تاریخ کے فیصلے: منادر، مساجد اور عدالتیں

تاریخ کے فیصلے: منادر، مساجد اور عدالتیں

از: – ہرش مندیر

__________________

قرون وسطی سےمسلم اکثریت پر مشتمل مغربی اتر پردیش کےشہر سنبھل میں، 24 ؍نومبر 2024 کو چھ افراد کی گولی لگنے سےموت ہو گئی، اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے شاہی جامع مسجد کے سروے کی وجہ سے مشتعل مظاہرین پر فائرنگ کی۔ یہ سروے مقامی عدالت کے حکم پر اس بات کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا تھاکہ آیامذکورہ مسجدکو صدیوں پہلے ایک ہندو مندر کو گرانے کے بعد تعمیرکیا گیا تھا؟ جج کو اس بات نے اس سروے سے باز رہنے پر مجبور نہیں کیا کہ ۱۹۹۱ کا عبادتی جگہوں کا قانون (پلیسز آف ورشپ ایکٹ) کے تحت یوم آزادی ِ ہند کے وقت قائم کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

سنبھل کچھ دنوں کے لئے لودھی خاندان اور پہلے مغل شہنشاہ بابر دونوں کا دارالحکومت تھا۔1526تا1530 شہنشاہ بابر کے مختصر دور حکومت میں تین بڑی مساجد تعمیر کی گئیں۔ ایک ایودھیا میں، دوسری پانی پت میں اور تیسری سنبھل میں۔ ایودھیا میں مسجد ایک ملک گیر انتہا پسند تحریک کا مرکز بن گئی جس نے ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کو جھلسادیا اور کچھ طریقوں سے ہندوستانی جمہوریہ کا رخ تبدیل کردیا۔ ایک ہجوم کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام کے تین دہائیوں بعد، ہندتو وادی کارکنان اب سنبھل میں اسی طرح کی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ ہری شنکر جین نے، جو گیان واپی مسجد-کاشی وشواناتھ تنازعے کے وکیل بھی ہیں، مقامی عدالت میں اس دعوے کے ساتھ درخواست کی کہ سنبھل میں شاہی جامع مسجد بھگوان کلکی کے مندر کو تباہ کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ درخواست گزاروں میں سنبھل میں کلکی دیوی مندر کے مہنت رشی راج گری بھی شامل تھے۔ مہنت نے ایک سال پہلے ہری شنکر جین سے اپنے اس دعوے کے بارے میں بات کی تھی کہ مسجد ایک مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ اپنے مندر کے احاطے میں، مہنت نے اپنے پیروکاروں اور پولیس والوں کو یہ شعر سنایا جنہیں اتر پردیش کی حکومت نے اس کی حفاظت کے لیے تعینات کیا ہے: ’’پانچ صدی سے جمع رکت جب شعلے بن کرکھولے گا، بابر بھی تب قبر سے اٹھ کر ہری ہر، ہری ہربولےگا۔‘‘

ان کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’صدیوں پرانا شری ہری ہر مندر جو بھگوان کلکی کے لیے وقف ہے‘‘سنبھل شہر کے وسط میں واقع ہے جسے جامع مسجد کمیٹی کے ذریعے ’’زبردستی اور غیر قانونی طور پر‘‘ مسجد کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔

سنبھل ایک تاریخی شہر ہے اور ہندو شاستروں میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک مقدس مقام ہے جہاں بھگوان وشنو کا اوتار کلکی کے روپ میں ظاہر ہوگا۔ اس شخصیت کا ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ درخواست دہندگان کا کہنا ہے کہ ’’خیال کیا جاتا ہے کہ کلکی بھگوان وشنو کا دسواں اور آخری اوتار ہے، جو کلیگ میں آئے گا۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ان کی آمد سے تاریک اور ہنگامہ خیز کلیگ کاخاتمہ ہوگااور اگلے دورکا آغازہوگا، جسے ستیگ کہا جاتا ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ ’’سنبھل کا شری ہری ہر مندر کائنات کے آغاز میں بھگوان وشوکرما نے خود بنایا تھا‘‘۔ غورطلب ہے کہ پٹیشن میں یہ دعوے ’’تاریخی حقائق‘‘ کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔

درخواست گزاروں نے الزام لگایا ہےکہ جب مغل شہنشاہ بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس نے ’’اسلام کی طاقت کو ظاہر کرنے اور ہندوؤں کو یہ احساس دلانے کے لیے متعدد ہندو مندروں کو تباہ کیا کہ وہ اسلامی حکمران کی رعایا ہیں‘‘۔ ان کا دعوی ہے کہ ۱۵۲۷۔۱۵۲۸ میں بابر کی فوج کے افسر ہندو بیگ نے سنبھل میں شری ہری ہر مندر کو جزوی طور پر منہدم کر دیا اورمسلمانوں نے مندر کی عمارت پر قبضہ کر لیا تاکہ اسے مسجد کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔

