جامع مسجد اموی کی مختصر تاریخ اور پیغام
ترتیب: محمد قمر الزماں ندوی
____________________
جامع مسجد اموی۔ (Umayyad Mosque)، دمشق جس کو شہر یاسمین کہا جاتا ہے، ملک شام میں واقع ہے، شہر دمشق ملک شام کی راجدھانی اور دار السلطنت ہے اور انتہائی قدیم اور تاریخی شہر ہے ، اس شہر اور اس ملک کی قدامت اور اس کی قدیم و جدید تاریخ کو میں نے اپنے پچھلے مضمون میں تفصیل سے بیان کیا تھا ۔ آج جامع مسجد اموی کی تاریخ کو مختلف مراجع اور حوالے کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں ، امید کہ قارئین اس سے مستفید ہوں گے ۔
جامع مسجد اموی دمشق
اسلامی فن تعمیر اور تاریخ کا ایک اعلیٰ ،نادر اور شاندار نمونہ ہے۔ یہ مسجد اسلامی دنیا کی قدیم ترین اور اہم مساجد میں شمار ہوتی ہے، جس کی تاریخ مختلف ادوار میں تبدیلیوں اور ترقیوں سے بھرپور ہے۔ اس کی قدیم اور جدید تاریخ کا خلاصہ درج ذیل ہے:
قدیم تاریخ
-
1. تعمیر سے پہلے کا مقام:
جامع اموی کا مقام قدیم زمانے سے مقدس رہا ہے۔ پہلے یہ ایک ارامی (Aramean) مندر تھا، جو "ہدّد” (طوفان کے دیوتا) کو وقف تھا۔ بعد میں رومی دور میں یہاں "معبدِ مشتری” (Temple of Jupiter) تعمیر کیا گیا۔
-
2. بازنطینی دور:
جب عیسائیت شام میں غالب آئی، تو یہاں ایک گرجا گھر (چرچ) تعمیر کیا گیا، جو "سینٹ جان دی بیپٹسٹ” کے نام سے مشہور تھا اور اس میں حضرت یحییٰؑ کے سر مبارک کی باقیات رکھی گئیں۔
-
3. اسلامی دور:
705 عیسوی میں اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس مقام کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا گیا، لیکن چرچ کے کچھ حصے ان کے لیے برقرار رکھے گئے۔
مسجد کی تعمیر میں بازنطینی اور اسلامی طرزِ تعمیر کو یکجا کیا گیا۔
مسجد کی تعمیر میں ہزاروں مزدوروں اور کاریگروں نے حصہ لیا، اور یہ سات سال میں مکمل ہوئی۔
-
4. معماری خصوصیات:
جامع اموی اپنے وقت کی سب سے بڑی اور شاندار مسجد تھی۔
اس کی دیواروں پر قیمتی موزیک (mosaic) کام، سنہری رنگ، اور خوبصورت خطاطی کی گئی۔
اس میں ایک وسیع صحن اور تین مینار تعمیر کیے گئے، جو بعد میں اسلامی فن تعمیر کا ایک معیار بن گئے۔
جدید تاریخ
-
1. توسیع اور مرمت:
مختلف اسلامی ادوار میں جامع اموی کو وسعت دی گئی اور اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔
عباسیوں، ایوبیوں، مملوکوں اور عثمانیوں کے دور میں مسجد کی مختلف حصوں کی مرمت اور خوبصورتی میں اضافہ کیا گیا۔
-
2. آفات اور حملے:
1401 میں تیمور کے حملے میں مسجد کو نقصان پہنچا۔
1893 میں ایک بڑے آتشزدگی نے مسجد کے اہم حصوں کو تباہ کر دیا، جس کے بعد عثمانی حکومت نے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
-
3. جدید دور میں مقام:
جامع اموی آج بھی مسلمانوں کے لیے ایک اہم مذہبی اور سیاحتی مقام ہے۔
یہاں دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں اور حضرت یحییٰؑ کے مزار کی زیارت کرتے ہیں۔
مسجد کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے، لیکن اس کی تاریخی شکل اور اہمیت کو برقرار رکھا گیا ہے۔
