بہار ، جھارکھنڈ وغیرہ بہت سے صوبے ایسے ہیں جہاں تینوں موسموں میں اعتدال ہے۔
سردی کا موسم شروع ہوتے ہی انسان اپنے جسم کونہ صرف گرم محسوس کرتاہے بلکہ اگر دھیان دیں تو سردی کے موسم میں دوران وضو اعضائے وضو کو باقاعدہ دھونا پڑتا ہے ورنہ خشک رہ جانے کا امکان رہتا ہے اور بال کے برابر بھی خشکی رہ جائے تو وضو ہی نہیں ہوتا ہے اور جب تک وضو نہیں ہوگا تو نماز ہی نہیں ہوگی۔
اس موسم کے حیرت انگیز فوائد اور اس کی تخلیق کے قدرتی عجائبات جاننا چاہتے ہیں تو کتاب عجائب المخلوقات کامطالعہ ضرور کیجئے۔ یہاں طوالت کے خوف سے حضرت ابوسعیدخدریؓ کی ایک روایت پیش کرکے آگے بڑھتاہوں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سردی کا موسم مومن کے لیے بَہار ہے، سردیوں کا دن چھوٹا ہوتا ہے، چنانچہ وہ اس میں روزہ رکھتا ہے، اور رات لمبی ہوتی ہے، چنانچہ وہ اس میں قیام کرتا ہے۔‘‘
اگرآپ دھیان دیں توسردی میں دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا بہت آسان ہوتاہے اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ موسم سرما کو عبادت گزاروں کے لئے غنیمت قرار دیتے ہیں اسی طرح سردیوں میں راتیں لمبی ہوجاتی ہیں جو شب بیداروں اور تہجد گزاروں کے لئے غنیمت ہیں۔
سردیوں میں باربار وضوکرنا کتنا شاق گزرتا ہے ،کمبل ولحاف کو چھوڑنا کس قدر مشکل ہوتا ہے ، گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جانا اِس کاہل جسم کے لئے کس قدر مشکل امر ہے پھر عموماً مساجد میں سردی اور ہوا سے بچنے کامعقول نظم نہیں ہوتا ہے ،نہ ہی عمدہ قسم کے فرش وقالین ہوتے ہیں ،سوچیں انسان اپنے نفس کو کچل کو،شیطان سے جھگڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم کو خم کردیتا ہے ایسی صورت میں اس کی عبادت کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے ،چاہتا تو گھر میں بھی پڑھ لیتا لیکن مسجد پہنچا اس لئے ستائیس درجہ مزید ثواب کامستحق ٹھہرا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اس طرح گویا اجمتاعیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ایک اور حکم کی تعمیل ہوگئی اور یوں ثواب بڑھتا گیا یہاں تک کہ بندہ جب مسجد سے واپس اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے تو اس کے درجات بڑھ چکے ہوتے ہیں،اس کے گناہ بخشے جاچکے ہیں ۔
عام طورپر گرمی کے موسم میں لوگ غرباء ومساکین کوکپڑے نہیں دیتے لیکن سردی کے آتے ہی بقدر وسعت کوئی لحاف تقسیم کرتا ہے تو کوئی کمبل دیتا ہے اور کوئی جگہ جگہ لکڑیاں جلواتا ہے ، گویا موسم سرما خیراتی کام کرنے والوں کے لئے ’’غنیمت‘‘ ثابت ہوا۔ ارشاد نبوی ہے: ’’جو کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اسے لباس ِجنت پہنائیں گا۔‘‘