اس درخواست کے داخل ہونے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد، اسی دن – کوئی نوٹس جاری کیے بغیر اور مسجد کے متولی اور نگران کاروں کو سماعت کیے بغیر – چندوسی عدالت کے سول جج آدتیہ سنگھ نے 19 ؍نومبر کو ایک ایڈووکیٹ کمشنر کی قیادت میں ایک ٹیم کو ویڈیو گرافی کے ساتھ مسجدکےسروے کا حکم دے دیاکہ یہ سروے 29 ؍نومبر تک مکمل ہو جائے۔

اس غیرمناسب جلد بازی کے ساتھ وہ ٹیم، جس میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ بھی ریاستی حکومت کے نمائندے کے طور پر نمایاں طور پر شامل تھے، اسی دن شام کو مسجد پہنچی اور سروے کا آغاز کردیا۔ اس دن نہ تو مسجد انتظامیہ اور نہ ہی مقامی باشندوں نے سروے کے خلاف کوئی مزاحمت کی کیونکہ وہ حیران رہ گئے تھے۔

لیکن پانچ دن بعد جب مسلح پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ایک ہجوم کے ساتھ ٹیم دوبارہ پہنچی، تو سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے مستقل طور پر اس حوض کی پیمائش کا حکم دیا جس میں نمازی نماز سے پہلےوضو کرتے ہیں۔تب افواہ پھیل گئی کہ مسجد منہدم کر دی جائے گی۔ چنانچہ مشتعل ہجوم تیزی سے جمع ہو گیا، کچھ لوگوں نے پتھراؤ کیا، اور پولیس نے ہجوم پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ مسجد کے قریب چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ بعد میں کم از کم دو مزید شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے بعد میں اپنا دفاع کیا کہ اسں نے مارنے کے لیے گولی نہیں چلائی تھی بلکہ انہوں نے صرف ربڑ اور پیلٹ گنیں چلائی تھیں۔ ان کا دعوی تھا کہ جان لینے والی گولیاں دیسی ساخت کے ہتھیاروں سے چلائی گئیں نہ کہ پولیس رائفلز سے۔ لیکن مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ دیسی ساخت کے ہتھیاروں سے ہجوم کو مارنے کے لیے گولی چلاتی ہے تاکہ اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی زد پولیس پر نہ پڑے۔

__________________

واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے، جرأت مندانہ سچ بولنے کی زیادہ امید نہیں ہے۔ لیکن آخر میں رپورٹ میں جو بھی کہا جائے ، اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ مسجد کا سروے کرنے سے متعلق مقامی جج کاحکم ، اورضلعی انتظامیہ کے ایک سینئر افسر کی سروے میں شرکت تھی، جس نے آگ لگائی جو تیزی سے بھڑک اٹھی اور جس کےنتیجے میں متعدد نوجوانوں کی جانیں چلی گئیں ۔

جلد بازی کا حکم غیر قانونی تھا ۔ اولا اس لیے کہ جج نے قرون وسطیٰ کی مذکورہ مسجد کی انتظامیہ اور ائمہ کو سنے بغیر اپنی ہدایات جاری کر دیں۔ اس نے انہیں ہائی کورٹ میں حکم کو چیلنج کرنے کا وقت نہیں دیا۔ مزید یہ کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو قدیم یادگاروں کے تحفظ کے قانون 1904 کے تحت 22 ؍دسمبر 1920 کو ایک’’محفوظ یادگار‘‘ کے طور پرنام زد کیا گیا تھا۔ اور بعد میں اسے قومی اہمیت کی یادگار بھی قرار دیا گیاتھا۔ان اقدامات ک کی وجہ سےمذکورہ مسجد کو ریاست کی طرف سے خصوصی تحفظ کا حق حاصل تھا۔

لیکن اس سے بھی زیادہ مجرمانہ طور پر، اس حکم نے ملک کے ایک قانون کی خلاف ورزی کی۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایکٹ، جو 1991 میں ہندوستانی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، واضح طور پر کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو اس کی۱۵؍اگست 1947 میں واقع صورت حال کو بدلنے سے روکتا ہے (سوائے اس جگہ کے جس پر ایودھیا میں بابری مسجد کھڑی تھی)، اور جو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے لیے یہ قانون سخت سزاکا التزام کرتاہے۔

سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد سولہویں صدی کی مسجد ہے۔ یہ بلاشبہ 1947 میں بھی ایک مسجد تھی۔ 1991 کے آئین کے ایک سادہ مطالعے کی بنا پر، جج کو درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دینا چاہیے تھا، کیونکہ جس اہم حل کا مطالبہ کیا گیا تھا — ہندو عبادت گزاروں کو مسجد میں پوجاکرنے کی اجازت—اس کی مذکورہ قانون اجازت نہیں دیتا ۔ اصولاً تو جج کو مسجد کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے والے درخواست گزاروں کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے تھا، جس میں 1991 کے قانو ن کے تحت تین سال قید کی سزا کا التزام تھا۔

تاہم، سنبھل میں سول جج اس طرح کا غیر قانونی حکم دینے میں اکیلا نہیں ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں، دیگر مقامی عدالتوں نے بھی اسی طرح کے فیصلے سنائے ہیں جنہیں مختلف اعلیٰ عدالتوں نے برقرار رکھا ہے۔ حالیہ برسوں میں اعلیٰ عدالتیں نچلی عدالتوں کومساجد کو ہندو مندروں میں تبدیل کرنے، متنازعہ مذہبی مقامات پر ملکیت کے مقدموں اور مساجد میں ہندو ؤں کو پوجاکے حق یا داخلے کا دعویٰ کرنے والی درخواستوں پر سماعت سے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر مقدمات کو سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے گیان واپی مسجد کیس میں کیے گئے ایک انتہائی اہم تبصرے نے ممکن بنایا۔ مذکورہ تبصرے نےعدالتوں کی جانب سے 1991 کے قانون کے خلاف احکام کے لیےدروازے کھول دیے۔ پانچ ہندو خواتین نے اگست 2021 میں واراناسی سول کورٹ میں درخواست دائر کرکے’’ ہندو مورتیوں ‘‘کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ’’ ہندو مورتیوں ‘‘مسجد کے اندر واقع ہیں، اور یہ مسجد کاشی وشوناتھ مندر کو مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے منہدم کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ اپریل 2022 میں سول کورٹ کے جج نے دعوے کی تحقیقات کے لیے ایک’’ویڈیوگرافک سروے‘‘(جس طرح بعد میں سنبھل میں حکم دیا گیا ) کا حکم دیاتھا۔ اس حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔ اس کے بعد مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست یہ کہتے ہوئے کی کہ یہ سروے عبادت گاہوں کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔

مئی 2022 میں، اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اگرچہ 1991 کے قانون کے تحت مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل کرنے پر پابندی ہے، لیکن’’کسی جگہ کے مذہبی کردار کی جانچ، ایک عملیاتی تدبیر کے طور پر، ضروری نہیں کہ( مذکورہ ایکٹ کی) دفعہ 3اور 4 کے التزامات کی خلاف ورزی ہو…‘‘۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ 1991 کا قانون اس بات کی تحقیقات پر پابندی نہیں لگاتاکہ 15 ؍اگست 1947 کو کسی عبادت گاہ کی نوعیت معلوم کیا جائے ؟ قانون صرف جس چیز پر پابندی لگاتا ہے وہ تحقیقات کے بعد عبادت گاہ کا مذہبی کردار تبدیل کرنا ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کا یہ ایک غیر معمولی اور پریشان کن تبصرہ تھا۔ اگر آپ یہ طے کرنے کے لیےکسی مسجد کے سروے کی اجازت دیتے ہیں کہ آیا اس کے نیچےکوئی مندر تھا یا نہیں، لیکن پھر اس جگہ پر مندر کی بحالی کی کارروائی سے منع کرتے ہیں، تو یہ بےچینی، نفرت اور خوف کو پروان چڑھانے کا ایک یقینی نسخہ ہے، جو مختلف عقائد کے حامل افراد کے درمیان برسوں تک چلنے والے تلخ جھگڑوں کی صورت میں پھٹ سکتا ہے۔