-
4. ثقافتی و مذہبی اہمیت:
جامع اموی کو اسلامی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ یہ ایک مذہبی، ثقافتی، اور تاریخی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔
جامع مسجد اموی تاریخ کے مختلف ادوار کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی عمارت ہے جو مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے امتزاج کی علامت ہے۔ اس کی قدیم بنیادیں، شاندار تعمیرات، اور جدید مرمت اسے اسلامی فن و ثقافت کا ایک نادر شاہکار بناتی ہیں۔
مولانا شمیم ریحان ندوی نے اپنی ایک تحریر میں اس مسجد کی تاریخی حیثیت اور موجودہ پس منظر پر بہت اچھا لکھا ہے ،جس کا ایک حصہ آپ بھی ملاحظہ کریں ۔
"جامع اموی کی دیواریں صرف اینٹوں اور پتھروں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ فنِ تعمیر کی ایک زندہ داستان ہیں۔ اس کے محراب، گنبد اور منارے وہ زبان ہیں، جو تاریخ کے صفحات پر اسلام کے جمالیاتی ذوق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ محرابیں آسمان کی جانب بلند ہو کر بندے اور رب کے درمیان ایک پل بناتی ہیں، اور منارے اذان کی آواز کے ذریعے دنیا کو وحدت کا پیغام دیتے ہیں۔ مسجد کے اندرونی حصے میں موزائیک کے کام، سنہری نقش و نگار، اور جنت کے نظاروں کو پیش کرنے والے مناظر اسلامی فنِ تعمیر کے عروج کا ثبوت ہیں۔ یہ جمالیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اسلامی تہذیب نے نہ صرف دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کیا بلکہ آنکھوں کو حسن کی لذت سے بھی سرشار کیا۔
جامع اموی صرف ایک عمارت نہیں بلکہ روحانی سکون اور تاریخی عظمت کا سنگم ہے۔ یہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مزار کی موجودگی اس مقام کو انبیاء کی یادگار بناتی ہے، اور اسی مسجد کے ایک منارے کو "منارہ عیسیٰ” کہا جاتا ہے، جہاں سے قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشین گوئی ہے۔
یہاں نماز پڑھتے وقت انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ محض ایک عبادت گاہ میں نہیں، بلکہ تاریخ کے دھارے میں کھڑا ہے، جہاں ہر لمحہ، ہر اینٹ، اور ہر نقش انسانیت کے مشترکہ ورثے کی کہانی سناتا ہے۔
جامع اموی ہمیں یاد دلاتا ہے، کہ تمدن کی بنیاد محض طاقت اور دولت پر نہیں، بلکہ عقیدے، علم، اور جمالیاتی ذوق پر ہوتی ہے۔ یہ مسجد اسلامی تہذیب کا وہ آئینہ ہے ،جس میں ماضی کی عظمت، حال کی حیات، اور مستقبل کی امید جھلکتی ہے۔
یہاں آ کر انسان جان لیتا ہے کہ عبادت صرف جسم کے جھکنے کا نام نہیں، بلکہ دل اور روح کو اس ذات کے سامنے جھکا دینے کا عمل ہے، جس نے انسان کو حسن، فن، اور شعور کی دولت عطا کی۔ جامع اموی کی فضائیں آج بھی اسی ابدی پیغام سے گونجتی ہیں۔
