حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے
حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے
✍️انور آفاقی دربھنگہ
دربھنگہ جسے متھلا بھی کہا جاتا ہے اس کی اپنی ایک تاریخی ،علمی اور ادبی حیثیت زمانہ قدیم سے رہی ہے۔ اسی ( متھلا/ دربھنگہ) سر زمین کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہاں میتھلی زبان کے عظیم شاعر مہا کوی ودّیا پتی نے جنم لیا جن کا علمی و ادبی مرکز بھی یہی متھلانچل رہا۔ ودیا پتی کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کا میتھلی زبان سے انگریزی کے ساتھ کئی دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ۔ اسی شہر کو یہ مقام و مرتبہ بھی حاصل ہے کہ ملا ابو الحسن جیسے قابل و فاضل شخصیت کا مسکن بھی یہی متھلا تھا۔ ملا ابوالحسن مغل بادشاہ عالمگیر کے دربار میں کسی خاص عہدہ پر فائز تھے اور ” فتاوی عالمگیری ” کے مرتبین میں شامل تھے ۔ وہ بادشاہ عالمگیر کی صاحبزادی ، شہزادی زیب النساء کے اتالیق بھی تھے ۔ یہیں مولوی محمد صلاح الدین خامؔوش ابن شاہ کلام مجتبی پیدا ہوئے جو نہ صرف ایک عالم دین تھے بلکہ ایک صاحب دیوان شاعر بھی تھے ۔ مولوی شرف الدین طاؔہر بھی ایک خوش فکر اور عمدہ شاعر تھے ۔ منشی بہاری لال فؔطرت کا وطن بھی یہی متھلا/دربھنگہ تھا۔ ان کو اردو اور فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی۔ شاعری کے ساتھ ایک قصیدہ بھی مہاراجہ دربھنگہ کے لئے لکھا تھا۔ وہ اپنی مشہور تاریخی تصنیف ” آئینہءِ ترہت” کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ اسی متھلا / دربھنگہ کے رہنے والوں میں منشی آسارام ذؔوق ،امبیکا پرساد شؔمس ، منشی ایودھیا پرساد بؔہار ، منشی مہادیو پرساد منؔظر، شاداں ، محسن دربھنگوی ، مولانا عبدالعلیم آسی، شاداں فاروقی، اجتبی حسین رضوی ، اویس احمد دوراں ، حافظ عبد المنان طرزی وغیرہ جیسی علمی و ادبی ہستیوں کے نام شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ ایسے سینکڑوں نام ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب اور شعر و شاعری کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا۔
میں جس زمانے ( 1970 سے 1974) میں دربھنگہ
شہر میں زیر تعلیم تھا ۔ یہاں کی کئی علمی و ادبی شخصیتوں کے نام اور ادبی کارناموں سے واقف ہو گیا تھا۔ یہ وہ شعراء و ادبا تھے جن کی تخلیقات رسالوں میں شائع ہو ری تھیں۔ اس زمانے میں قلعہ گھاٹ میلان چوک پر ایک قدیم طرز کا خوبصورت مکان ہوا کرتا تھا جو شعرا و ادباء کے لئے ایک مرکزی حثیت رکھتا تھا۔ یہ مکان”امیر منزل ” کے نام سے مشہور تھا ۔ یہی امیر منزل حسن امام دؔرد، مظہر امام اور منظر امام کا آبائی گھر تھا ۔ اسی امیر منزل میں اردو زبان و ادب کی بڑی بڑی با کمال ہستیاں جمع ہوا کرتی تھیں ۔ زمانہءِ طالب علمی میں مجھے ان میں سے چند معتبر ہستیوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ، انہیں
قریب سے دیکھنے کے مواقع بھی ملتے رہے ۔