جسٹس چندرچوڑ کےاس نقطہ ٔنظر نے سنبھل میں سول جج کے حکم کا راستہ صاف کیا جس کے نتیجے میں چھ آدمیوں کی موت واقع ہوگئی۔ اس نے گیان واپی کے تناظر میں سپریم کورٹ کے مبصر کی جانب سےبیان کردہ’’عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو چیلنج کرنےکا ایک سلسلہ‘‘ کو بھی جواز فراہم کیا۔ اسی وجہ سے متھرا ڈسٹرکٹ کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد میں ہندو’ نوادرات‘ کی موجودگی کا دعویٰ کرنے والی ایک درخواست کو قبول کرلیا ہے اور کرناٹک میں، نریندر مودی وچار منچ سری رنگا پٹنم میں ایک مسجد کے اندر نماز ادا کرنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجدٹیپو سلطان کے دور میں ایک ہنومان مندر کے اوپر بنائی گئی تھی۔ ان معاملات میں، اور بہت سے دیگر معاملات میں بھی مساجد میں ’’سروے‘‘ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔۔ قطب مینار کمپلیکس میں پوجا کرنے کے حق کی بحالی کا مطالبہ کرنے والا ایک مقدمہ بھی تھا کہ یہ اصل میں 22 ہندو اور جین مندروں کا کمپلیکس تھا۔ تازہ ترین دعویٰ، جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، ہندو سینا کے سربراہ کا ہے کہ اجمیر شریف درگاہ ، یعنی صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کا مقبرہ، دراصل ایک شیو مندر ہے۔ سول جج نے مناسب سمجھا کہ اس درخواست کو بھی تسلیم کر لیا جائے اور نوٹس جاری کر دیا جائے۔

کیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ 1991 کے قانون کی مراد سے متعلق اپنی تشریح میں درست تھے جب انہوں نے اس بات کی تحقیقات کی اجازت دی تھی کہ آیا 1947 میں موجود مساجد کے نیچے ہندو مندر تھے؟ یا انھیں سخت گمراہ کیا گیا تھا؟ 2019 کے ایودھیاکے فیصلےنے (جو ان ہی کے ہاتھوں لکھا گیا تھا) اس بات کی تصدیق کی تھی کہ 1991 کا قانون اس بات کو یقینی بنانے کے لیے منظور کیا گیا تھا کہ تاریخ کو’’پرانے تنازعات کو ختم کرنے اور نئے سرے سے تنازعات شروع کرنے کےآلہ‘‘ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔اس بات کی تحقیق کے لیےکہ آیا واقعی مساجد ہندو مندروں کو تباہ کرنے کے بعد بنائی گئی ہیں ، سروے کی اجازت دے کر کیاانھو ں نے مذکورہ قانون کے بالکل مخالف کام کی اجازت نہیں دی؟ کیا انھوں نے ہندتووادی تنظیموں کو، جنہیں اکثر حکمراں پارٹی اور منتخب حکومتوں کی حمایت حاصل رہتی ہے، گڑے مردے اکھاڑنے، پرانی لڑائیوں کو زندہ کرنے اور نئی لڑائیاں پیدا کرنے اور اس طرح فرقہ وارانہ انتشارکو خطرناک حد تک گہرا کرنے اور مذہبی لڑائیوں کو ہوا دینے کے قابل نہیں بنایا جو نسلوں تک جاری رہ سکتی ہیں؟

__________________

اس کا جواب دینے کے لیے اور عبادت گاہوں کے ایکٹ کے مقصد کی تصدیق کرنے کے لیے، میں نے اس زمانے میں جاری پارلیمنٹ میں بحث کا مطالعہ کیا جب یہ بل پیش کیا گیا اور منظور ہواتھا۔ ان پارلیمانی ریکارڈوں کو پڑھ کر تین دہائیوں پہلے کی یادیں تازہ ہو گئیں جب سیاسی رہنما سیکولرزم اور تعددیت کے نظریات کے دفاع اور جشن منانے میں آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ واضح اور جذباتی تھے۔

وہ سنہ 1991 کا زمانہ تھا۔ تقسیم کے فسادات کو 44 سال گزر چکے تھے جب مذہبی منافرت کے ہنگامے میں دس لاکھ جانیں چلی گئی تھیں اور گاندھی جی کو ایک مذہبی متعصب نے قتل کر دیاتھا۔ آزادی کی پہلی ڈیڑھ دہائی نسبتاً فرقہ وارانہ امن کے ساتھ گذری لیکن 1961 کے جبل پور فسادات کے بعد ملک میں پرتشدد فرقہ وارانہ جھگڑےدوبارہ شروع ہوگئے۔1991تک ملک میں فرقہ وارانہ جذبات بھڑکنےلگے تھے۔ اس سے دو سال پہلے، بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے شروع ہونے والی اپنی رتھ یاترا پر گھوم گھومکر ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ کیا تھا۔ یاترا جہاں سے بھی گزری، اس نے فرقہ وارانہ نفرت اور خونریزی کا ایک آتش گیر نشان چھوڑا۔ بابری مسجد ابھی تک ایودھیا میں کھڑی تھی۔ لیکن ہندتووادی نظریہ سازوں نے ملک بھر میں 3,000 مساجد کو’’واپس لینے‘‘کے اپنے عزم کا سختی سے اظہارشروع کردیا تھا ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈروں نے ایودھیا میں رام مندر کے لیےشروع کی گئی مہم ہی کی طرح وارانسی میں گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد پر دعویٰ کرنے کے لیے مہم چلانے کی دھمکی دی۔