جامع اموی دمشق… اسلامی تہذیب کا وہ مرکز ہے جس نے صدیوں سے ایمان، فن، اور تاریخ کے رنگوں کو یکجا کیا ہے۔ یہ مسجد نہ صرف عبادت کا ایک مقام ہے بلکہ شامی تمدن کی وہ دھڑکن بھی ہے جس کے میناروں سے اذان کی گونج ہر دل میں سکون بھرتی ہے، اسد خاندان کے دورِ حکومت میں، خاص طور پر بشار الاسد کی حکومت کے دوران، اس مقدس مقام نے خون آشام جنگ کے مناظر دیکھے اور اپنی عظمت کے پرچم کو زخموں کے ساتھ بلند رکھا۔ جب شام کی خانہ جنگی نے اپنے پنجے گاڑھے، جامع اموی بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ وہ درودیوار، جو کبھی سکون کے پیامبر تھے، جھڑپوں اور بمباری کے گواہ بن گئے۔ میناروں پر پڑنے والے بموں کے زخم، آرائش کے بکھرتے ہوئے نقوش، اور اسلامی خطاطی کے مجروح شہ پارے اس مسجد کے صبر کی گواہی دیتے ہیں۔ مینارِ عیسیٰ، جس کی بلند قامت نگاہیں صدیوں کی تاریخ دیکھ چکی تھیں، بھی اپنے وقار کو بچانے میں ناکام رہا، جامع اموی کے موزائیک، وہ قیمتی نقوش جو اسلامی فن کے آسمان پر جگمگاتے تھے، دھویں اور بارود کی گمشدگی میں کہیں کھو گئے۔ مسجد کی خوبصورتی، جو کبھی آنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی تھی، اب خاموشی سے اپنے زخم سہہ رہی ہے۔ یہ منظر نہ صرف دمشق کے لیے المیہ تھا بلکہ پوری امت مسلمہ کے دل میں چھبنے والا کانٹا بن گیا، مسجد کو جنگی محاذوں کا حصہ بنایا گیا، ایک مقدس مقام کو سیاسی اغراض کے لیے استعمال کیا گیا۔ حکومت اور مخالفین دونوں نے اس مسجد کی حرمت کو پامال کیا، گویا یہ ایمان کا نہیں بلکہ اقتدار کا میدان ہو۔ مسجد کے ستونوں نے انسانی ہوس کے وہ تماشے دیکھے جن پر زمین بھی شرما گئی۔ شامی عوام کے دل تڑپے، عالمی مسلم برادری نے اپنی بے بسی پر ماتم کیا۔ جامع اموی کی بے حرمتی کو نہ صرف ایک مسجد کی بے توقیری بلکہ ایک عظیم ورثے کی توہین قرار دیا گیا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر دل مغموم۔جامع اموی دمشق… وہ جو کبھی اتحاد، علم، اور ایمان کا مرکز تھا، آج شام کی سیاسی جنگوں کا ایک گمشدہ صفحہ بن چکا ہے۔ اس مسجد کے زخم ہم سب کے دلوں میں موجود ہیں، اور یہ پکارتی ہے کہ ایمان، تہذیب، اور ورثے کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ مسجد کے مینار آج بھی وقت سے یہی سوال کرتے ہیں:
کیا کبھی میرے زخم بھر پائیں گے؟ کیا کبھی انسانیت اپنی کھوئی ہوئی روشنی کو پا سکے گی؟ صدیوں کے فاصلوں پر محیط دمشق کی گلیوں میں یہ شاہکار جامع اموی، اپنے دامن میں تاریخ کے انمول لمحے سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ مسجد، جس نے اسلامی تہذیب کی گہری سانسوں کو محسوس کیا، کبھی علم کے چراغوں کی روشنی میں جگمگائی، تو کبھی فتنہ و فساد کے دھویں میں مدھم ہوئی۔ مگر اب، جب ہیئۃ تحریر الشام نے اس پر اپنا تسلط قائم کیا ہے، کیا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ اس جامع اموی کی دیواریں، جن پر وقت کے ناخنوں نے کئی زخم چھوڑے، اب ایک نئی کہانی سنانے کو تیار ہیں۔ یہ کہانی شاید اقتدار کی نہیں، بلکہ روایات کے احیا کی ہوسکتی ہے، یا پھر شاید ایک ایسی دنیا کی امید کی، جہاں دین اور دنیا کی ہم آہنگی ممکن ہو۔ لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا طاقت کے زور پر مسجد کے ماضی کو ایک "روشن مستقبل” میں ڈھالا جا سکتا ہے، مسجد کے گنبد، جو کبھی آسمانوں سے باتیں کرتے تھے، آج ایک عجیب سکوت میں لپٹے ہیں۔ شاید یہ انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی پھر سے ان میں زندگی کی روح پھونکے۔ ہیئۃ تحریر الشام کا قبضہ ایک طرف ان گنبدوں کو نیا رنگ دینے کا دعویٰ کرتا ہے، تو دوسری طرف یہ خطرہ بھی ساتھ لاتا ہے کہ کہیں یہ رنگ تاریخ کے اصل عکس کو دھندلا نہ دے، جامع اموی، جو ہمیشہ علم، روحانیت، اور سماجی ہم آہنگی کی علامت رہا، کیا دوبارہ ان صفات کو اپنا سکے گا؟ یا یہ نئی قوتوں کے ہاتھوں محض ایک سیاسی اکھاڑہ بن جائے گا؟ یہ سوال نہ صرف مسجد کے تقدس کے بارے میں ہے بلکہ پورے مسلم معاشرے کے مستقبل کے بارے میں بھی ہے، جامع اموی، جس نے وقت کے ہر موڑ پر اپنے وجود کو باقی رکھا، آج ایک نئے سفر کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ اگر یہ سفر واقعی "دورِ زریں” کا آغاز ہے، تو اس کی روشنی پورے عالم اسلام پر پڑے گی۔ مگر اگر یہ محض ایک عارضی دعویٰ ہے، تو شاید اس مسجد کی دیواریں ایک اور صدی کے آنسو اپنے دامن میں سمیٹنے پر مجبور ہوں گی، جامع اموی کی اصل روح وہ ہے جو انسانوں کو جوڑتی ہے، نہ کہ انہیں تقسیم کرتی ہے۔ اگر ہیئۃ تحریر الشام اس روح کو زندہ کر سکے، تو یہ دورِ زریں حقیقی ہوگا؛ وگرنہ یہ ایک اور تاریخ کا دھندلا باب بن جائے گا۔ جامع اموی دمشق، تاریخ کے صفحات میں وہ جگمگاتا ہوا ستارہ ہے، جو نہ صرف اپنی معمارانہ عظمت کے لیے مشہور ہے بلکہ روحانیت کے گہرے اسرار سے بھی معمور ہے۔ اس کے میناروں نے نہ جانے کتنے اذانوں کی گونج سنی، اس کے صحن نے نہ جانے کتنے عابدوں کے سجدے جذب کیے، اور اس کی فضاؤں میں نہ جانے کتنی دعائیں پروان چڑھیں۔ مگر اس کے ساتھ ایک اور پہلو جڑا ہوا ہے، جو اس کی تقدیر کو قیامت کی قریب آتی گھڑیوں سے باندھ دیتا ہے ، یہ روایتیں، جنہیں احادیث کی معتبر کتابوں میں جگہ ملی، بتاتی ہیں کہ قرب قیامت کے وقت جامع اموی دمشق ایک ایسی داستان کا حصہ بنے گا، جس کے صفحات آخری زمانے کے عظیم واقعات سے مزین ہوں گے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب دجال کا فتنہ زمین کو اپنی تاریکی میں لپیٹ لے گا، تو آسمان سے ایک نور نازل ہوگا، اور وہ نور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی بشارت دے گا، یہ وہی دمشق ہے، اور یہی جامع اموی، جس کے مشرقی مینار پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔ سفید لباس میں ملبوس، ان کے وجود سے روشنی پھوٹے گی، ان کے ہاتھوں سے امن اور عدل کا پیغام جھلکے گا۔ جامع اموی کا یہ مینار، جو آج بھی دنیا کے سامنے سر بلند ہے، کل کے دن عیسیٰ علیہ السلام کے استقبال کی تیاری میں ہوگا، سوچیے، وہ منظر کیسا ہوگا، جب جامع اموی کی گلیاں نورانی ہجوم سے بھر جائیں گی، اور وہاں کا ہر ذرا عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی گواہی دے گا۔ اذان کی صدا اور اس نورانی وجود کے قدموں کی چاپ، امت مسلمہ کے دلوں میں امید کی وہ شمع جلائے گی، جو شاید وقت کے تھپیڑوں سے مدھم ہو چکی ہوگی۔ یہ جامع اموی صرف پتھروں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مقدس یادگار ہے، جو ماضی کے شاندار قصوں، حال کے درسوں، اور مستقبل کے وعدوں کا امین ہے۔ قیامت کے قریب اس کی گونج، اس کے مینار، اور اس کی فضائیں آخری زمانے کی سچائیوں کی داستان سنائیں گے۔یقیناً، جامع اموی دمشق، اس کائناتی کہانی کا وہ کردار ہے، جو قیامت کی گھڑیوں میں تاریخ کو دوبارہ اپنی بلندی پر لے آئے گا۔،شام! یہ وہ سرزمین ہے جو انبیاء کے نقش قدم سے معمور ہے، جہاں کی فضائیں وحی کی مہک سے معطر ہیں، اور جہاں کے در و دیوار قرآن کے لہجوں کے گواہ ہیں۔ لیکن آج یہ دھرتی خون کے آنسو روتی ہے، انسانی المیے کی گونج بن چکی ہے، اور اس کی وادیاں جلتے خوابوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ کیا یہ انقلاب، یہ خوں آشامی، اور یہ قیامت خیز حالات وہی ہیں جن کی بازگشت احادیث نبویہ میں سنائی دیتی ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ شام کی سرزمین آخری زمانے میں فتنوں کا مرکز بنے گی۔ یہ وہ خطہ ہوگا جہاں حق و باطل کے معرکے برپا ہوں گے، جہاں اہل ایمان کی جماعت جمع ہوگی، اور جہاں قیامت کے قریب عظیم جنگ (ملحمہ) کا میدان لگے گا۔ آج شام کے حالات، ان پیشین گوئیوں کی تصویر معلوم ہوتے ہیں۔ ہر گلی، ہر کوچہ، ہر شہر گویا تاریخ کے کسی المناک باب کا حصہ بن چکا ہے۔
یہ انقلاب، جو آزادی کی جستجو میں اٹھا، ایک عالمی کھیل کا شکار ہوگیا۔ بڑے بڑے طاقتوروں نے اپنے مفادات کے جال بچھا دیے، اور مظلوم انسانیت بیچ میں کچلی جاتی رہی۔ احادیث کی روشنی میں، یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ظلم و ستم، یہ خون خرابہ، اور یہ آزمائش آخری زمانے کی نشانیوں میں شامل ہیں؟
شام، جہاں کی وادیوں نے معراج کی گواہی دی، آج انسانیت کی پستی کی مثال بن چکی ہے۔ لیکن ان ہی احادیث میں روشنی کی کرن بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شام میں اہل ایمان کا مرکز ہوگا۔ یہ سرزمین، آزمائش کے بعد، ایمان کی بہار کا مرکز بنے گی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ انقلاب بھی اس بڑے منظر نامے کا ایک حصہ ہو، جو قرب قیامت کے لیے ترتیب دیا جا رہا ہے۔
کیا ہم اس وقت کے قریب ہیں جب دجال کا فتنہ برپا ہوگا؟ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے سفید مینار پر اتریں گے؟ جب حق و باطل کے درمیان آخری معرکہ ہوگا؟ یا شاید یہ سب محض آزمائش ہے، جو امت کے لیے ایک درس بنے۔
شام کی فضائیں آج غم و الم سے بوجھل ہیں، لیکن ان ہی فضاؤں میں امید کے چراغ بھی روشن ہیں۔ اللہ کے وعدے اٹل ہیں، اور حق کی فتح قریب ہے۔ شاید یہ انقلاب، اس بڑے امتحان کا آغاز ہو، جو ہمیں قرب قیامت کی تیاری کے لیے بیدار کر رہا ہے۔
یہ سرزمین، جو انبیاء کی سرزمین ہے، آخرکار ایمان و صداقت کا پرچم بلند کرے گی۔ شام کا انقلاب محض ایک جنگ نہیں، یہ تاریخ کا وہ موڑ ہے جو ہمیں قیامت کی حقیقت سے قریب تر کر رہا ہے۔