پھر جب میں دسمبر 1974 میں بی ۔ ایس سی کے امتحان سے فارغ ہوا تو بوکارو اسٹیل سیٹی چلا گیا جہاں میرے والدِ محترم ایک بڑی تعمیراتی کمپنی میں اہم عہدہ پر فائز تھے ۔ وہیں مجھے پہلی مرتبہ محترم حسن امام دؔرد صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر جلد ہی انکی قربت بھی میسر ہوئی ۔ حسن امام درد ایک شریف النفس اور نہایت مخلص انسان تھے ۔ ان کی طبیعت میں درویشی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، گفتگو میں نرمی اور مٹھاس تھی۔ حسن امام درؔد کی ولادت "امیر منزل” قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں پہلی نومبر 1925 کو ہوئی تھی ۔ ان کے والد سید امیر علی پوسٹل ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے اور لہیریا سرائے پوسٹ آفس دربھنگہ میں” پوسٹ ماسٹر”
کے عہدہ پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ وہ بھی اسی متھلا/ دربھنگہ کے باسی تھے ۔
درؔد صاحب ایک کامیاب اور استاد شاعر تو تھے ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عمدہ افسانہ نگار بھی تھے ۔ صحافت اور تحقیق کے میدان میں بھی وہ بہت فعال تھے۔ انہوں نے مجاہد آزادی مولانا عبدالعلیم آسی کے ساتھ ان کی ہی قیادت میں 1942 کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا تھا۔ وہ سب مل کر ہر کام خفیہ طور پر کیا کرتے تھے تاکہ حکومت کے کارندوں کو انکی اس انگریز مخالف تحریک کا علم نہ ہو۔ مگر جب ان کے خفیہ کاموں کی خبر انگریز عہدہ داروں کو ہوئی تو ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا گیا ۔ باہمی صلاح و مشورے کے بعد طئے پایا کہ دربھنگہ کو چھوڑ کر کہیں باہر چلے جانا چاہئے۔ لہذا یہ کلکتہ چلے گئے اور پھر وہیں صحافت سے جڑ گئے ۔ حسن امام درد کلکتہ میں 1942 سے 1945 تک مقیم رہے ۔ جب دربھنگہ میں حالات سازگار ہوئے تو پھر جون 1945 میں دربھنگہ چلے آئے۔ دربھنگہ میں ادبی فضا کو مستحکم کرنے کی غرض سے 1944 میں ایک انجمن ” اردو ادارہ” کے نام سے وجود میں آئی تھی جس کے بانی و روح رواں مولانا عبدالعلیم آسی اور ان کے رفقاء تھے ،حسن امام درد جب کلکتہ سے 1945 میں دربھنگہ لوٹے تو ان کو اردو ادارہ کا سکریٹری بنا دیا گیا۔
اس ادبی انجمن” اردو ادارہ ” میں ہر ہفتہ پابندی سے ادبی نشست منعقد ہوا کرتی تھی ۔ اس کا مرکز بھی یہی امیر منزل ہوا کرتا تھا ۔ یہاں شعر و شاعری کے ساتھ اردو ادب کے دوسرے اصناف پر بھی طبع آزمائی ہوتی تھی ۔ افسانے اور مضامین پڑھے جاتے اور پھر ان پر تعمیری تنقیدیں اور تبصرے بھی ہوا کرتے تھے۔ حسن امام درد کی ادبی دنیا میں داخلے کا سبب یوں تو ان کی شاعری بنی مگر پھر انہوں نے تواتر سے افسانے لکھنے شروع کر دیے ۔ انہوں نے 50 سے زیادہ افسانے اور اتنے ہی "تحقیقی اور تنقیدی مقالے بھی لکھے ۔انہوں نے کئی ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کئے جو ریڈیو سے نشر بھی ہوئے ۔ ان کے افسانے” تجلی” کلکتہ ، ” نغمہ و نور” کلکتہ ، ” نقاش” کلکتہ ، ” نئی کرن” دربھنگہ ، "معاون ” کلکتہ ، ” صدائے عام” پٹنہ ، وغیرہ میں 1944 اور 1953 کے درمیان شائع ہوتے رہے۔