انہی دنوں میں وزیر داخلہ ایس بی چوہان نے اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا ان الفاظ کے ساتھ جو آج اور بھی زیادہ روشن ہیں:’’ہم اس بل کو محبت، امن اور ہم آہنگی کی اپنی شاندار روایات فراہم کرنے اور فروغ دینے کے اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آزادی سے پہلے کے دور میں ملک کی دوستی اور ہم آہنگی کی روایت شدید دباؤ کا شکار تھی۔ آزادی کے بعد، ہم نے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھا ہے اور اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کی روایات کو ان کی ماضی کی شان میں بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس بل کے نفاذ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کو بحال کرنے میں مدد ملے گی‘‘۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان کی حکومت نے’’نئے تنازعات پیدا کرنے اور پرانے تنازعات کو جنم دینے کا ارادہ نہیں کیا جسے لوگ طویل عرصے سے بھول چکے تھے۔ اس کے بجائے، اس نےعبادت گاہوں کی تبدیلی کے حوالے سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے تنازعات کے پیش نظر ان اقدامات کو اپنانا ضروری سمجھا جس سے فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوتا ہے‘‘۔

ممکنہ طور پر اس بل کی بی جے پی ارکان نے شدید مخالفت کی۔ حزب اختلاف کے رہنما ایل کے اڈوانی نے اس بل کے خلاف فرد جرم کے ساتھ احتجاج کرنے کے لیے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا:’’میرا ماننا ہے کہ یہ بل مکمل طور پر غلط ڈھنگ سے تیارکیا گیا ہے۔یہ بل قطعی غیر ضروری ہے۔ ہم خود کو اس بل کے ساتھ جوڑ نہیں سکتے۔ ہم پارلیمنٹ میں اس کے پیش کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں اور احتجاجاً واک آؤٹ کر رہے ہیں‘‘۔

رام جنم بھومی تحریک کی ایک اہم رہنما اوما بھارتی نے بل کے خلاف ایوان میں جذباتی انداز میں بحث کی: ’’کیا ہم تاریخوں میں ہیرا پھیری کے ذریعے تاریخی حقائق کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ کیا ہم تاریخ کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے اس شرمندگی کے بارے میں بات کی جب انہوں نے وارانسی کا دورہ کیا اور مسجد کے کیمپس میں مندر کے کھنڈرات دیکھے۔ انہوں نے دلیل دی کہ تاریخ میں تباہ کیے گئے مندروں کو واپس کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ’’اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہم آہنگی سے رہ سکیں۔ ماضی میں کی گئی تمام غلطیوں کے لیے بھگوان سے معافی مانگیں اور مستقبل میں خونریزی سے بچنے کی پوری کوشش کریں‘‘۔ انہوں نے الزام لگایا: ’’1947 کی حالت کو برقرار رکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ ]مسلمانوں کو[ خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘‘۔

ایک اور بی جے پی ایم پی رام نگینہ مشرا نے اسے’’ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مقصد سے پیش کیا گیا ایک کالا بل قرار دیا…‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’یہ ریکارڈ پر ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک بھی مسجد کو نقصان نہیں پہنچا ہے‘‘۔ انہوں نے اپیل کی کہ اس بل کو ایک طرف رکھ دیا جائے’’تاکہ قوم کو متحد اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی سےمحفوظ رکھا جا سکے‘‘۔

سینئر بی جے پی رہنما رام نائک نےاس بل پرمزید سخت تنقید کی اور اسے ہندوستانی پارلیمنٹ میں’’سب سے سیاہ‘‘ بل قرار دیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بل’’مغل اور برطانوی دور حکومت میں کئے گئے ہندو مندروں پر تمام تجاوزات کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ یہ ان لوگوں کو انعام ادا کرنا چاہتا ہے جنہوں نے ہندو عبادت گاہوں کی مذہب کی رو سے توہین کی ہے‘‘۔

لیکن بی جے پی کے علاوہ دوسری تمام جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے جوش و خروش سے بل کا دفاع کیا۔ منی شنکر ایّر نے اوما بھارتی کو جواب دیا: ’’اوما بھارتی نے ہمیں بتایا کہ جب انہوں نے وارانسی کا دورہ کیا تھا اور ایک مندر اور مسجد کو ایک ساتھ دیکھا تھا، تو انہیں یہ احساس ہوا کہ مندر کو گرا دیا گیا ہے۔ وہ اسے ہندو مذہب کی توہین سمجھتی تھیں۔ ان کے بقول ایک مسلمان بادشاہ نے وہاں مسجد بنوائی تھی۔ ان میں اور مجھ میں بس ایک ہی فرق ہے۔ وہ جس چیز کو بندگی کی علامت سمجھتی ہیں، میں اس چیز کو سیکولرزم کی علامت سمجھتا ہوں… جب میں مندر اور مسجد ایک ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح ہم اسلام کے بغیر ہندوستان کے بارے میں نہیں سوچ سکتے اسی طرح ہم ہندوستان کے بغیر اسلام کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ اسلام اور ہندوستان اسی طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے میں اور اوما بھارتی جی، دونوں کا انسانیت سے تعلق ہے‘‘۔

