فتنہ ارتداد کی سنگینی: اسباب  اور حل

فتنہ ارتداد کی سنگینی: اسباب اور حل

از: ڈاکٹر سلیم انصاری

جھاپا، نیپال

__________________

اسلام انسانیت کے لیے امن، محبت، اور ہدایت کا دین ہے۔ یہ دین انسانوں کو نجات کا راستہ دکھاتا ہے اور ان کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس دین کی حفاظت کریں اور اپنی نسلوں کو اس کے اصولوں پر گامزن رکھیں۔ لیکن موجودہ دور میں مسلم معاشرے کو فتنہ ارتداد کے مسئلے کا سامنا ہے، جو کہ ایک انتہائی سنگین اور خطرناک چیلنج بن چکا ہے۔ ارتداد کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اسلام کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو قبول کرے یا دین سے لاتعلقی اختیار کرے۔ ارتداد کی سنگینی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ یہ نہ صرف ایک فرد کے ایمان کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے مسلم معاشرے کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ایمان ایک مسلمان کی زندگی کی بنیاد ہے، اور یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جسے ہر حال میں محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ دنیاوی فائدے یا کسی بھی دباؤ کے تحت ایمان کا ضیاع ایک عظیم نقصان ہے، جسے کوئی مادی فائدہ پورا نہیں کر سکتا۔ اسلام میں ایمان کی اہمیت سب سے بلند ہے، کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔

اس مضمون میں ہم ارتداد کی سنگینی پر بات کریں گے اور یہ کہ یہ ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج کیوں ہے۔ ہم اس کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور ان عوامل پر روشنی ڈالیں گے جو ارتداد کی جانب لے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی، ہم ان عملی اقدامات پر بات کریں گے جو مسلمانوں کی ذمہ داری ہیں تاکہ اس فتنے کا سامنا کیا جا سکے۔ اس مضمون کا مقصد مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور ان کے ایمان کو مضبوط بنانے کے لیے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔

ارتداد ایک منصوبہ بند سازش

حالیہ برسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ارتداد کے اس فتنہ میں زیادہ تر مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ صرف انفرادی نہیں رہا بلکہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت لڑکیوں کو دین اسلام سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندو تنظیمیں اس مقصد کے لیے انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا بنیادی مقصد مسلم لڑکیوں کو لالچ دے کر یا ذہنی طور پر قابو میں لے کر انہیں اسلام سے منحرف کرنا ہے۔ تعلیمی ادارے، جیسے اسکول اور کالج، ان تنظیموں کے اہم مراکز بن چکے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق، ہندو تنظیمیں ان اداروں میں موجود مسلم لڑکیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان لڑکیوں کو دوست بنا کر، جذباتی طور پر قابو میں لے کر، یا جھوٹے وعدے اور تعلقات کے ذریعے ورغلایا جاتا ہے۔ ان تنظیموں کی حکمت عملی میں یہ شامل ہے کہ وہ مسلمانوں کے کمزور تعلیمی اور سماجی حالات کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے جال میں پھنسائیں۔

یہ تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو لالچ دینے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ ان میں محبت کے جھوٹے وعدے شامل ہیں، جہاں نوجوان لڑکوں کے ذریعے لڑکیوں سے جھوٹی محبت کا اظہار کر کے انہیں قابو میں لیا جاتا ہے۔ یہ ایک مؤثر طریقہ ہے جس کے ذریعے لڑکیوں کو ان کے جذباتی کمزوریوں کا شکار بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی مدد کا وعدہ بھی ایک عام حربہ ہے۔ تعلیمی میدان میں مدد فراہم کرنے یا اس کا وعدہ کر کے ان لڑکیوں کو ان تنظیموں کے قریب لایا جاتا ہے۔ یہ وعدے ان لڑکیوں کے لیے کشش پیدا کرتے ہیں جو تعلیمی طور پر پسماندگی کا شکار ہوتی ہیں یا بہتر مواقع کی تلاش میں ہوتی ہیں۔

ملازمت اور بہتر زندگی کے خواب دکھا کر بھی مسلم لڑکیوں کو دین سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے سامنے ملازمت کے مواقع اور مالی استحکام کے خواب پیش کیے جاتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے ان کے جال میں پھنس جائیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا استعمال بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان لڑکیوں کے جذبات کو قابو میں کیا جاتا ہے اور انہیں غیر محسوس طریقے سے دین اسلام سے دور کر دیا جاتا ہے۔ یہ حربے نوجوان نسل کو دین سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ارتداد کے اسباب

ارتداد جیسے مسئلے کے بہت سارے اسباب ہیں، جن کا گہرائی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہم یہاں چند اہم اور بڑے اسباب کی نشاندہی کریں گے تاکہ اس مسئلے کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور اس کا حل تلاش کیا جا سکے۔

شادی میں غیر ضروری اخراجات اور فضول رسومات نے اسلامی اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ شادی کی تقریبات میں دکھاوے اور فضول خرچی کے رجحان نے غریب خاندانوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ غریب والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اسلامی اصولوں سے ہٹ کر غیر اسلامی طریقوں کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف دین سے دوری کا باعث بنتا ہے بلکہ سماجی ناہمواریوں کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اسی کے ساتھ، لڑکیوں کی شادی میں تاخیر اور غیر ضروری رکاوٹیں کئی مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ وقت پر شادی نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں غیر ضروری دباؤ اور مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ صورتحال انہیں دین سے دوری اور غیر اسلامی ماحول کی طرف مائل کر دیتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق لڑکیوں کی وقت پر شادی کو یقینی بنائیں تاکہ ان کی حفاظت اور دین پر استقامت قائم رہے۔

مخلوط نظامِ تعلیم دین اور اخلاقیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ نظام، جہاں مرد و خواتین ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں، نہ صرف اخلاقی اور روحانی بگاڑ کا سبب بنتا ہے بلکہ دین سے دوری کا بھی باعث ہے۔ اللہ کی یاد سے خالی یہ تعلیم نوجوانوں کو غیر اسلامی اقدار کے قریب اور اسلامی اصولوں سے دور لے جاتی ہے۔ مخلوط تعلیم کے ماحول میں اسلامی اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے یہ نظام فتنہ پیدا کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ساتھ ہی، غیر مخلوط اور جدید نظامِ تعلیم کا فقدان بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مسلمان لاکھوں کے جلسے اور اجتماعات منعقد کرتے ہیں، لیکن معیاری اور غیر مخلوط اسکول اور کالج قائم نہیں کرتے۔ اس کمی نے نوجوان نسل کو جدید تعلیم کے نام پر غیر اسلامی ماحول میں دھکیل دیا ہے، جہاں ان کے اخلاق اور دین پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تعلیم کا یہ خلا نوجوانوں کو دین سے دوری اور بے راہ روی کی طرف لے جاتا ہے۔

مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی ارتداد کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے نوجوان نسل دین اور دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ دین اور دنیا کی تعلیم سے دوری نوجوانوں کو دین سے بے زاری کی طرف مائل کرتی ہے۔ تعلیمی پسماندگی نے مسلمانوں کو ترقی کے مواقع سے محروم کر دیا ہے اور انہیں دیگر اقوام کے سامنے بے بس کر دیا ہے۔ ساتھ ہی، مخلوط ماحول میں ملازمت نے نوجوان نسل کو اخلاقی گراوٹ اور دین سے دوری کا شکار بنا دیا ہے۔ دفاتر اور کام کے مقامات جہاں مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں، اسلامی اقدار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ان مقامات پر اخلاقی حدود کی پاسداری نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کے ایمان اور دینی رجحانات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ یہ ماحول دین کی تعلیمات سے دوری کا سبب بن رہا ہے، جو ارتداد کے فتنہ کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔

غربت اور جہالت نے مسلمانوں کو بے حد کمزور کر دیا ہے۔ جب بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تو دین کے اصولوں پر عمل کرنا لوگوں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ بھوکے پیٹ کسی نصیحت یا ہدایت کا اثر نہیں ہوتا، اور غربت کا شکار لوگ اپنی مشکلات کا حل غیر اسلامی راستوں میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ غربت اور جہالت کی یہ حالت انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر دین سے دوری کا سبب بنتی ہے، جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، گھروں میں دینی ماحول کا فقدان بھی نوجوان نسل کو دین سے دور کر رہا ہے۔ والدین کی لاپرواہی اور دینی تعلیمات کے حوالے سے غیر سنجیدگی کی وجہ سے بچے اسلامی اصولوں سے واقف نہیں ہو پاتے۔ اگر گھروں میں دینی ماحول فراہم کیا جائے تو بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت بہتر ہو سکتی ہے، لیکن اکثر والدین اس ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں، جس کا نتیجہ نسلوں کی دین سے بیگانگی کی صورت میں نکلتا ہے۔

مغربی تہذیب اور میڈیا نے مذہب بیزاری کو فروغ دیا ہے، اور اس کا سب سے زیادہ اثر نوجوان نسل پر ہوا ہے۔ میڈیا پر غیر اسلامی مواد کی بھرمار اور مغربی طرز زندگی کے پروپیگنڈے نے دین کو ایک بوجھ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوان دین کو اپنی زندگی کے لیے غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ، والدین کا اپنی مصروفیت کے باعث بچوں کو وقت نہ دینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بچوں کی دینی تربیت میں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے، لیکن مصروف والدین اکثر بچوں کے لیے وقت نہیں نکالتے۔ اس کے نتیجے میں بچے دین کی تعلیمات اور اسلامی اصولوں سے محروم رہ جاتے ہیں، اور ان کی تربیت ادھوری رہتی ہے۔ والدین کی عدم توجہی بچوں کو غیر اسلامی ماحول کی طرف دھکیل دیتی ہے، جو کہ ایک بڑی نقصان دہ صورتحال ہے۔

مسلمانوں کی ذمہ داری اور حل

ارتداد کا مسئلہ اور اس کے اسباب ہمارے لیے ایک بڑا سماجی اور ایمانی چیلنج ہیں، لیکن خوش قسمتی سے اس کا حل ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر ہم اس مسئلے پر توجہ دیں اور عملی اقدامات کریں، تو اس فتنے کا سدباب ممکن ہے۔ ذیل میں چند تجاویز اور حل پیش کیے گئے ہیں جو ہم مسلمانوں کو اختیار کرنا ہوں گے تاکہ اس اہم چیلنج کا سامنا کیا جا سکے۔

سادگی کو فروغ دینا ایک ایسا اقدام ہے جو معاشرتی مسائل کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ شادیوں کو سادہ اور اسلامی اصولوں کے مطابق منعقد کرنا ضروری ہے تاکہ غیر ضروری رسومات اور فضول خرچی کا خاتمہ ہو۔ شادیوں میں سادگی کا رجحان نہ صرف اسلامی تعلیمات کے قریب ہے بلکہ یہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے آسانی بھی فراہم کرتا ہے۔ معاشرتی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ان فضول خرچیوں اور رسم و رواج کو ترک کریں جو اسلامی اصولوں کے منافی ہیں۔ اسی کے ساتھ، وقت پر شادیوں کا اہتمام کرنا نوجوانوں کو اخلاقی اور روحانی مسائل سے محفوظ رکھنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں غیر ضروری تاخیر کے بغیر اسلامی اصولوں کے مطابق کرنی چاہئیں تاکہ وہ غیر ضروری دباؤ اور گناہوں سے بچ سکیں۔ وقت پر شادی کرنا نہ صرف معاشرتی مسائل کا حل ہے بلکہ یہ دین کی تعلیمات کے مطابق ایک محفوظ اور باوقار زندگی گزارنے کا ذریعہ بھی ہے۔