انہوں نے ایک افسانوی مجموعہ بھی ترتیب دیا تھا مگر افسوس کہ وہ شائع نہیں ہو سکا ۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں کب ضائع ہو گیا کہ پتہ بھی نہیں چل سکا ۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ مسوّدہ نہیں مل سکا ۔ حسن امام درد کا ایک افسانہ” چیخ” ، افسانوں کے انتخاب کے مجموعہ "گلابی بادے ” کلکتہ میں شائع ہوا تھا جسے محترمہ ریحانہ سلطان پوری نے ترتیب دیا تھا ۔ اپنے اس منتخب افسانوں کے مجموعہ میں حسن امام درد صاحب کا ریحانہ سلطان پوری نے تعارف کراتے ہوئے جو لکھا تھا اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس پائے کے افسانہ نگار تھے ۔ اس اقتباس کو قارئین کے لئے درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں :
"انہیں قدرت نے افسانہ لکھنے کا خاص سلیقہ عطا کیا ہے اور ان کی تحریر میں وہ بات پائی جاتی ہے جو اکثر مشاہیر کے یہاں کمیاب ہے ۔ مگر بہاری ہیں ، اس لیے کبھی اپنی شہرت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ اگر یہ اپنی تحریروں سے مسلسل ملک کو روشناس کراتے رہتے تو آج ان کا شمار بھی صف اول کے فنکاروں میں ہوتا”۔
افسانوں کے انتخاب کا یہ مجموعہ بھی اب ناپید ہے۔
حسن امام دؔرد کئی اخبار و رسائل سے منسلک رہے جن میں ” آبشار "کلکتہ، ” آزاد ہند ” کلکتہ، ہفتہ وار ” آدرش” پٹنہ ، ” دور حاضر ” ، ” عصر جدید” کلکتہ، روزنامہ” غریب کی دنیا” پٹنہ ، "کارواں” کلکتہ، "شفق” بوکارو اسپات نگر ،” نئی کرن” ،” الپنا ” اور” تمثیل نو” دربھنگہ وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ ان کی شاعری کا ایک ہی مجموعہ "حصار درد” کے عنوان سے 1999ء میں شائع ہوا جسے بہت پسند کیا گیا ۔ ڈاکٹر جگن ناتھ
آزاد ، حسن امام درؔد کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” حسن امام دؔرد نے اپنی شاعری کو کسی مخصوص دائرے میں قید نہیں کیا۔ انہوں نے حیات و کائنات کے دوسرے مسائل کی طرف بھی توجہ کی اور انہیں اپنی شاعری کا جز بنایا ۔ انہوں نے فکر و شعور کو جذبے میں تبدیل کر کے ایسی شاعری پیش کی ہے جو دل کو چھوتی ہے”۔
حسن امام درؔد کی شاعری کے بارے میں بعض تنگ
نظر اور کم علم لوگوں کا خیال ہے کہ انکی شاعری متھلانچل کے دائرے میں محدود ہے اور ان کی شاعری میں آفاقیت کا فقدان ہے ۔اگر ایسا ہے تو انکی نظم "جرمنی کی شکست” ، ” بوجھ ” ، ” 1 مئی ” اور ، ” جمہوریہ ہند” کو کس خانے میں رکھیں گے ۔
یہاں میں دؔرد کی شاعری کے حوالے سے پروفیسر منصور عمر مرحوم کی اس رائے کو پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو انہوں نے اپنے مضمون ” وسیع تناظر
کا ترقی پسند شاعر: حسن امام درد ” میں تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسن امام درد نے دنیا
اور مسائل دنیا کو وسیع تر تناظر میں رکھ
کردیکھنے اور انہیں اپنے مخصوص لب و لہجہ
میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور
یہی ان کی شاعری کا وصف خاص ہے”۔
اب آئیے اسی تناظر میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی
مرحوم کی رائے بھی جان لیجئے جو وہ حسن امام دؔرد کی غزلوں کے لئے رکھتے تھے ۔ وہ رقم طراز ہیں:
” حسن امام درد کی غزلوں میں صرف دروں بینی اور مشاہدہءِ ذات نہیں ہے بلکہ تمام عالم انسانیت پر ان کی نظر ہے” ۔