سی پی آئی (ایم) کی ایک رکن پارلیمنٹ مالنی بھٹاچاریہ نے کہا کہ بل میں کٹ آف کی تاریخ’’اہم ہے کیونکہ اس تاریخ [15 اگست 1947] کو سمجھا جاتا ہے کہ ہم ایک جدید، جمہوری اور خودمختار ریاست کے طور پر ابھرے ہیں اور ہم نے ایسی بربریت کوہمیشہ کے لیےماضی میں دھکیل دیا ہے۔ اس تاریخ سے، ہم نے اپنے آپ کو الگ کیا ہے… ایک ایسی ریاست (قائم کرکے) جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور جو تمام مختلف مذہبی فرقوں کو یکساں حقوق دیتی ہے۔ لہذا، اس سے پہلے جو کچھ بھی ہوا ہو، ہم سب کو توقع تھی کہ اس تاریخ کے بعد سے، ماضی کی طرح کا کوئی واقعہ نہیں دوہرایا جانا چاہیے‘‘۔

کانگریس کے ایم پی کے ۔وی۔ جیکب نے اپنی ریاست کیرالا کی راجدھانی تریویندرم کی چمک دمک کی جہاں ایک ہی کمپاؤنڈ میں آپ کو ایک’’خوبصورت مندر‘‘، ایک’’خوبصورت مسجد‘‘ اور ایک’’خوبصورت چرچ‘‘ایک ساتھ نظر آتا ہے۔ انہوں نے ہر عقیدے کے رواج کے بارے میں بتایا کہ جب آپ اپنی مذہبی عبادت گاہ میں عبادت کرتے ہیں تو گویا آپ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہ میں عبادت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’خدا تو بس ایک ہی ہے‘‘ جس کی ہم مختلف طریقوں سے عبادت کرتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم مذہب کے نام پر لڑ رہے ہیں۔ کافی خون بہا ہے۔ ہم نے بابائے قوم کو بھی مار ڈالا۔ جیکب نے کہا: انہیں یقین ہے کہ اگر بھگوان رام ظاہر ہوئے تو وہ بھی اپنے پیروکاروں کو بے گھر لوگوں کے لیے ہزاروں پناہ گاہیں بنانے کی ہدایت کریں گے۔ انہوں نے اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں کہا:’’جب میں یسوع مسیح کی عبادت کرتا ہوں اور اپنے پڑوسیوں سے نفرت کرتا ہوں جو ہندو یا مسلمان ہیں، تو میں یسوع مسیح کا سچا پیروکار ہو ہی نہیں سکتا ہوں‘‘۔

امور داخلہ کے وزیر مملکت ایم۔ ایم۔ جیکب نے بھی اسی طرح دلیل دی کہ’’اس ملک میں تمام مذاہب کا جوہر۔۔۔ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار ہے۔ میں نے کوئی ایسا مذہب نہیں دیکھا جو نفرت کی تبلیغ کرتا ہو۔ لہذا، جب تمام مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور انسانیت کی خدمت اور جان قربان کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں − اگر یہ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے لیے ضروری ہے −تو مجھے اس طرح کی لڑائی کی کوئی وجہ نہیں ملتی، اگر آپ واقعی مذہبی ہیں۔۔۔ہماری کوشش ہو گی کہ کسی بھی قیمت پر امن قائم کیا جائے‘‘۔

رام ولاس پاسوان نےان خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’’مذہب کا مقصد ہی اندھیرے کو دور کرنا اور روشنی اور علم فراہم کرنا ہے۔ چراغ کو گھر کو روشن کرنے کے ساتھ ساتھ جلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آج مذہب کو نفرت اور تفرقہ پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’آج سوال ہندو مسلم کا نہیں ہے، نہ مندر، مسجد یا گرودوارے کا ہے۔ آج جو مسئلہ داؤ پر لگا ہوا ہے وہ ہمارا آئین ہے۔ مسئلہ اس ہندوستان کو بچانے کا ہے جس کی آزادی کے لیے ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی مل کر لڑے تھے‘‘۔ انھوں نے کہا: ایسا قانون ضروری تھا کیونکہ ہندوستان بہت سے مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا گھر ہے۔ ہمارا ملک ایک باغ کی طرح ہے جس میں ’’ایک نہیں تمام پھولوں کو کھلنے کا موقع ملے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ملک مندر یا مسجد جیسے معمولی مسائل پر جھگڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سامنے اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل ہیں – غربت کے مسائل، بے روزگاری، ناخواندگی، دیہاتوں میں پانی کی فراہمی وغیرہ‘‘۔

سینئر مارکسی ممبر پارلیمنٹ سومناتھ چٹرجی نے کہا : ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی غم زدہ روح آج کسی نئے مندر یا مسجد یا گرودوارے کے لیے نہیں رو رہی ہے۔ وہ جس چیز کی وہ خواہاں ہے وہ ذات، نسل یا مذہب سے قطع نظر اپنے تمام لوگوں کے لیے ایک باوقار اور مہذب زندگی ہے۔ وہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہمارے تمام لوگوں کو دن میں دو وقت کا کھانا میسرہو، ان کے سروں پر چھت ہو، لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ہو، اور استحصال، بھوک، افلاس، بے روزگاری، صحت کی خرابی اور بدحالی سے انکو آزادی حاصل ہو۔‘‘

________________

عبادت گاہوں کے قانون کی اہمیت اور مقصد، جسے اس وقت کے ارکان پارلیمنٹ نے اس قدر وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا، سپریم کورٹ نے بھی اسے 2019 میں دہرایا تھا ۔وہ زمین جس پر بابری مسجد صدیوں سے کھڑی تھی، اسے اپنےتاریخی لیکن انتہائی متنازعہ فیصلے سے سپریم کورٹ نے رام مندر کی تعمیر کے لیےدے دیا ۔ ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون میں 15؍اگست 1947 کی کٹ آف تاریخ مقرر کرکے ہندوستان نے ’’ماضی کے زخموں کو مندمل کرنے‘‘ کا موقع فراہم کیاہے۔ انھوں نے اپنے فیصلے میں کیا کہ عوامی عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کے تحفظ کو اسی حالت پر جیسا کہ وہ 15 ؍اگست 1947 کو تھے لازمی قرار دیتے ہوئے ’’پارلیمنٹ نے طے کیا کہ نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی ہر مذہبی طبقے کو یہ اعتماد فراہم کرتے ہوئے ماضی کی ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے آئینی بنیاد فراہم کرتی ہےکہ ان کی عبادت گاہوں کو محفوظ رکھا جائے گا اور ان کے کردار کو تبدیل نہیں کیا جائے گا‘‘۔ ججوں نے کہا کہ’’عدالت ان دعووں کو قبول نہیں کر سکتی ہے جو آج عدالت ایسے مقدموں کو قبول نہیں کرسکتی ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ مغل حکمرانوں نے ہندو عبادت گاہوں کے کردار کو بدلاتھا۔ کوئی بھی شخص جو قدیم حکمرانوں کی کسی بھی کارروائی کے خلاف چارہ جوئی چاہتا ہے،اس کے لیے قانون میں کسی مددکا سامان نہیں ہے…‘‘

سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے مذکورہ قانون کو آئین کی بنیادی اقدار سے نمایاں طور پر جوڑ دیا اور کہا:’’ریاست نے، قانون نافذ کرکے، آئین سے وابستگی کو نافذ کیا ہے اور تمام مذاہب اور سیکولرزم کی مساوات کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو عملی جامہ پہنایا ہے، جو کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔‘‘