آٹھ دس سال پہلے تک میں بھی سردی میں بھی اپنی جوانی اورجولانی دکھانے کے احمقانہ خبط میں مبتلا تھا، کیونکہ میری خام خیالی تھی کہ اس عمل سے لوگ میری جوانی اور طاقت سے مرعوب ہوکر ستائش اور تعریف کریں گے لیکن یہ نہیں سوچا کہ اِن جھوٹے ستائشی اور تعریفی کلمات سے فائدہ کیا ہے، چنانچہ ایک دفعہ سردی نے مجھے دھر دبوچا ، اتنی سخت سردی لگی کہ گلے نے گلہ کیا ، ناک بہنی شروع ہوگئی، سانس لینا مشکل ہوگیا، بخار نے الگ حملہ کردیا، پورا جسم لرزہ براندام اور وہ لوگ جن سے توقع تھی کہ وہ میری چستی اور پھرتی پر تعریف کریں گے یا وہ لوگ جوسردی کے کپڑوں کو مد زائد سمجھتے تھے ان میں سے ایک نے بھی مجھ سے ملنے اور عیادت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور سمجھے بھی کیوں ؟ میرے کم یا زیادہ کپڑے پہننے سے اُن کاکیافائدہ اور کیا نقصان تھا ۔ تب میرے ضمیر نے کہا کہ بدخواہوں کی جھوٹی تعریفوں سے خوش ہونا یہ سب سے بڑی حماقت ہے ، وہ شخص ہرگز تیرا دوست نہیں ہوسکتا جو تجھ کو قدرت کے اِس طاقت وَر موسم سے لڑنے اور ٹکرانے پر ابھارے ، جیت آخرکار سردی کی ہی ہونی ہے ،شکست تیرا مقدر ہے ،موسم سے لڑنا گویا اللہ تعالیٰ سے لڑنا ہے کیونکہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت اور بربادی میں مت ڈالو اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سردی سے پناہ مانگی ہے ۔ایسی صورت میں جو لوگ اپنی جوانی کے خبط میں مبتلا ہوکر گاڑی چلاتے ہیں وہ عام طور پر حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں ، پیدل چلتے وقت، سائیکل یاموٹر سائیکل کے ذریعہ سفر کرتے وقت آپ اپنی حفاظت خود کیجئے ، سردی کے موسم میں بائک سواروں کوعام طور سڑکوں کے کنارے حادثہ کا شکار ہوتے دیکھا جاسکتا ہے اور دیکھنے والے صرف یہی کہتے نظرآتے ہیں کہ ’’یہ موٹر سائیکل والے اندھا دھند چلاتے ہیں‘‘۔ویسے بھی سردی کے موسم میں کہرا اور دھند اتنی ہوجاتی ہے کہ ٹرینیں بھی لیٹ ہوجاتی ہیں اورہمارے سڑک پر چلنے والے بداحتیاطی کی وجہ سے خود مشکل میں پھنس جاتے اور دوسروں کو بھی پھانس دیتے ہیں۔
سنوسنو!!
سردی کے آتے ہی حضرت عمررضی اللہ عنہ ایک عام پیغام جاری فرماتے تھے کہ
’’موسم سرما ‘‘آن پہنچاہے جو ایک دشمن ہے؛ اس سے بچنے کے لیے اونی کپڑے، موزے اور جرابیں وغیرہ تیار کرو، اون ہی کا لباس پہنو اور اوپر بھی اونی چادریں اوڑھ لو؛ کیونکہ سرما وہ دشمن ہے جو جلد داخل ہوتا ہے اور دیر سے جان چھوڑتا ہے۔‘‘ (فتویٰ بنوری ٹاؤن کراچی بحوالہ لطائف المعارف ابن رجب حنبلیؒ)
اطباء اور حکماء سردی سے بچنے کی خاص طورپر تاکید کرتے ہیں ،آپ گرم پانی سے نہائیں، گرم پانی پینے کا مزاج بنائیں ، نزلے سے بچنے کی کوشش کریں، بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں، وضو بھی گرم پانی سے کریں اور اگرموسم زیادہ ٹھنڈاہو ، پانی بھی خوب ٹھنڈاہو ، گرم پانی بھی میسرنہ ہو ، بیمار ہونے یا بیماری بڑھ جانے کا بھی خدشہ و اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں فقہاء نے تیمم کی اجازت دی ہے۔چمڑے کے موزے پر مسح کی بھی حسب تصریح اجازت دی ہے یعنی مقیم کے لئے ایک دن ایک رات اور مسافر کے لئے تین دن اور تین رات ۔تفصیل علماء سے معلوم کی جاسکتی ہے۔