حسن امام درد نے مولانا عبدالعلیم آسی کی تخلیقات جو ڈائری اور صفحات پر بہت خستہ حالت میں منتشر تھیں ، کو بڑی محنت سے جمع کیا ۔ ان کی شاعری کو” منظومات آسی” اور ان کی نثری تخلیقات کو” منثورات آسی "کے نام سے ترتیب دے کر 2008 میں شائع کرا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ۔
حسن امام دؔرد کی حیات و خدمات پر مقالہ لکھ کر عبدالمعبود آمر نے 1998 میں للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کی سند پائی۔
معروف و مشہور شاعر و ادیب مظہر امام اور افسانہ نگار و صحافی پروفیسر منظر امام دونوں حسن امام درد کے چھوٹے بھائی تھے ۔ یہ سب اب مرحوم ہو چکے ہیں ۔
روزگار کے سلسلے میں حسن امام دؔرد جمشید پور ، رانچی ، بوکارو اسٹیل سیٹی ، راور کیلا ، درگا پور ، بھلائی اور دامن جوڑی وغیرہ جیسے شہروں میں قیام پذیر رہے اور ایڈمنسٹریشن سپرنٹنڈنٹ کے اعلی عہدہ سے ریٹائر ہو کر اپنے شہر دربھنگہ آگئے۔ ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ دربھنگہ میں پلائی وڈ بنانے والی مشہور کمپنی "متھلا پلائی وڈ انڈسٹریز ” میں بحثیت مینیجر کام کیا۔
حسن امام درد جہاں بھی رہے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمیشہ کوشاں و متحرک رہے ۔ انہوں نے بہت سارے لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دی ۔ بوکارو اسٹیل سیٹی میں اپنے قیام کے دوران کئی لوگوں کو شعر و شاعری کی طرف نہ صرف متوجہ کیا بلکہ ان کی اصلاح بھی فرماتے رہے ۔ بوکارو اسٹیل سیٹی میں ان کی وجہ سے جن لوگوں نے شاعری کی دنیا میں پہلی مرتبہ قدم رکھا ان میں اظہر نیر سر فہرست ہیں۔ ان کی ہی تحریک پر میں بھی شعر کہنے لگا ۔ کوئی ایک درجن سے زیادہ دوسرے احباب بھی ان کے زیر سایہ شاعری کرنے لگے تھے ۔ بوکارو اسٹیل سیٹی میں ان کا گھر ایک ادبی مرکز بن گیا تھا ۔ انہوں نے وہاں انجمن ترقی اردو کی ایک شاخ بھی قائم کی تھی ۔
اردو زبان و ادب سے بے حد محبت کرنے والا زبان و ادب کا یہ سچا سپاہی 25 ستمبر 2012 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور شاہی مسجد قلعہ گھاٹ دربھنگہ کے قبرستان میں آسودہ خواب ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین ۔ آئیے آخر میں حسن امام درد کے چند اشعار آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا چلوں ۔
اپنی خودداری احساس کا سرمایہ ہوں
اپنی تکمیل کو جنت سے نکل آیا ہوں
تیرا بندہ ہی سہی، تیری ضرورت ہوں میں
تیری دنیا کے لیے رحمت و برکت ہوں میں
زمانہ پھر کسی منصور کی تلاش میں ہے
یہ وقت وہ ہے کہ دار و رسن کی بات کریں
حوصلہ مر گیا ہے جینے کا
صبح تاریک رات بھاری ہے
آرزو کا حاصل کیا ایک لفظ حسرت ہے
آپ کو اٹھانے ہیں رنج اور مہن تنہا
اس شدید آندھی میں گھر سے کون نکلے گا
بس ہوا میں اڑتا ہے اپنا پیرہن تنہا
بھیانک شور سناٹا بھیانک
گلی خود راستہ روکے کھڑی ہے
حصارِ عاقبت میں مجھ کو رکھا میرے مرشد نے
مگر دل میں تڑپ تھی میں حصارِ درد تک پہنچا
اے درؔد سب ہی لکھ دیا احوالِ زندگی
لیکن تھا سچ وہی کہ جو بین السطور تھا
اوڑھ کر کینچلی تمدن کی
سانپ کیسا مرا مرا سا تھا
شاید کہیں بھٹک پڑے خوشبوئے انبساط
رکھا ہے میں نے دل کا دریچہ کھلا ہوا