اگر واقعی 1991 کا عبادت گاہوں کا ایکٹ آئین کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے، تو ہمیں یہ نتیجہ بھی اخذ کرنا ہوگا کہ جسٹس چندر چوڑ مجرمانہ طور پر غلطی پر تھے جب انہوں نے تبصرہ کیا کہ اگرچہ 1991 کا قانون کسی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو تبدیل کرنے پر پابندی عائد کرتاہے مگر پھربھی عبادت گاہ کے اصل کردار کا تعین کرنا قانوناً جائز ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے فرنٹ لائن میگزین سے بات کرتے ہوئے دلیل دی کہ اگر سروے میں 400 سال پہلے کا کوئی ڈھانچہ ظاہر ہوتا ہے تو بھی 1991 کے قانون کی وجہ سے اس جگہ کا قانونی کردار نہیں بدلے گا۔ انھوں نے مزید کہا: ’’ہمیں اس بات سے سروکار نہیں کہ 400 سال پہلے کیا ہوا تھا بلکہ سروکار اس بات سے ہے کہ 15 ؍اگست 1947 کو وہ جگہ کیا تھی‘‘۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور انڈین ہسٹری کانگریس کے سکریٹری سید علی ندیم رضوی نے اس بات سے اتفاق کیا۔ انھوں نے سوال کیا: ’’ اگر (سروے سے پتہ چلتا ہے کہ) وہاں ایک مندر تھا، تب بھی اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ اورنگ زیب ایک خودمختار بادشاہ تھا جو جمہوریت اور آئین کے مطابق نہیں چلتا تھا۔ وہ سترھویں صدی کا آدمی تھا۔ کیا ہم پشیہ متر سنگا کو بھی سزا دینے والے ہیں جس نے بدھ مندروں کو مسمار کرنے کی مہم چلائی تھی؟ انہوں نے کہا: ’’میں اس بات سے پریشان نہیں ہوں کہ بی جے پی کیا کر رہی ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ جو لوگ ہماری اعلیٰ ترین عدالتوں میں بیٹھے ہیں وہ آئین اور پارلیمنٹ کےان تمام قوانین کو فراموش کر چکے ہیں جو ثقافتی ورثے کے ڈھانچے کی حفاظت کے لیے ہیں ۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ڈی۔ وائی۔ چندرچوڑ کے اس افسوسناک تبصرے نے کہ 1991 کا قانون 1947 سے پہلے کے مقامات عبادت کے مذہبی کردار کی تحقیق پر پابندی نہیں لگاتا، تاریخی مساجد کا سروے کرنے کے عدالتی احکام کاسیلاب کھول دیا ہے جس کی آڑ میں عدالتوں میں کیس دائر کیے جارہے ہیں کہ معلوم کیا جاسکےکہ آیا متعینہ مساجد صدیوں پہلےمندروں کو تباہ کرکےتعمیر کی گئی تھیں۔ اس نے حکمران جماعت اور منتخب حکومتوں کی حمایت یافتہ ہندتووادی تنظیموں کو خطرناک طریقے سے، بلکہ لاپرواہی سے، ماضی کو کریدنے کا جواز عطا کیا ہے۔ اس نے پرانے تنازعات کو زندہ کرنے اور نئے تنازعات کھڑے کرنے میں مدد دی ہے، اور اس خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ انتشار کے ذریعے، مذہبی لڑائیوں کو ہوا دی جو نسلوں تک جاری رہ سکتی ہیں۔ جسٹس چندر چوڑ کی تمام متنازعہ عدالتی کارروائیوں میں سے،عبادتگاہوں کے بارے میں اس کےمذکورہ فیصلے کو تاریخ ہندوستان کے سماجی تانے بانے کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ قرار دے سکتی ہے۔

جسٹس ڈی۔ وائی۔ چندر چوڑ کے بعد آنے والے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے سنبھل میں لگی آگ بجھانے کے لیے مسجد کے سروے پر روک لگا کر بہت اچھاکام کیاہے۔ عدالت نے فریقین کو ہدایت کی ہے کہ وہ مزید ہدایات کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔ لیکن چیف جسٹس نے اپنے پیشرو کےاس تبصرے سےرجوع کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جس نے سنبھل اور کئی دیگر مساجد کے سروے کو ہری جھنڈی دکھائی تھی۔ کوئی بھی ہائی کورٹ ،سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی قانون کی تشریح کو پلٹ نہیں سکتا۔ یہ اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے۔ جب تک سابق چیف جسٹس کا تبصرہ قائم رہے گا،تب تک عدالتی حکم نامے کے سروے کے ذریعے مندر اور مسجد کی لڑائیوں کا ڈراؤنا خواب جاری رہے گا،جو ملک کی روح کو مزید مجروح کرتا رہے گا۔

عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے پیچھے کا مقصد،جسے اس وقت کے اراکین پارلیمنٹ نے اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کیا، ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کو محفوظ بنانا تھا۔ ایودھیا میں ایک مسجدسے متعلق پرتشدد تصادم نے ملک کو ایک نسل سے بھی زیادہ طویل عرصے تک منقسم کر کےرکھ دیا۔ اس کی دراڑیں آج بھی گہری ہیں۔ ملک بھر کی عدالتوں کو قانون کی روح سے انحراف کرنے اور تاریخ کے زخموں کو ازسرنو کریدنےکی اجازت دے کر، ہندوستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ، اس کی مقامی عدالتوں، سب سے بڑی سیاسی جماعت اور یہاں تک کہ کمزور اپوزیشن نےبھی ہندوستان کے لوگوں کو بری طرح سے مایوس کیا ہے۔

مضمون نگار کاروان محبت کے قائد اور سنٹر فار ایکیویٹی اسٹڈیز کے سربراہ ہیں

[بشکریہ محمد علم اللہ ]

Exit mobile version