مسلمانوں کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے!!
مسلمانوں کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے!!

مسلمانوں کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے!! از: تفہیم الرحمٰن ___________________ ‎دنیا کی تاریخ میں غلامی ایک ایسا سیاہ باب ہے جو ہر دور میں مختلف شکلوں اور انداز میں جاری رہا ہے۔ کبھی جنگ کے نتیجے میں، کبھی سامراجی تسلط کے ذریعے، اور کبھی معاشی یا سیاسی استحصال کی صورت میں قوموں اور معاشروں […]

قانون تحفظ عبادت گاہ:ہر روز نئی ایک الجھن ہے
قانون تحفظ عبادت گاہ:ہر روز نئی ایک الجھن ہے

قانون تحفظ عبادت گاہ:ہر روز نئی ایک الجھن ہے از: سید سرفراز احمد تحفظ عبادت گاہوں کا قانون ایک ایسے وقت میں بنایا گیا تھا جب ہندو توا طاقتوں کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ کو متنازعہ بنا کر رام مندر کا دعوی کیا گیا تھا جس کے لیئے ایل کے اڈوانی نے پورے […]

دستور ہند کا 75واں سال: اس کے نفاذ میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی رکاوٹیں اور منو سمرتی کے نفاذ کی کوششیں
دستور ہند کا 75واں سال: اس کے نفاذ میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی رکاوٹیں اور منو سمرتی کے نفاذ کی کوششیں

دستور ہند کا 75واں سال: اس کے نفاذ میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی رکاوٹیں اور منو سمرتی کے نفاذ کی کوششیں از: محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال ___________________ ہندوستان کا دستور 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی […]

تازہ ترین پوسٹ

تجزیہ و تنقید

تاریخ اور سچائی کو فرقہ واریت کی تاریکی میں ڈالنے کی مہم

تاریخ اور سچائی کو فرقہ واریت کی تاریکی میں ڈالنے کی مہم از:- عبدالحمید نعمانی ___________________ ہندوتو وادیوں نے حقائق...
Read More
تجزیہ و تنقید

عالمی یومِ عربی: ہندوستان میں عربی زبان کا فروغ و ارتقا اور موجودہ چیلنجز

عالمی یومِ عربی: ہندوستان میں عربی زبان کا فروغ و ارتقا اور موجودہ چیلنجز از: محمد شہباز عالم صدر شعبۂ...
Read More
تجزیہ و تنقید

رسم الخط کی اہمیت

رسم الخط کی اہمیت از: ڈاکٹر سراج الدین ندوی ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی۔بجنور __________________ جس طرح انسانی بدن میں دل...
Read More
دین و شریعت

جنگ کا میدان ہو یا الیکشن کا میدان نماز کبھی معاف نہیں!!

جنگ کا میدان ہو یا الیکشن کا میدان نماز کبھی معاف نہیں!! از:- جاوید اختر بھارتی محمدآباد گوہنہ ضلع مئو...
Read More
تجزیہ و تنقید

عربی زبان کا موجودہ منظر نامہ: غور وفکر کے پہلو

۱۸ ؍دسمبر عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر عربی زبان کا موجودہ منظر نامہ: غور وفکر کے پہلو از:-...
Read More

استاد ذاکر حسین: ایک عہد ساز طبلہ نواز

استاد ذاکر حسین: ایک عہد ساز طبلہ نواز

از: محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

___________________

دنیا بھر میں موسیقی کے میدان میں اپنی پہچان بنانے والے، ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کو عالمی سطح پر روشناس کرانے والے استاد ذاکر حسین آج ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات صرف موسیقی کے ایک ماہر فنکار کا نقصان نہیں، بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ استاد ذاکر حسین کے انتقال کی خبر نے موسیقی کے چاہنے والوں کو گہرے غم اور دکھ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک عظیم اثاثہ تھے، جنہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور فنکارانہ مہارت سے موسیقی کے آسمان پر ہمیشہ چمکنے والے ستارے کی حیثیت حاصل کی۔

ابتدائی زندگی اور موسیقی کی تربیت:

9 مارچ 1951 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے استاد ذاکر حسین موسیقی کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، استاد اللہ رکھا خان، طبلہ کے عظیم فنکار تھے، جنہوں نے ذاکر حسین کو کم عمری میں ہی موسیقی کی تعلیم دینا شروع کر دی۔ استاد اللہ رکھا کی تربیت اور ذاکر حسین کی غیر معمولی لگن نے انہیں ایک نابغۂ روزگار فنکار بنا دیا۔ وہ طبلہ کی پیچیدہ تالوں اور ریاضت کے ایسے ماہر بنے کہ کم عمری میں ہی موسیقی کی دنیا میں ان کا نام روشن ہونے لگا۔

فنی خدمات اور عالمی شہرت:

استاد ذاکر حسین نے نہ صرف ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا، بلکہ فیوژن موسیقی میں بھی نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ ان کے فیوژن بینڈ Shakti نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے جان میک لافلن اور جارج ہیریسن جیسے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اور مشرق و مغرب کی موسیقی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا۔

ان کی طبلہ نواز تکنیک، جس میں روایتی موسیقی اور جدید تجربات کا حسین امتزاج ہوتا، سننے والوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ ان کی انگلیوں کی رفتار اور تالوں کا توازن طبلہ نواز کی دنیا میں ایک معیار بن چکا تھا۔ انہوں نے نہ صرف طبلہ کو ایک ساز کے طور پر بلند مقام دیا، بلکہ موسیقی کو ایک روحانی تجربہ بنا دیا۔

ایوارڈز اور اعزازات:

استاد ذاکر حسین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ پدم شری (1988) اور پدم بھوشن (2002) جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازے گئے تھے۔ ان کی عالمی شہرت کا ثبوت گریمی ایوارڈ بھی تھا، جو انہوں نے اپنے فنکارانہ کمال کے باعث حاصل کیا۔

ذاتی خصوصیات:

استاد ذاکر حسین نہ صرف ایک عظیم فنکار تھے، بلکہ ایک شفیق انسان اور امن کے سفیر بھی تھے۔ وہ موسیقی کو مختلف ثقافتوں کو قریب لانے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی سادگی، عاجزی اور محبت نے انہیں لوگوں کے دلوں میں ایک خاص مقام دلایا تھا۔

استاد ذاکر حسین کی میراث:

استاد ذاکر حسین کی وفات کے ساتھ ہی موسیقی کی دنیا میں ایک ناقابل تلافی خلا پیدا ہو گیا ہے، جسے بھرنا ممکن نہیں۔ ان کی زندگی، ان کا فن اور ان کی محبت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ وہ موسیقی کے ذریعے ایک پیغام دیتے تھے کہ انسانیت، امن اور محبت ہی وہ اقدار ہیں جو دنیا کو خوبصورت بنا سکتی ہیں۔

نتیجہ:

استاد ذاکر حسین کی زندگی موسیقی کی دنیا کے طلبا اور شائقین کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ ان کا فن اور خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ آج ہم ان کی وفات پر غم زدہ ضرور ہیں، لیکن ان کی وراثت کے طور پر ان کا فن ہمارے ساتھ ہمیشہ موجود رہے گا۔ استاد ذاکر حسین کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: