ملک شام اور شہر دمشق کا تعارف اور تاریخ
ترتیب: محمد قمر الزماں ندوی
_____________________
ملک شام کا تذکرہ حدیث و روایات اور تاریخ و سیرت کی کتابوں میں کثرت سے موجود ہے ، سرزمین حجاز مکہ و مدینہ کا اس خطہ سے بہت گہرا سیاسی تجارتی اور خارجی و داخلہ ربط رہا ہے ، یہ لوگ تجارت کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے ،خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے تجارتی مقصد سے یہاں کا سفر دو بار فرمایا تھا ۔یہ سرزمین انبیاء کرام کی سرزمین ہے ،یہاں کثرت سے انبیاء کرام مبعوث ہوئے اور ان کی آخری ارام گاہیں یہاں ہیں ،اس سرزمین کی فضیلت میں متعدد احادیث موجود ہیں ۔
تقریبا نصف صدی سے اس ملک پر ڈکٹیٹر اور جابر و ظالم اسد خاندان کا قبضہ تھا ،جس نے شام کو عقوبت خانے میں بدل دیا تھا اور ظلم و جبر کی وہ تاریخ دہرائی کہ نازی اور ہیٹلر بھی شرما جائے ،صیادنا جیل کی کارگزاری اور وہاں کی اذیتوں کو سنیں گے تو آپ کانپ جائیں گے ۔
لیکن الحمد للّٰہ آج عرصئہ دراز بعد یہاں آزادی کی صبح نمودار ہوئی اور دمشق کی جامع مسجد میں کئی دہائیوں کے بعد مسلمانوں نے زمزمئہ توحید بلند کیا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر شکر ادا کیا اور اب مسجد میں نماز شروع ہوگئی ہے ۔
پورے شام میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلمان خوشی و مسرت سے جھوم اٹھے ، بعید نہیں یہ فتح بشارت و نوید ثابت ہو اور کل فلسطین اور مسجد اقصیٰ میں بھی ہم فتح کا جشن منائیں کیونکہ یہ سچ ہے کہ
طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
آج کی مجلس میں ہم صرف شام اور شہر دمشق کا تعارف کرائیں گے اور حالیہ واقعات اور نتائیج پر بعد میں گفتگو کریں گے ، یہ صرف اس لیے کہ اس خطہ کا تعارف ہو جائے اور شہر یاسمین یعنی دمشق کے ماضی اور حال سے ہم واقف ہو جائیں اور اس ملک اور اس عظیم اور قدیم شہر کی تاریخ ہمارے سامنے اجائے ۔ موجودہ سیاسی تبدیلی اور فتح اور مستقبل کے امکانات و خدشات پر گفتگو ہم اگلی قسط میں کریں گے ،امید کہ قارئین اس تحریر کو توجہ سے پڑھیں گے اور اپنی تاریخ سے واقفیت حاصل کریں گے ۔
شام (سیریا) کی تاریخ ایک قدیم اور متنوع تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہ خطہ تہذیبوں کے آغاز سے ہی انسانی تمدن کا مرکز رہا ہے اور یہاں مختلف قوموں، ثقافتوں، اور سلطنتوں نے اپنا اثر چھوڑا ہے۔
قدیم دور:
- قدیم تہذیبیں: شام کی تاریخ 3000ء قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ یہ خطہ میسوپوٹیمیا، کنعانی، اور فینیشین تہذیبوں کے درمیان اہم پل کا کام کرتا تھا۔
- ایبلا تہذیب: ایبلا (Ebla) ایک قدیم شامی شہر تھا جو 2400 قبل مسیح میں ایک طاقتور سلطنت کا مرکز تھا۔
- عبرانی اور آرامی قومیں: شام میں عبرانی اور آرامی زبان بولنے والے قومیں آباد تھیں، اور اس خطے نے ان کی ثقافت کو پروان چڑھایا۔
یونانی اور رومی دور:
- یونانی فتح: 333 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے شام کو فتح کیا، اور اس کے بعد یہ خطہ یونانی سلطنت کے زیر انتظام رہا۔
- رومی سلطنت: 64 قبل مسیح میں شام رومی سلطنت کا حصہ بن گیا، اور اس دور میں دمشق اور انطاکیہ جیسے شہر اہم تجارتی مراکز بنے۔
اسلامی دور:
اسلامی فتح: 7ویں صدی عیسوی میں شام کو اسلامی خلافت کے تحت لایا گیا، اور یہ خلافت امویوں کا مرکز بن گیا۔
اموی خلافت:
دمشق اموی خلافت کا دارالحکومت رہا، اور اس دور میں شام ایک عظیم علمی، ثقافتی، اور سیاسی مرکز بن گیا۔
صلیبی جنگیں اور مملوک دور:
- صلیبی جنگیں: 11ویں صدی سے 13ویں صدی تک شام صلیبی جنگوں کا مرکز رہا، جس میں مختلف یورپی طاقتوں نے یہاں قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
- مملوک سلطنت: صلیبی جنگوں کے بعد شام مملوک سلطنت کے زیر انتظام آیا۔
عثمانی دور:
- عثمانی خلافت: 1516 میں شام عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا اور تقریباً چار صدیوں تک عثمانیوں کے زیر اقتدار رہا۔
- ثقافتی ترقی: عثمانی دور میں شام نے ثقافتی اور تجارتی لحاظ سے ترقی کی۔
جدید دور:
- فرانسیسی قبضہ: پہلی جنگ عظیم کے بعد شام پر فرانس کا قبضہ ہو گیا، اور یہ 1920 سے 1946 تک ایک فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت رہا۔
- آزادی: 1946 میں شام نے آزادی حاصل کی اور ایک آزاد ریاست بنی۔
- سیاسی اتار چڑھاؤ: 20ویں اور 21ویں صدی میں شام کو سیاسی عدم استحکام، اندرونی تنازعات، اور حالیہ خانہ جنگی جیسے چیلنجز کا سامنا رہا۔
موجودہ دور:
شام آج ایک اہم عرب ملک ہے لیکن 2011 سے جاری خانہ جنگی نے اس کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تاہم، اس کی قدیم تاریخ اور ثقافت آج بھی اسے ایک اہم تاریخی خطہ بناتی ہے۔
شام نے 1946 میں فرانس سے آزادی حاصل کی اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ خطہ مختلف سیاسی تبدیلیوں، جنگوں، اور اندرونی و بیرونی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ آزادی کے بعد شام کی تاریخ کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- 1946-1963: آزادی اور ابتدائی سیاسی استحکام کی کوششیں
- آزادی کے بعد شام میں جمہوری نظام قائم کیا گیا، لیکن ابتدائی سالوں میں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔
- مختلف سیاسی جماعتوں، خاص طور پر بعث پارٹی اور ناصری نظریات (پین عرب ازم) کے حامیوں کے درمیان اقتدار کے لیے کشمکش جاری رہی۔
- 1958 میں شام نے مصر کے ساتھ اتحاد کرکے "متحدہ عرب جمہوریہ” قائم کی، لیکن یہ اتحاد 1961 میں ختم ہو گیا۔
1963-1970: بعث پارٹی کا اقتدار
1963 میں بعث پارٹی نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا۔ اس کے بعد شام ایک یک جماعتی ریاست بن گئی۔
بعث پارٹی نے سوشلسٹ نظریات اپنائے اور معیشت کو قومیانے کے اقدامات کیے۔
اس دوران فوج کا سیاست میں کردار بہت مضبوط ہو گیا۔
1970-2000: حافظ الاسد کا دور حکومت
- 1970 میں حافظ الاسد نے ایک "اصلاحی تحریک” کے ذریعے اقتدار حاصل کیا اور شام کے صدر بنے۔
- ان کے دور میں شام میں سیاسی استحکام آیا، لیکن یہ ایک سخت گیر آمرانہ نظام تھا۔
- حافظ الاسد نے عرب اسرائیل تنازع میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر 1973 کی جنگ میں۔
- شام نے لبنان میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کیا اور 1976 میں لبنان کی خانہ جنگی میں مداخلت کی۔
- یہ دور اقتصادی ترقی اور قومی سطح پر استحکام کا تھا، لیکن سیاسی آزادیوں پر سخت پابندیاں تھیں۔
- 2000-2011: بشار الاسد کا ابتدائی دور
- 2000 میں حافظ الاسد کی وفات کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد صدر بنے۔
- بشار الاسد نے ابتدائی طور پر اصلاحات اور اقتصادی ترقی کے وعدے کیے، لیکن سیاسی میدان میں آزادیوں کی سختی جاری رہی۔
- اس دوران شام نے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، لیکن عراق جنگ اور لبنان کے معاملات میں اختلافات پیدا ہوئے۔
- 2005 میں لبنان کے سابق وزیرِاعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد شام پر شدید عالمی دباؤ آیا۔
- 2011-اب تک: خانہ جنگی اور موجودہ حالات
- 2011 میں "عرب بہار” کے دوران شام میں بھی مظاہرے شروع ہوئے۔ عوام نے سیاسی اصلاحات، آزادی، اور بشار الاسد کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
- حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔
- اس جنگ میں مختلف دھڑے شامل ہو گئے، جن میں حکومت، باغی گروپ، کرد ملیشیا، اور داعش جیسے شدت پسند گروہ شامل تھے۔
- خانہ جنگی میں ایران، روس، ترکی، اور امریکہ سمیت کئی غیر ملکی طاقتوں نے مداخلت کی۔
- 2014 میں داعش نے شام اور عراق کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا، لیکن بعد میں مقامی اور عالمی اتحادی افواج نے ان کے زیرِ قبضہ علاقوں کو آزاد کرایا۔
- خانہ جنگی کے باعث شام کی معیشت تباہ ہو گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اور لاکھوں افراد مہاجرین بن کر دیگر ممالک میں چلے گئے۔
موجودہ حالات:
آج شام ایک تباہ حال ملک ہے۔ بشار الاسد کی حکومت زیادہ تر علاقوں پر قابض ہے، لیکن کچھ حصے اب بھی باغیوں یا کرد فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔
روس اور ایران بشار الاسد کی حکومت کے بڑے حامی ہیں، جبکہ مغربی ممالک اور ترکی مختلف باغی گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔
شام کی معیشت شدید بحران کا شکار ہے، اور عام عوام کو بنیادی ضروریات کی کمی کا سامنا ہے۔
ملک کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے، لیکن بین الاقوامی پابندیاں اور اندرونی عدم استحکام کے باعث یہ عمل مشکل ہے۔
نتیجہ:
شام آزادی کے بعد ایک اہم عرب ملک کے طور پر ابھرا، لیکن خانہ جنگی اور عالمی تنازعات نے اسے شدید نقصان پہنچایا۔ اس کی بحالی اور استحکام کے لیے سیاسی حل اور عالمی تعاون ضروری ہیں۔
یہ تاریخ و تفصیل اس شام کی ہے جہاں صبح نمودار نہیں ہوئی تھی، اب الحمد للّٰہ شام میں صبح ہوچکی ہے اور تمام قیدی رہائی پاچکے ہیں اور ایک نئی صبح ہوچکی ہے ،ظالم اپنے انجام تک پہنچنے والے ہیں ، ظالم و جابر بشار اسد اپنی فیملی کے ساتھ ملک سے فرار ہوکر روس بھاگ چکا ہے ، انصاف کا ہاتھ اس ظالم تک پہنچے گا اور یقینا پہنچے گا اور وہ اپنے کیفر کردار تک پہنچانے گا ۔
___________________
یاسمین کا شہر دمشق کا تعارف
دمشق، جو اپنی قدیم تاریخ، ثقافتی عظمت اور علمی ورثے کے لیے مشہور ہے، دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر نہ صرف اسلامی تہذیب بلکہ دیگر قدیم تہذیبوں کا بھی مرکز رہا ہے۔ اسے "مدینہ الیاسمین” یعنی یاسمین کے پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے اور اس کا ذکر تاریخ کے صفحات میں ایک نمایاں مقام کے ساتھ ملتا ہے۔
محل وقوع اور رقبہ:
دمشق شام کے جنوب میں واقع ہے اور اس کا محل وقوع تاریخی و تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر 690 میٹر کی بلندی پر واقع ایک ہموار زمین پر قائم ہے، جہاں سے جبلِ شیخ اور لبنان کے مشرقی پہاڑ نظر آتے ہیں۔ دمشق کے قلب میں بہنے والا دریائے بردی شہر کو دو حصوں "قدیم دمشق” اور "جدید دمشق” میں تقسیم کرتا ہے۔
شہر کی کل رقبہ 105 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ پوری دمشق گورنری کا رقبہ 26 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہاں کی سرزمین، تاریخی تجارتی راستوں کے گزرگاہ ہونے کی وجہ سے، دنیا بھر کے قافلوں کا اہم پڑاؤ رہی ہے۔
آبادی
2023ء کے مطابق دمشق کی آبادی 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ شہر مختلف مذاہب اور قومیتوں کا مرکز ہے، جہاں مسلمان، مسیحی، یہودی، کرد، دروز، علوی اور دیگر اقوام کے افراد آباد ہیں۔
نام کی وجہ تسمیہ
دمشق کے نام کی کئی روایتیں ہیں، جن میں سب سے مشہور یہ ہے کہ یہ نام آشوری زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی "شاداب زمین” یا "آباد زمین” کے ہیں۔
دمشق کو کئی القابات سے یاد کیا جاتا ہے، جیسے: "ذات العماد”، "إرم ذات العماد”، "جلق”، "شام شریف”، "درة الشرق” اور "شامۃ الدنیا”۔
تاریخ کا ایک مختصر جائزہ
دمشق کی تاریخ 9000 قبل مسیح تک جاتی ہے، جب اس کے آس پاس تل الرماد کے آثار ملے تھے۔ بعض مورخین کے مطابق، یہ زمین پر طوفان نوح کے بعد بسائی جانے والی دوسری قدیم ترین بستی ہے۔
رومیوں نے 64 قبل مسیح میں دمشق کو فتح کیا اور اسے ایک اہم تجارتی مرکز بنایا۔ بعد ازاں، اسلام کے عروج کے ساتھ، یہ شہر اموی خلافت کا دارالحکومت بن گیا۔ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اس میں جامع اموی تعمیر کروایا، جو آج بھی اسلامی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔
عباسی خلافت کے دوران بغداد کو زیادہ اہمیت دی گئی، مگر دمشق اپنی علمی اور ثقافتی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔
اسلامی فتح
دمشق کو 14 ہجری (635 عیسوی) میں عظیم اسلامی کمانڈر اور صحابی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فتح کیا گیا۔ یہ فتح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔ دونوں عظیم سپہ سالاروں نے اسلامی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے رومی سلطنت (بازنطینی سلطنت) کے خلاف شاندار حکمت عملی اپنائی اور دمشق کو فتح کیا۔ فتح دمشق کے بعد، اسلامی حکومت نے اس شہر میں امن و امان قائم کیا اور اسے خلافت کا ایک اہم مرکز اور دارالخلافہ بنا دیا۔ اس کے بعد، دمشق اموی خلافت کا دارالحکومت بھی رہا، جہاں سے اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا۔ خلافت امویہ کے دوران، دمشق نے فنون، تعلیم اور سیاست میں ایک بے مثال ترقی دیکھی۔ صلاح الدین ایوبی کے دور میں دمشق ایک بار پھر اسلامی اتحاد اور صلیبی جنگوں کے خلاف مزاحمت کا مرکز بن گیا۔
فرانسیسی حکمرانی اور آزادی
پہلی جنگ عظیم کے بعد دمشق برطانوی حمایت یافتہ عربوں کے قبضے میں آیا، مگر جلد ہی 1920ء میں یہ فرانسیسی تسلط میں چلا گیا۔ 1946ء میں دمشق نے شام کے ساتھ آزادی حاصل کی اور ایک مرتبہ پھر اپنی قدیم عظمت کا پرچم بلند کیا۔ فرانسیسیوں نے شام حافظ الاسد جیسے شقی القلب آمر کے حوالے کیا تھا، اس لیے صیدیانا جیسی دنیا کی خطرناک ترین جیلیں اور عقوبت کدے بھی دمشق کے روشن ماتھے میں کلنک کا نشان بن گئے۔
معاشی و ثقافتی اہمیت
دمشق قدیم زمانے سے صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے، جیسے کہ تانبے پر نقش کاری، کپڑے کی بُنائی اور لکڑی پر صدف سے تزئین۔ یہاں تاریخی بازار اور جدید صنعتی علاقے موجود ہیں۔
اہم مقامات
دمشق تاریخی و مذہبی مقامات سے مالامال ہے، جن میں جامع اموی، سوق الحمیدیہ، قلعہ دمشق اور المکتبہ الظاہریہ شامل ہیں۔ یہاں کی مسجد اموی اسلامی تاریخ کا ایک زندہ شاہکار ہے، جبکہ سوق الحمیدیہ مشرق وسطیٰ کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے۔
شامی انقلاب اور دمشق
2011ء میں عرب بہار کے دوران دمشق بھی عوامی احتجاجات کی لپیٹ میں آیا۔ یہاں کے مظاہروں نے جلد ہی پورے ملک کو متاثر کیا اور یہ شہر ایک سیاسی کشمکش کا مرکز بن گیا۔
دمشق، جو کئی تہذیبوں کا امین ہے، آج بھی تاریخ، ثقافت، اور اسلامی ورثے کا ایک روشن ستارہ ہے، جسے "مدینۃ الیاسمین” کے نام سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ اب یہ اپنے حقیقی وارثوں کی راہ تک رہا ہے اور بے چینی سے ان کے لیے بانہیں کھولے منتظر ہے۔ اللہ کرے کہ دمشق کے بیٹے جلد اس سے ہم آغوش ہوں اور ایرانی طورانی درندوں کے پنجۂ استبداد سے اپنے شہرِ یاسمین کو آزادی دلا کر اس کی خوشبوئیں اسے لوٹا دیں۔
(ضیاء چترالی کی تحریر سے مستفاد)