اسلامی تعلیم کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسا غیر مخلوط اور جدید تعلیمی نظام قائم کریں جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم کا بہترین امتزاج ہو۔ اسلامی تعلیم کے فروغ کے بغیر مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی ترقی ممکن نہیں۔ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جہاں نوجوان نسل کو اسلام کے اصولوں کے مطابق تربیت دی جائے اور انہیں دین و دنیا دونوں میں کامیاب بنایا جائے۔ اسی کے ساتھ، معیاری اسکول اور کالج کا قیام ارتداد کے مسئلے کا ایک مؤثر حل ہے۔ مسلمانوں کو لاکھوں کے جلسوں پر خرچ کرنے کے بجائے معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ان اداروں میں اسلامی اقدار کی پاسداری کی جائے تاکہ نوجوان نسل کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ جدید تعلیم بھی فراہم کی جا سکے۔ ایسے ادارے نوجوانوں کو دین سے قریب کرنے کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اسلامی دفاتر اور ملازمت کا ماحول پیدا کرنا بھی ایک اہم حل ہے۔ مخلوط ماحول میں کام کرنا نہ صرف دین سے دوری کا سبب بنتا ہے بلکہ یہ اخلاقی گراوٹ کا بھی باعث ہے۔ مسلمانوں کو ایسے دفاتر اور کام کے مقامات قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں اسلامی اصولوں کی پاسداری ہو اور ملازمین کو دین پر عمل کرنے میں آسانی ہو۔ اس سے نہ صرف دین کے قریب رہنے کا موقع ملے گا بلکہ معاشرتی برائیوں کا خاتمہ بھی ہوگا۔ ساتھ ہی، غربت کا خاتمہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ غربت کے خاتمے کے لیے زکوٰۃ اور صدقات کے نظام کو مضبوط کریں۔ اس کے علاوہ، غریبوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ غربت کا خاتمہ دین سے دوری کو کم کر سکتا ہے اور ارتداد کے مسئلے پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
گھروں میں دینی ماحول پیدا کرنا بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں اسلامی ماحول قائم کریں، جہاں بچوں کو دین کے اصولوں اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے۔ بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اور انہیں عملی طور پر دین کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ گھر میں نماز، قرآن کی تعلیم، اور اسلامی تاریخ پر مبنی گفتگو ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جو بچوں کو دین سے جوڑتا ہے۔ ساتھ ہی، نوجوان نسل کو دین کی اہمیت اور اس کے فوائد سے آگاہ کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو امن، سکون اور کامیابی کا ذریعہ ہے۔ نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات اور ان کے عملی فوائد کے بارے میں آگاہ کرنا ان کی زندگیوں میں دین کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ انہیں یہ سکھایا جائے کہ اسلام کی پیروی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

اسلامی ذرائع ابلاغ کا فروغ مغربی تہذیب کے منفی اثرات سے بچانے اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ ایسے ذرائع ابلاغ قائم کیے جائیں جو اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں، نوجوان نسل کو مغربی ثقافت کے اثرات سے محفوظ رکھیں اور انہیں دین سے جوڑنے کا ذریعہ بنیں۔ اسلامی چینلز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور دیگر ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے دین کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جا سکتا ہے، جو کہ دین کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ضروری ہے۔

آخر کار یہ کہنا بجا ہوگا کہ ارتداد کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج ہے جو نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی مسلم معاشرے کی جڑوں کو کمزور کر رہا ہے۔ اس پر خاموشی اختیار کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں، کیونکہ یہ دین کی بنیادوں کو متاثر کرنے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو دین کے قریب لانے کے لیے عملی اقدامات کریں، ان کی دینی تربیت کو اولین ترجیح دیں، اور اپنے گھروں میں ایسا ماحول قائم کریں جو اسلامی تعلیمات کو فروغ دے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ارتداد کے اسباب کو گہرائی سے سمجھا جائے اور ان کے حل کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کی جائے۔ معاشی مسائل، تعلیمی پسماندگی، اور غیر اسلامی ماحول جیسے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے عملی منصوبے ترتیب دیے جائیں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کو بھی اسلامی اقدار کے مطابق پیش کرنا ضروری ہے، تاکہ ہماری نسلیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے بھی دین کے قریب رہ سکیں۔

اسلام وہ دین ہے جو انسانیت کو امن، سکون اور فلاح کا راستہ دکھاتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے معاشرے کو مضبوط بنانے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں اور اپنی نسلوں کو ان تعلیمات کی روشنی میں پروان چڑھائیں۔ ارتداد کے فتنے پر قابو پانے کے لیے اجتماعی شعور اور متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے، تاکہ مسلم معاشرہ اپنے دین، ثقافت اور اقدار کے تحفظ کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